ابوشامل نے کہا:7.5 ملین کی کل سوئس آبادی میں سے 3 لاکھ 40 ہزار سے زائد مسلمان ہیں یعنی کل آبادی کا 8 فیصد (2000 کی مردم شماری کے مطابق)
پاکستان میں تمام اقلیتیں یعنی ہندو، عیسائی اور سکھوں سمیت دو فیصد بھی نہیں
لیکن اس کے باوجود یہاں کتنی بڑی تعداد میں گرجے، مندر اور گردوارے موجود ہیں۔
میناروں پر پابندی لگانے میں کیا منطق ہے؟مہوش علی نے کہا:اور صرف یہ نہیں کہ مساجد کو مینار بنانے کی اجازت نہیں، بلکہ ہندو مندر اور سکھوں کے گوردواروں کو بھی بلند ٹاور نہیں بنانے دیا جاتا۔
اگر سوئٹزر لینڈ میں صرف 4 مساجد ہیں تو اسکی تعداد کی ذمہ دار حکومت نہیں ہے، مگر مسلم ایسا تاثر دے رہے ہیں جیسے کہ انہیں زبردستی روکا گیا ہوا ہے کہ وہ مزید مساجد نہ بنا سکیں۔
آپ اپنے ہی دیے ہوئے پہلے آرٹیکل کو پڑھ لیں جہاں مسلمانوں کے ایسے 140 عبادت گاہوں کا ذکر ہے جن میں اور عام مسجد میں فرق صرف میناروں کا ہے۔
اور اگر ہم اپنے گریبان میں دیکھیں تو ہمیں شاید اور نظر آ جائے کہ یورپین کیوں اب مسلمان کمیونٹی سے ہچکچانے لگے ہیں۔ صرف ایک مثال پیش کرنا چاہوں گی کہ یہاں ہماری پاکستانی مسجد کے ایک کرتا دھرتا ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد خوش ہوتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ القاعدہ نے یہ حملہ کرنے میں بہت دیر کر دی اور یہ حملہ تو انہیں بہت پہلے کر دینا چاہیے تھا۔۔۔۔ (اور یہ پاکستانی مسجد کے کرتا دھرتا وہ شخص ہیں جو کہ پچھلے پندرہ بیس سالوں سے حکومت سے خیرات لے کر شوشل کے لائف پر اپنا اپنی بیوی اور بچوں کا پیٹ پال رہا ہے حتی کہ بچے جوان ہو کر علیحدہ ہو چکے ہیں)۔
اب خود بتائیں جب مسلمان کمیونٹی یہاں بیٹھ کر یہ حرکتیں کرے گی تو نفرتیں پیدا ہو گیں یا نہیں؟
بے شک مسجد کے میناروں کا مسئلہ ہمارے شہر اور قریبی چھوٹے شہروں میں بھی پیدا ہوا تھا اور ہم نے اسکے حق میں ہی کنونسنگ کے لیے Burger Master (ناظم شہر) اور دیگر پولیٹیکل پارٹیز سے رابطے کیے تھے۔۔۔۔ (یعنی میں بھی میناروں کی تعمیر کے حق میں ہوں)۔۔۔۔۔۔ مگر یہ ثانوی مسائل ہیں اور ہمارا بنیادی مسئلہ ہماری اپنی اصلاح ہونا چاہیے۔
اگر ہماری مسلمان کمیونٹیز اپنا اچھا امیج بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں (بجائے انتہا پسندی اور نفرت پھیلانے کے) تو یقینا اسی یورپ میں بہت سے لوگ خود ہی مینار بنانے کے سلسلے میں ہمارے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے۔
آپ ہی بتائیں میں کیا کہوں! آپ لوگ آخر ہر چیز کا ذمہ دار مسلمانوں کو ہی کیوں ٹھہراتے ہیں۔ دیکھیں معتدل نقطہ نظر یہ نہیں ہوتا کہ آپ معاملات کو ایک ہی نظر سے دیکھیں، نائن الیون، سیون الیون، سیون سیون، میڈرڈ بم دھماکے، مساجد کا معاملہ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز کارٹون ہر معاملے میں مسلمان قصور وار اور دیگر تمام بری الذمہ! واہ کیا neutral نقطۂ نظر ہے!
آپکے مندرجہ بالا ارشادات واضح طور پر ذاتیات میں پڑ جانے کیطرف اشارہ کرتے ہیں۔چند ایک اور دھاگوں میں بھی آپکا طرزِ تخاطب قدرے سخت ہے۔ویسے حکیم الامت حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی یہ نظم شاید اسی موقع اور اسی قبیل کے افراد کے لیے کہی گئی تھی
مہوش علی نے کہا:ابوشامل برادرؒ:
۔۔۔۔۔تو مقامی و غیر ملکی مسلمانوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے تو ان کے لیے عبادت گاہوں کی ضرورت ہے لیکن آپ کا یہ نقطۂ نظر کہ انہیں تعمیر نہیں کرنے دیا جا رہا تو ٹھیک کیا جا رہا ہے، لیکن جہاں ضروری ہی نہیں وہاں بنانے پر زور۔ یہ دوغلہ نقطۂ نظر آخر کیوں؟
بھائی جی،
میں نے کب کہا ہے کہ مسلمانوں کو یورپ میں مساجد تعمیر نہیں کرنے دیا جا رہا ہے تو ٹھیک کیا جا رہا ہے؟؟؟ بھائی جی مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہو رہی ہے بلکہ اکثر آپ سے گفتگو کے دوران مجھے آپ کے آرگومنٹ سمجھ نہیں آ پاتے ۔ شاید میری عقل کا ہی قصور ہو۔ اور اللہ بہتر جاننا والا ہے۔
ابو شامل برادر:
ویسے کچھ عرصہ قبل ہی لاہور میںایک مندر (کٹاس راج مندر) کا افتتاح ہوا ہے اس بارے میں آپ کیا کہیں گی؟ (اس بارے میں بھی بتائیے گا کہ مساجد گرا کر مندروں کو آباد کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟)
اگر مسجد گرا کے مندر آباد کرنے کی بات ہے تو شاید آپ بابری مسجد کی بات کر رہے ہیں۔
تو بھائی جی،
میرا نظریہ تو ہمیشہ بہت صاف رہا ہے کہ "انتہا پسندی" جہاں بھی جس طبقے اور قوم میں بھی آ جاتی ہے، وہ فتنہ ہے۔ چاہے یہ مسلمان انتہا پسندی کا فتنہ ہو یا ہندو، عیسائی، یہودی انتہا پسندی کا۔۔۔۔۔ یا پھر لسانی و علاقائی انتہا پسندی کا۔ ۔۔۔۔ یہ سب انتہا پسندیاں فتنہ ہیں۔
ابو شامل برادر:
مجھے آپ کے اس امر سے اختلاف ہے کہ پاکستان کا مذہبی طبقہ نئی اقلیتی عبادت گاہوں کے قیام کا مخالف ہے اور نہ ہی میرے علم میں یہ ہے کہ مودودی نے اپنی کسی کتاب میں ان پر پابندی لگانے کا ذکر کیا بلکہ میری معلومات کے مطابق "اسلامی ریاست" نامی کوئی کتاب مولانا نے نہیں لکھی۔
مولانا مودودی کی اس کتاب کا نام اگر "اسلامی ریاست" نہیں تو پھر "حکومت اسلامی" تھا، اور میں نے خاص طور پر یہ انکی یہ کتاب غیر مسلمین کے حوالے سے پڑھی تھی۔ اس کے علاوہ بھی میرے مطالعہ میں علماء حضرات کی آراء آتی رہی ہیں (اگرچہ کہ میرے پاس ابھی ریفرنس موجود نہیں) کہ غیر مسلمین کو نئی عبادت گاہیں آباد نہ کرنی دی جائیں۔
بہرحال اس مسئلے کو ٹھوس ثبوت آنے تک مؤخر کرتے ہیں۔
\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\
اور میں نے مسلمان کالم نگار پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:
اگر سوئٹزر لینڈ میں صرف 4 مساجد ہیں تو اسکی تعداد کی ذمہ دار حکومت نہیں ہے، مگر مسلم ایسا تاثر دے رہے ہیں جیسے کہ انہیں زبردستی روکا گیا ہوا ہے کہ وہ مزید مساجد نہ بنا سکیں۔
تو اسکے جواب میں آپ نے کچھ عجیب ہی آرگومنٹ دیا ہے جو یہ ہے:
آپ ہی بتائیں میں کیا کہوں! آپ لوگ آخر ہر چیز کا ذمہ دار مسلمانوں کو ہی کیوں ٹھہراتے ہیں۔ دیکھیں معتدل نقطہ نظر یہ نہیں ہوتا کہ آپ معاملات کو ایک ہی نظر سے دیکھیں، نائن الیون، سیون الیون، سیون سیون، میڈرڈ بم دھماکے، مساجد کا معاملہ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز کارٹون ہر معاملے میں مسلمان قصور وار اور دیگر تمام بری الذمہ! واہ کیا neutral نقطۂ نظر ہے!
پہلی بات تو یہ کہ آپکا یہ جواب کہیں بھی میرے اعتراض سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔
دوم یہ کہ میری نظر کے متعلق آپ پوچھ رہے ہیں تو نائن الیون، میڈرڈ بم دھماکے مسلمان انتہا پسندوں کی غلطی اور اُن مسلمان انتہا پسندوں کی بھی جو آج تک اسکا دفاع کر رہے ہیں۔
جبکہ کارٹوں کا شائع کرنا اہل مغرب کی زیادتی۔
تو جو میرا نظریہ ہی نہیں تھا آپ نے کیسے اُسے مجھ پر لاگو کر دیا۔ یا حیرت۔
تو جب یورپ میں رہنے والے مسلم احمقانہ حرکتیں کریں گے تو اسکا خمیازہ انہیں مغرب میں نفرت کی صورت میں ہی ملے گا اور تبلیغ کی جو آسانی ملی ہوئی ہے، وہ بھی جاتی رہے گی۔
مثلا آج ہی جنگ اخبار کی خبر ہے
تو مجھے جیسے لوگ تو اسکی کھل کر مخالفت کرتے ہیں، مگر ابو شامل بھائی آپ جیسے حضرات کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ آپ لوگ یا تو ایسی حرکتوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہوتے ہیں یا پھر خاموش ہوتے ہیں (یعنی مغرب کی غلطیوں پر فورا احتجاج آتا ہے مگر مسلم انتہا پسندی کی صورت میں کبھی مذمت دیکھنے کو نہیں آتی)۔ بہرحال یہ میری رائے تھی جو شاید آپ کے انفرادی معاملے میں غلط ہو، مگر اکثریت اسی دو رخے کردار میں مبتلا ہے۔
\\\\\\\\\\\\\\\\\\
میناروں کے متعلق میں پہلے ہی لکھ چکی ہوں کہ میں خود اسکی تعمیر کے حق میں ہوں۔ شاید اگر نائن الیون جیسے واقعات نہ ہوئے ہوتے تو ہمیں یورپ میں شاید اتنی مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور آسانی سے مینار بنانے کی اجازت مل جاتی۔
(مثلا جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں ابھی ایک مسجد کا نقشہ بمع میناروں کے منظور ہوا ہے اور شہر کے جرمن ناظم نے خود دلچسپی لے کر یہ نقشہ منظور کروایا ہے کیونکہ سڑک کے دوسری طرف ایک کلیسا اپنے بلند مینار کے ساتھ موجود تھا۔
بہرحال شاید پاکستان میں رہنے والے یہ بات نہ سمجھ سکیں، مگر یورپ میں امریکہ جیسا معاملہ نہیں ہے بلکہ ہر شہر کے تعمیر کا ایک مزاج ہے اور اس میں ہمیشہ میناروں جیسی عمارتوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ تو آجکل مساجد کے مینار تعمیر کرنے کی مخالفت صرف مذھبی عناد کی وجہ سے نہیں ہے (جیسا کہ پاکستانی قلم کار تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں) بلکہ اصل آرگومنٹ تمام قسم کی میناروں جیسی عمارتوں کی تعمیر کا ہے۔ (یعنی آپ کو مسجدیں بنانے کی مکمل آزادی ہے جہاں آپ کھل کر عبادت و تبلیغ کریں، مگر صرف مینار نہ بنائیں)۔
\\\\\\\\\\\\\\\\\
اور یورپ کی عوام کو صلیبی جنگوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے (سوائے شاید بہت ہی قلیل اقلیت کے)۔ بلکہ عوام کی اکثریت جنگ کو برا سمجھتی ہے اور امن کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ لیکن اگر مسلمان انتہا پسند اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے تو یہ چیز وقت کے ساتھ ساتھ الٹی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ صلیبی انتہا پسند پھر سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور انہیں عوام کی حمایت بھی ملنا شروع ہو جائے گی۔ (جبکہ آج ان صلیبی انتہا پسندوں کو یورپ کی عوام کوئی وقعت نہیں دیتی )۔
محب علوی نے کہا:مہوش علی نے کہا:ابوشامل برادرؒ:
۔۔۔۔۔تو مقامی و غیر ملکی مسلمانوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے تو ان کے لیے عبادت گاہوں کی ضرورت ہے لیکن آپ کا یہ نقطۂ نظر کہ انہیں تعمیر نہیں کرنے دیا جا رہا تو ٹھیک کیا جا رہا ہے، لیکن جہاں ضروری ہی نہیں وہاں بنانے پر زور۔ یہ دوغلہ نقطۂ نظر آخر کیوں؟
بھائی جی،
میں نے کب کہا ہے کہ مسلمانوں کو یورپ میں مساجد تعمیر نہیں کرنے دیا جا رہا ہے تو ٹھیک کیا جا رہا ہے؟؟؟ بھائی جی مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہو رہی ہے بلکہ اکثر آپ سے گفتگو کے دوران مجھے آپ کے آرگومنٹ سمجھ نہیں آ پاتے ۔ شاید میری عقل کا ہی قصور ہو۔ اور اللہ بہتر جاننا والا ہے۔
ابو شامل برادر:
ویسے کچھ عرصہ قبل ہی لاہور میںایک مندر (کٹاس راج مندر) کا افتتاح ہوا ہے اس بارے میں آپ کیا کہیں گی؟ (اس بارے میں بھی بتائیے گا کہ مساجد گرا کر مندروں کو آباد کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟)
اگر مسجد گرا کے مندر آباد کرنے کی بات ہے تو شاید آپ بابری مسجد کی بات کر رہے ہیں۔
تو بھائی جی،
میرا نظریہ تو ہمیشہ بہت صاف رہا ہے کہ "انتہا پسندی" جہاں بھی جس طبقے اور قوم میں بھی آ جاتی ہے، وہ فتنہ ہے۔ چاہے یہ مسلمان انتہا پسندی کا فتنہ ہو یا ہندو، عیسائی، یہودی انتہا پسندی کا۔۔۔۔۔ یا پھر لسانی و علاقائی انتہا پسندی کا۔ ۔۔۔۔ یہ سب انتہا پسندیاں فتنہ ہیں۔
ابو شامل برادر:
مجھے آپ کے اس امر سے اختلاف ہے کہ پاکستان کا مذہبی طبقہ نئی اقلیتی عبادت گاہوں کے قیام کا مخالف ہے اور نہ ہی میرے علم میں یہ ہے کہ مودودی نے اپنی کسی کتاب میں ان پر پابندی لگانے کا ذکر کیا بلکہ میری معلومات کے مطابق "اسلامی ریاست" نامی کوئی کتاب مولانا نے نہیں لکھی۔
مولانا مودودی کی اس کتاب کا نام اگر "اسلامی ریاست" نہیں تو پھر "حکومت اسلامی" تھا، اور میں نے خاص طور پر یہ انکی یہ کتاب غیر مسلمین کے حوالے سے پڑھی تھی۔ اس کے علاوہ بھی میرے مطالعہ میں علماء حضرات کی آراء آتی رہی ہیں (اگرچہ کہ میرے پاس ابھی ریفرنس موجود نہیں) کہ غیر مسلمین کو نئی عبادت گاہیں آباد نہ کرنی دی جائیں۔
بہرحال اس مسئلے کو ٹھوس ثبوت آنے تک مؤخر کرتے ہیں۔
\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\
اور میں نے مسلمان کالم نگار پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:
اگر سوئٹزر لینڈ میں صرف 4 مساجد ہیں تو اسکی تعداد کی ذمہ دار حکومت نہیں ہے، مگر مسلم ایسا تاثر دے رہے ہیں جیسے کہ انہیں زبردستی روکا گیا ہوا ہے کہ وہ مزید مساجد نہ بنا سکیں۔
تو اسکے جواب میں آپ نے کچھ عجیب ہی آرگومنٹ دیا ہے جو یہ ہے:
آپ ہی بتائیں میں کیا کہوں! آپ لوگ آخر ہر چیز کا ذمہ دار مسلمانوں کو ہی کیوں ٹھہراتے ہیں۔ دیکھیں معتدل نقطہ نظر یہ نہیں ہوتا کہ آپ معاملات کو ایک ہی نظر سے دیکھیں، نائن الیون، سیون الیون، سیون سیون، میڈرڈ بم دھماکے، مساجد کا معاملہ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز کارٹون ہر معاملے میں مسلمان قصور وار اور دیگر تمام بری الذمہ! واہ کیا neutral نقطۂ نظر ہے!
پہلی بات تو یہ کہ آپکا یہ جواب کہیں بھی میرے اعتراض سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔
دوم یہ کہ میری نظر کے متعلق آپ پوچھ رہے ہیں تو نائن الیون، میڈرڈ بم دھماکے مسلمان انتہا پسندوں کی غلطی اور اُن مسلمان انتہا پسندوں کی بھی جو آج تک اسکا دفاع کر رہے ہیں۔
جبکہ کارٹوں کا شائع کرنا اہل مغرب کی زیادتی۔
تو جو میرا نظریہ ہی نہیں تھا آپ نے کیسے اُسے مجھ پر لاگو کر دیا۔ یا حیرت۔
تو جب یورپ میں رہنے والے مسلم احمقانہ حرکتیں کریں گے تو اسکا خمیازہ انہیں مغرب میں نفرت کی صورت میں ہی ملے گا اور تبلیغ کی جو آسانی ملی ہوئی ہے، وہ بھی جاتی رہے گی۔
مثلا آج ہی جنگ اخبار کی خبر ہے
تو مجھے جیسے لوگ تو اسکی کھل کر مخالفت کرتے ہیں، مگر ابو شامل بھائی آپ جیسے حضرات کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ آپ لوگ یا تو ایسی حرکتوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہوتے ہیں یا پھر خاموش ہوتے ہیں (یعنی مغرب کی غلطیوں پر فورا احتجاج آتا ہے مگر مسلم انتہا پسندی کی صورت میں کبھی مذمت دیکھنے کو نہیں آتی)۔ بہرحال یہ میری رائے تھی جو شاید آپ کے انفرادی معاملے میں غلط ہو، مگر اکثریت اسی دو رخے کردار میں مبتلا ہے۔
\\\\\\\\\\\\\\\\\\
میناروں کے متعلق میں پہلے ہی لکھ چکی ہوں کہ میں خود اسکی تعمیر کے حق میں ہوں۔ شاید اگر نائن الیون جیسے واقعات نہ ہوئے ہوتے تو ہمیں یورپ میں شاید اتنی مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور آسانی سے مینار بنانے کی اجازت مل جاتی۔
(مثلا جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں ابھی ایک مسجد کا نقشہ بمع میناروں کے منظور ہوا ہے اور شہر کے جرمن ناظم نے خود دلچسپی لے کر یہ نقشہ منظور کروایا ہے کیونکہ سڑک کے دوسری طرف ایک کلیسا اپنے بلند مینار کے ساتھ موجود تھا۔
بہرحال شاید پاکستان میں رہنے والے یہ بات نہ سمجھ سکیں، مگر یورپ میں امریکہ جیسا معاملہ نہیں ہے بلکہ ہر شہر کے تعمیر کا ایک مزاج ہے اور اس میں ہمیشہ میناروں جیسی عمارتوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ تو آجکل مساجد کے مینار تعمیر کرنے کی مخالفت صرف مذھبی عناد کی وجہ سے نہیں ہے (جیسا کہ پاکستانی قلم کار تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں) بلکہ اصل آرگومنٹ تمام قسم کی میناروں جیسی عمارتوں کی تعمیر کا ہے۔ (یعنی آپ کو مسجدیں بنانے کی مکمل آزادی ہے جہاں آپ کھل کر عبادت و تبلیغ کریں، مگر صرف مینار نہ بنائیں)۔
\\\\\\\\\\\\\\\\\
اور یورپ کی عوام کو صلیبی جنگوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے (سوائے شاید بہت ہی قلیل اقلیت کے)۔ بلکہ عوام کی اکثریت جنگ کو برا سمجھتی ہے اور امن کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ لیکن اگر مسلمان انتہا پسند اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے تو یہ چیز وقت کے ساتھ ساتھ الٹی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ صلیبی انتہا پسند پھر سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور انہیں عوام کی حمایت بھی ملنا شروع ہو جائے گی۔ (جبکہ آج ان صلیبی انتہا پسندوں کو یورپ کی عوام کوئی وقعت نہیں دیتی )۔
مولانا مودودی کی کتاب کا نام ‘اسلامی ریاست‘ ہی ہے اور یہ کتاب میرے پاس بھی ہے۔ میں نے یہ کتاب پوری نہیں پڑھی ہے ، مہوش آپ کو یاد ہے کہ کس باب میں مولانا مودودی نے اقلیتیوں کی عبادت گاہیں تعمیر نہ کرنے کی بات کی ہے تاکہ کم از کم اس بات کی تصدیق ہو جائے اسی بحث کے دوران۔
گر مسجد گرا کے مندر آباد کرنے کی بات ہے تو شاید آپ بابری مسجد کی بات کر رہے ہیں۔
تو بھائی جی،
میرا نظریہ تو ہمیشہ بہت صاف رہا ہے کہ "انتہا پسندی" جہاں بھی جس طبقے اور قوم میں بھی آ جاتی ہے، وہ فتنہ ہے۔ چاہے یہ مسلمان انتہا پسندی کا فتنہ ہو یا ہندو، عیسائی، یہودی انتہا پسندی کا۔۔۔۔۔ یا پھر لسانی و علاقائی انتہا پسندی کا۔ ۔۔۔۔ یہ سب انتہا پسندیاں فتنہ ہیں۔
مولانا مودودی کی اس کتاب کا نام اگر "اسلامی ریاست" نہیں تو پھر "حکومت اسلامی" تھا، اور میں نے خاص طور پر یہ انکی یہ کتاب غیر مسلمین کے حوالے سے پڑھی تھی۔ اس کے علاوہ بھی میرے مطالعہ میں علماء حضرات کی آراء آتی رہی ہیں (اگرچہ کہ میرے پاس ابھی ریفرنس موجود نہیں) کہ غیر مسلمین کو نئی عبادت گاہیں آباد نہ کرنی دی جائیں۔
بہرحال اس مسئلے کو ٹھوس ثبوت آنے تک مؤخر کرتے ہیں۔
اور میں نے مسلمان کالم نگار پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:
اگر سوئٹزر لینڈ میں صرف 4 مساجد ہیں تو اسکی تعداد کی ذمہ دار حکومت نہیں ہے، مگر مسلم ایسا تاثر دے رہے ہیں جیسے کہ انہیں زبردستی روکا گیا ہوا ہے کہ وہ مزید مساجد نہ بنا سکیں۔
تو اسکے جواب میں آپ نے کچھ عجیب ہی آرگومنٹ دیا ہے جو یہ ہے:
اقتباس: <Select> <Expand>
آپ ہی بتائیں میں کیا کہوں! آپ لوگ آخر ہر چیز کا ذمہ دار مسلمانوں کو ہی کیوں ٹھہراتے ہیں۔ دیکھیں معتدل نقطہ نظر یہ نہیں ہوتا کہ آپ معاملات کو ایک ہی نظر سے دیکھیں، نائن الیون، سیون الیون، سیون سیون، میڈرڈ بم دھماکے، مساجد کا معاملہ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز کارٹون ہر معاملے میں مسلمان قصور وار اور دیگر تمام بری الذمہ! واہ کیا neutral نقطۂ نظر ہے!
پہلی بات تو یہ کہ آپکا یہ جواب کہیں بھی میرے اعتراض سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔
دوم یہ کہ میری نظر کے متعلق آپ پوچھ رہے ہیں تو نائن الیون، میڈرڈ بم دھماکے مسلمان انتہا پسندوں کی غلطی اور اُن مسلمان انتہا پسندوں کی بھی جو آج تک اسکا دفاع کر رہے ہیں۔
جبکہ کارٹوں کا شائع کرنا اہل مغرب کی زیادتی۔
تو جو میرا نظریہ ہی نہیں تھا آپ نے کیسے اُسے مجھ پر لاگو کر دیا۔ یا حیرت۔
تو جب یورپ میں رہنے والے مسلم احمقانہ حرکتیں کریں گے تو اسکا خمیازہ انہیں مغرب میں نفرت کی صورت میں ہی ملے گا اور تبلیغ کی جو آسانی ملی ہوئی ہے، وہ بھی جاتی رہے گی۔
تو مجھے جیسے لوگ تو اسکی کھل کر مخالفت کرتے ہیں، مگر ابو شامل بھائی آپ جیسے حضرات کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ آپ لوگ یا تو ایسی حرکتوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہوتے ہیں یا پھر خاموش ہوتے ہیں (یعنی مغرب کی غلطیوں پر فورا احتجاج آتا ہے مگر مسلم انتہا پسندی کی صورت میں کبھی مذمت دیکھنے کو نہیں آتی)۔ بہرحال یہ میری رائے تھی جو شاید آپ کے انفرادی معاملے میں غلط ہو، مگر اکثریت اسی دو رخے کردار میں مبتلا ہے۔
میناروں کے متعلق میں پہلے ہی لکھ چکی ہوں کہ میں خود اسکی تعمیر کے حق میں ہوں۔ شاید اگر نائن الیون جیسے واقعات نہ ہوئے ہوتے تو ہمیں یورپ میں شاید اتنی مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور آسانی سے مینار بنانے کی اجازت مل جاتی۔
(مثلا جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں ابھی ایک مسجد کا نقشہ بمع میناروں کے منظور ہوا ہے اور شہر کے جرمن ناظم نے خود دلچسپی لے کر یہ نقشہ منظور کروایا ہے کیونکہ سڑک کے دوسری طرف ایک کلیسا اپنے بلند مینار کے ساتھ موجود تھا۔
بہرحال شاید پاکستان میں رہنے والے یہ بات نہ سمجھ سکیں، مگر یورپ میں امریکہ جیسا معاملہ نہیں ہے بلکہ ہر شہر کے تعمیر کا ایک مزاج ہے اور اس میں ہمیشہ میناروں جیسی عمارتوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ تو آجکل مساجد کے مینار تعمیر کرنے کی مخالفت صرف مذھبی عناد کی وجہ سے نہیں ہے (جیسا کہ پاکستانی قلم کار تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں) بلکہ اصل آرگومنٹ تمام قسم کی میناروں جیسی عمارتوں کی تعمیر کا ہے۔ (یعنی آپ کو مسجدیں بنانے کی مکمل آزادی ہے جہاں آپ کھل کر عبادت و تبلیغ کریں، مگر صرف مینار نہ بنائیں)۔
اور یورپ کی عوام کو صلیبی جنگوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے (سوائے شاید بہت ہی قلیل اقلیت کے)۔ بلکہ عوام کی اکثریت جنگ کو برا سمجھتی ہے اور امن کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ لیکن اگر مسلمان انتہا پسند اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے تو یہ چیز وقت کے ساتھ ساتھ الٹی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ صلیبی انتہا پسند پھر سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور انہیں عوام کی حمایت بھی ملنا شروع ہو جائے گی۔ (جبکہ آج ان صلیبی انتہا پسندوں کو یورپ کی عوام کوئی وقعت نہیں دیتی )۔
ابوشامل برادر!
آپ کی کم و بیش ساری باتوں سے متفق ہوں لیکن ساتھ میں ایک شکایت بھی کہ آپ اچھی خاصی پُرمغز باتیں کرتے ہوئے ذاتیات میں پڑ جاتے ہیں۔ اقبال کی نظم واقعی خوب ہے، لیکن بحث ختم ہونے سے پہلے ہی کسی کو قصور وار قرار دینا انصاف نہیں۔
اقتباس: <Select>
ویسے حکیم الامت حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی یہ نظم شاید اسی موقع اور اسی قبیل کے افراد کے لیے کہی گئی تھی
آپکے مندرجہ بالا ارشادات واضح طور پر ذاتیات میں پڑ جانے کیطرف اشارہ کرتے ہیں۔چند ایک اور دھاگوں میں بھی آپکا طرزِ تخاطب قدرے سخت ہے۔
آپکو اچھی طرح معلوم ہوگا کہ شائستگی اور نرمی سے کی گئی بات ہی بحث میں مخالف کے دل کو مسخر کرتی ہے۔ دوسروں کی ذات کو مختلف حوالوں سے نشانہ بنانا نہ آپ کے لئے فائدہ مند اور نہ ہی آپ کے موقف کیلیے۔