سوئٹزرلینڈ کی غیر جانبداری اور مساجد

ابوشامل

محفلین
چند روز قبل شاہنواز فاروقی کا لکھا گیا ایک کالم، جسے پڑھ کر بلا اختیار دل سے یہ نکلا "کاش! میں بھی ان جیسا لکھ سکتا"۔ مطالعہ کیجیے اور رائے سے آگاہ کیجیے:

31-05-07.gif
 

مہوش علی

لائبریرین
عام طور پر یہاں جو نئے گرجے بن رہے ہیں وہ بھی عام عمارت کی طرز کے ہیں (صرف پرانے تاریخی گرجے بلند ٹاور رکھتے ہیں)۔

اور صرف یہ نہیں کہ مساجد کو مینار بنانے کی اجازت نہیں، بلکہ ہندو مندر اور سکھوں کے گوردواروں کو بھی بلند ٹاور نہیں بنانے دیا جاتا۔

مسلمانوں کو مکمل مذھبی آزادی ہے اپنی عبادات بجا لانے کی اور تبلیغ کی بھی۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم

مرحبا ابو شامل (فھد بھائی) بہت کمی محسوس ہو رہی تھی اپ کی غیر حاضری، ماشاء اللہ اپ اور خاور بھائی تو۔۔۔۔۔
اصل میں ہم ابھی تک مغرب کی لاجک کو سمجھ نہیں رہے یا سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ہم اس میں ایسے ہی وقت ضائع کرتے ہیں اندھا تقلید کرنے میں “ الحمد اللہ سمجھنے کی ضرورت ہی نہیں “ کیونکہ قرآن پاک اور احادیث مبارکہ نے ان کی سب نفسیات ہمیں بتا دی ہے اگر ہم ان پر غور و فکر کریں
اگر اپ ان جیسے لکھ نہیں سکتے تو پھر یہاں شائد کوئی ۔۔۔



واجدحسین
 

ابوشامل

محفلین
مہوش صاحبہ! مذہبی "آزادی" یقیناً حاصل ہوگی اور یہ بات اپنے ذہن میں واضح رکھیں کہ 7.5 ملین کی کل سوئس آبادی میں سے 3 لاکھ 40 ہزار سے زائد مسلمان ہیں یعنی کل آبادی کا 8 فیصد (2000 کی مردم شماری کے مطابق) اور اتنی بڑی اقلیت کے لیے ملک بھر میں صرف 4 مساجد۔ پاکستان میں تمام اقلیتیں یعنی ہندو، عیسائی اور سکھوں سمیت دو فیصد بھی نہیں لیکن اس کے باوجود یہاں کتنی بڑی تعداد میں گرجے، مندر اور گردوارے موجود ہیں۔ لیکن شاید آپ اس لیے ان تمام حقائق کو تسلیم کرنے میں مانع ہیں کیونکہ یہ پاکستانی اخبار کے ایک "conservative" کالم نگار کے پیش کردہ ہیں۔ چلیں آپ کو جرمن خبر رساں ادارے (نیوز ایجنسی) DPA سمیت مختلف "روشن خیال" اخبارات کی پیش کردہ خبریں دکھا دیتے ہيں: ملاحظہ کیجیے:

DPA

The News Pakistan

Catholic World News

M&C News



اس کے علاوہ یہ بھی دیکھ لیں:

Swiss Capital Rejects Islamic Center

اس جگہ پر سوئٹزرلینڈ کے باشندوں کے درمیان اس مسئلے پر ایک گفتگو ہو رہی ہے، برائے مہربانی اسے ضرور اور مکمل طور پر دیکھیے گا:

Swiss Politics Forum
 

زیک

مسافر
ابوشامل نے کہا:
7.5 ملین کی کل سوئس آبادی میں سے 3 لاکھ 40 ہزار سے زائد مسلمان ہیں یعنی کل آبادی کا 8 فیصد (2000 کی مردم شماری کے مطابق)

یہ 4.5 فیصد بنتا ہے۔

پاکستان میں تمام اقلیتیں یعنی ہندو، عیسائی اور سکھوں سمیت دو فیصد بھی نہیں

پاکستان کی غیرمسلم آبادی 3.72 فیصد ہے۔

لیکن اس کے باوجود یہاں کتنی بڑی تعداد میں گرجے، مندر اور گردوارے موجود ہیں۔

ان میں سے بڑی تعداد پاکستان بننے سے پہلے کی ہے جب اقلیتوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مہوش علی نے کہا:
اور صرف یہ نہیں کہ مساجد کو مینار بنانے کی اجازت نہیں، بلکہ ہندو مندر اور سکھوں کے گوردواروں کو بھی بلند ٹاور نہیں بنانے دیا جاتا۔
میناروں پر پابندی لگانے میں کیا منطق ہے؟
مجھے تو میناروں پر پابندی لگانے میں ان کا مذہبی تعصب دکھائی دے رہا ہے۔
 

ابوشامل

محفلین
ذکریا صاحب! تصحیح کرنے کا بہت شکریہ کہ پاکستان میں "مسلمانوں" کی تعداد میرے اندازوں سے کم ہے اور غیر مسلموں کی زیادہ، سوئٹزرلینڈ میں مسلمانوں کے حوالے سے میرا اندازہ (فیصد کا) غلط تھا اور پاکستان میں قائم تمام اقلیتی مذاہب کی عبادت گاہیں قبل از تقسیم کی ہیں۔ یہ سب باتیں ٹھیک لیکن پاکستان میں اقلیتی عبادت گاہوں کے حوالے سے اپنے بیان کی کچھ وضاحت کریں گے آپ؟
 

ابوشامل

محفلین
نظامی صاحب! آپ مندرجہ ذیل ربط دیکھیے یہاں سوئٹزرلینڈ کے باشندوں کے درمیان مسجد کے میناروں کے معاملے پر گفتگو چل رہی ہے، اس میں مخالف نظریے کے حامل افراد بھی شامل ہیں اور چند معتدل نظریات کے حامل بھی، البتہ مسلمان کوئی نہيں اس لیے یہاں کوئی بھی "روشن خیال" شخص ان کی گفتگو سے "متعصبانہ" پہلو نہیں نکال سکے گا۔

Swiss Politics Forum
 

مہوش علی

لائبریرین
ابو شامل برادر،

پاکستان میں جو مندر اور گردوارے اور کلیسا موجود ہیں، وہ قیامِ پاکستان سے پہلے کے ہیں۔
اور مذھبی طبقہ چاہتا تھا کہ اقلیتوں پر پابندی ہو کہ وہ اپنی کوئی عبادت گاہ مزید نہ بناسکیں۔ پتا نہی انکا یہ مطالبہ منظور ہوا ہے یا نہیں، مگر یہ بات یقینی ہے کہ جیسے ہی کوئی دینی جماعت حکومت میں آئی تو یہ پابندی یقینی ہے۔
مولانا مودودی نے اپنی کتاب اسلامی ریاست میں کھل کر اقلیتوں پر یہ پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے کہ وہ کوئی نئی عبادت گاہ نہ بنا سکیں۔


اگر سوئٹزر لینڈ میں صرف 4 مساجد ہیں تو اسکی تعداد کی ذمہ دار حکومت نہیں ہے، مگر مسلم ایسا تاثر دے رہے ہیں جیسے کہ انہیں زبردستی روکا گیا ہوا ہے کہ وہ مزید مساجد نہ بنا سکیں۔

آپ اپنے ہی دیے ہوئے پہلے آرٹیکل کو پڑھ لیں جہاں مسلمانوں کے ایسے 140 عبادت گاہوں کا ذکر ہے جن میں اور عام مسجد میں فرق صرف میناروں کا ہے۔

اور اگر ہم اپنے گریبان میں دیکھیں تو ہمیں شاید اور نظر آ جائے کہ یورپین کیوں اب مسلمان کمیونٹی سے ہچکچانے لگے ہیں۔ صرف ایک مثال پیش کرنا چاہوں گی کہ یہاں ہماری پاکستانی مسجد کے ایک کرتا دھرتا ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد خوش ہوتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ القاعدہ نے یہ حملہ کرنے میں بہت دیر کر دی اور یہ حملہ تو انہیں بہت پہلے کر دینا چاہیے تھا۔۔۔۔ (اور یہ پاکستانی مسجد کے کرتا دھرتا وہ شخص ہیں جو کہ پچھلے پندرہ بیس سالوں سے حکومت سے خیرات لے کر شوشل کے لائف پر اپنا اپنی بیوی اور بچوں کا پیٹ پال رہا ہے حتی کہ بچے جوان ہو کر علیحدہ ہو چکے ہیں)۔

اب خود بتائیں جب مسلمان کمیونٹی یہاں بیٹھ کر یہ حرکتیں کرے گی تو نفرتیں پیدا ہو گیں یا نہیں؟

بے شک مسجد کے میناروں کا مسئلہ ہمارے شہر اور قریبی چھوٹے شہروں میں بھی پیدا ہوا تھا اور ہم نے اسکے حق میں ہی کنونسنگ کے لیے Burger Master (ناظم شہر) اور دیگر پولیٹیکل پارٹیز سے رابطے کیے تھے۔۔۔۔ (یعنی میں بھی میناروں کی تعمیر کے حق میں ہوں)۔۔۔۔۔۔ مگر یہ ثانوی مسائل ہیں اور ہمارا بنیادی مسئلہ ہماری اپنی اصلاح ہونا چاہیے۔

اگر ہماری مسلمان کمیونٹیز اپنا اچھا امیج بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں (بجائے انتہا پسندی اور نفرت پھیلانے کے) تو یقینا اسی یورپ میں بہت سے لوگ خود ہی مینار بنانے کے سلسلے میں ہمارے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے۔
 

ابوشامل

محفلین
چلیں جی مہوش بہن! تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کی تمام عبادت گاہیں قبل از تقسیم کی ہیں لیکن واضح بات یہ ہے کہ پاکستان تقسیم سے قبل غیر مسلموں کی تعداد بہت زیادہ تھی جن کی بڑی تعداد تقسیم کے بعد ملک چھوڑ گئی، اب ضرورت کہاں رہ گئی نئی عبادت گاہوں‌کی تعمیر کی۔ جبکہ یورپی ممالک تو مقامی و غیر ملکی مسلمانوں کی تعداد میں‌ روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے تو ان کے لیے عبادت گاہوں کی ضرورت ہے لیکن آپ کا یہ نقطۂ نظر کہ انہیں تعمیر نہیں کرنے ‌دیا جا رہا تو ٹھیک کیا جا رہا ہے، لیکن جہاں ضروری ہی نہیں وہاں ‌بنانے پر زور۔ یہ دوغلہ نقطۂ نظر آخر کیوں؟

ویسے کچھ عرصہ قبل ہی لاہور میں‌ایک مندر (کٹاس راج مندر) کا افتتاح ہوا ہے اس بارے میں آپ کیا کہیں گی؟ (اس بارے میں بھی بتائیے گا کہ مساجد گرا کر مندروں کو آباد کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟)

مجھے آپ کے اس امر سے اختلاف ہے کہ پاکستان کا مذہبی طبقہ نئی اقلیتی عبادت گاہوں کے قیام کا مخالف ہے اور نہ ہی میرے علم میں یہ ہے کہ مودودی نے اپنی کسی کتاب میں ان پر پابندی لگانے کا ذکر کیا بلکہ میری معلومات کے مطابق "اسلامی ریاست" نامی کوئی کتاب مولانا نے نہیں لکھی۔

اگر سوئٹزر لینڈ میں صرف 4 مساجد ہیں تو اسکی تعداد کی ذمہ دار حکومت نہیں ہے، مگر مسلم ایسا تاثر دے رہے ہیں جیسے کہ انہیں زبردستی روکا گیا ہوا ہے کہ وہ مزید مساجد نہ بنا سکیں۔

اب آپ ہی بتائیں میں کیا کہوں! آپ لوگ آخر ہر چیز کا ذمہ دار مسلمانوں کو ہی کیوں ٹھہراتے ہیں۔ دیکھیں معتدل نقطہ نظر یہ نہیں ہوتا کہ آپ معاملات کو ایک ہی نظر سے دیکھیں، نائن الیون، سیون الیون، سیون سیون، میڈرڈ بم دھماکے، مساجد کا معاملہ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز کارٹون ہر معاملے میں مسلمان قصور وار اور دیگر تمام بری الذمہ! واہ کیا neutral نقطۂ نظر ہے!

آپ اپنے ہی دیے ہوئے پہلے آرٹیکل کو پڑھ لیں جہاں مسلمانوں کے ایسے 140 عبادت گاہوں کا ذکر ہے جن میں اور عام مسجد میں فرق صرف میناروں کا ہے۔

دیکھیں ذاتی طور پر میرے نزدیک کسی مینار کی عدم تعمیر سے اسلام خطرے میں نہیں پڑ جائے گا لیکن بات دراصل یہ ہے کہ بنیادی انسانی حقوق اور آزادئ اظہار نامی کوئی چیز بھی ہوتی ہے جس کا یورپ اور امریکہ چیمپین بنا بیٹھا ہے۔ لیکن اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ سوئٹزر لینڈ جیسے سیکولر ترین ملک میں بھی مینار جیسی چھوٹی چیز سے صلیبی خوفزدہ ہیں، حالانکہ اس کے بننے سے ان کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

اور اگر ہم اپنے گریبان میں دیکھیں تو ہمیں شاید اور نظر آ جائے کہ یورپین کیوں اب مسلمان کمیونٹی سے ہچکچانے لگے ہیں۔ صرف ایک مثال پیش کرنا چاہوں گی کہ یہاں ہماری پاکستانی مسجد کے ایک کرتا دھرتا ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد خوش ہوتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ القاعدہ نے یہ حملہ کرنے میں بہت دیر کر دی اور یہ حملہ تو انہیں بہت پہلے کر دینا چاہیے تھا۔۔۔۔ (اور یہ پاکستانی مسجد کے کرتا دھرتا وہ شخص ہیں جو کہ پچھلے پندرہ بیس سالوں سے حکومت سے خیرات لے کر شوشل کے لائف پر اپنا اپنی بیوی اور بچوں کا پیٹ پال رہا ہے حتی کہ بچے جوان ہو کر علیحدہ ہو چکے ہیں)۔

اب خود بتائیں جب مسلمان کمیونٹی یہاں بیٹھ کر یہ حرکتیں کرے گی تو نفرتیں پیدا ہو گیں یا نہیں؟

اب آپ یہ کہیں گی کہ ایک سروے کے مطابق برطانیہ میں رہائش پذیر 40 فیصد مسلمان شریعت کے نفاذ کے حامی ہیں اس لیے ان سب کو نکال باہر کرنا چاہیے، بھئی میں پاکستان یا کسی اور "تنگ نظر مسلم ملک" کی بات نہیں کر رہا میں اس معاشرے کی بات کہہ رہا ہوں جو خود کو آزاد خیالی اور آزادئ اظہار رائے کی معراج پر سمجھتا ہے، وہاں مسلمانوں کے خلاف کوئی بڑی سے بڑی حرکت بھی ان کے امیج کو خراب نہیں کرتی لیکن ہمارے ہاں اگر کوئی چھوٹا سا واقعہ ہو جائے تو ہمارے امیج کو نقصان پہنچنے کیوں لگتا ہے؟

ویسے حکیم الامت حضرت علامہ اقبال رحمت اللہ علیہ کی یہ نظم شاید اسی موقع اور اسی قبیل کے افراد کے لیے کہی گئی تھی: (موضوع سے متعلق شعر کو highlight کر دیا ہے)

jihadlg4.jpg
 

قیصرانی

لائبریرین
چند ایک بنیادی سوال

کیا مسجد کا مینار نہ ہو تو کیا وہ مسجد نہیں‌ کہلائے گی؟

مسجد میں‌مینار کی کیا اہمیت ہے (اسلام کی ابتداء میں اور آج کے سائنسی دور میں)؟

جیسا کہ مہوش بہن نے کہا، مساجد کی تعمیر غیر اسلامی مملکت کی ذمہ داری ہے یا مسلمانوں کی اپنی؟
 

ابوشامل

محفلین
بے شک مسجد کے میناروں کا مسئلہ ہمارے شہر اور قریبی چھوٹے شہروں میں بھی پیدا ہوا تھا اور ہم نے اسکے حق میں ہی کنونسنگ کے لیے Burger Master (ناظم شہر) اور دیگر پولیٹیکل پارٹیز سے رابطے کیے تھے۔۔۔۔ (یعنی میں بھی میناروں کی تعمیر کے حق میں ہوں)۔۔۔۔۔۔ مگر یہ ثانوی مسائل ہیں اور ہمارا بنیادی مسئلہ ہماری اپنی اصلاح ہونا چاہیے۔

آپ کی اس بات سے میں بالکل متفق ہوں کہ ہمیں اپنی اصلاح کو ترجیح دینی چاہیے بجائے اس کہ ان ثانوی معاملات میں پڑیں لیکن جب مسلمانوں کے ثانوی معاملات تک میں انہیں dictate کیا جائے گا تو؟؟؟

اگر ہماری مسلمان کمیونٹیز اپنا اچھا امیج بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں (بجائے انتہا پسندی اور نفرت پھیلانے کے) تو یقینا اسی یورپ میں بہت سے لوگ خود ہی مینار بنانے کے سلسلے میں ہمارے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے۔

اس بات کو تو آپ بھول جائيں کہ یورپ کے لوگ خود مینار بنانے کے سلسلے میں آپ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے، دیکھیں ان کا "حال" تک عیسائی نہیں لیکن "ماضی" ضرور عیسائی ہے، صلیبی جنگوں کے اثرات آج بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان باقی ہيں، اور مسلمانوں کے خلاف نفرتوں کے اُس سیلاب کی باقیات آج بھی یورپ کے دل میں باقی ہیں، اسے آپ اُن کے دلوں سے نہیں نکال سکتے، ہاں مگر اپنے اخلاق اور اسلام کی تبلیغ کے لیے حکمت کے ذریعے، اس لیے وہاں رہتے ہوئے پہلی ضرورت اپنے اخلاق کو اتنے اعلیٰ معیار پر رکھنا ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں ان کے نظریات تبدیل ہو جائیں اور یہی تبلیغِ دین کے لیے سب سے ضروری ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ابوشامل برادرؒ:

۔۔۔۔۔تو مقامی و غیر ملکی مسلمانوں کی تعداد میں‌ روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے تو ان کے لیے عبادت گاہوں کی ضرورت ہے لیکن آپ کا یہ نقطۂ نظر کہ انہیں تعمیر نہیں کرنے ‌دیا جا رہا تو ٹھیک کیا جا رہا ہے، لیکن جہاں ضروری ہی نہیں وہاں ‌بنانے پر زور۔ یہ دوغلہ نقطۂ نظر آخر کیوں؟

بھائی جی،
میں نے کب کہا ہے کہ مسلمانوں کو یورپ میں مساجد تعمیر نہیں کرنے دیا جا رہا ہے تو ٹھیک کیا جا رہا ہے؟؟؟ بھائی جی مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہو رہی ہے بلکہ اکثر آپ سے گفتگو کے دوران مجھے آپ کے آرگومنٹ سمجھ نہیں آ پاتے ۔ شاید میری عقل کا ہی قصور ہو۔ اور اللہ بہتر جاننا والا ہے۔


ابو شامل برادر:

ویسے کچھ عرصہ قبل ہی لاہور میں‌ایک مندر (کٹاس راج مندر) کا افتتاح ہوا ہے اس بارے میں آپ کیا کہیں گی؟ (اس بارے میں بھی بتائیے گا کہ مساجد گرا کر مندروں کو آباد کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟)

اگر مسجد گرا کے مندر آباد کرنے کی بات ہے تو شاید آپ بابری مسجد کی بات کر رہے ہیں۔
تو بھائی جی،
میرا نظریہ تو ہمیشہ بہت صاف رہا ہے کہ "انتہا پسندی" جہاں بھی جس طبقے اور قوم میں بھی آ جاتی ہے، وہ فتنہ ہے۔ چاہے یہ مسلمان انتہا پسندی کا فتنہ ہو یا ہندو، عیسائی، یہودی انتہا پسندی کا۔۔۔۔۔ یا پھر لسانی و علاقائی انتہا پسندی کا۔ ۔۔۔۔ یہ سب انتہا پسندیاں فتنہ ہیں۔


ابو شامل برادر:


مجھے آپ کے اس امر سے اختلاف ہے کہ پاکستان کا مذہبی طبقہ نئی اقلیتی عبادت گاہوں کے قیام کا مخالف ہے اور نہ ہی میرے علم میں یہ ہے کہ مودودی نے اپنی کسی کتاب میں ان پر پابندی لگانے کا ذکر کیا بلکہ میری معلومات کے مطابق "اسلامی ریاست" نامی کوئی کتاب مولانا نے نہیں لکھی۔

مولانا مودودی کی اس کتاب کا نام اگر "اسلامی ریاست" نہیں تو پھر "حکومت اسلامی" تھا، اور میں نے خاص طور پر یہ انکی یہ کتاب غیر مسلمین کے حوالے سے پڑھی تھی۔ اس کے علاوہ بھی میرے مطالعہ میں علماء حضرات کی آراء آتی رہی ہیں (اگرچہ کہ میرے پاس ابھی ریفرنس موجود نہیں) کہ غیر مسلمین کو نئی عبادت گاہیں آباد نہ کرنی دی جائیں۔

بہرحال اس مسئلے کو ٹھوس ثبوت آنے تک مؤخر کرتے ہیں۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

اور میں نے مسلمان کالم نگار پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:

اگر سوئٹزر لینڈ میں صرف 4 مساجد ہیں تو اسکی تعداد کی ذمہ دار حکومت نہیں ہے، مگر مسلم ایسا تاثر دے رہے ہیں جیسے کہ انہیں زبردستی روکا گیا ہوا ہے کہ وہ مزید مساجد نہ بنا سکیں۔

تو اسکے جواب میں آپ نے کچھ عجیب ہی آرگومنٹ دیا ہے جو یہ ہے:

آپ ہی بتائیں میں کیا کہوں! آپ لوگ آخر ہر چیز کا ذمہ دار مسلمانوں کو ہی کیوں ٹھہراتے ہیں۔ دیکھیں معتدل نقطہ نظر یہ نہیں ہوتا کہ آپ معاملات کو ایک ہی نظر سے دیکھیں، نائن الیون، سیون الیون، سیون سیون، میڈرڈ بم دھماکے، مساجد کا معاملہ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز کارٹون ہر معاملے میں مسلمان قصور وار اور دیگر تمام بری الذمہ! واہ کیا neutral نقطۂ نظر ہے!

پہلی بات تو یہ کہ آپکا یہ جواب کہیں بھی میرے اعتراض سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔
دوم یہ کہ میری نظر کے متعلق آپ پوچھ رہے ہیں تو نائن الیون، میڈرڈ بم دھماکے مسلمان انتہا پسندوں کی غلطی اور اُن مسلمان انتہا پسندوں کی بھی جو آج تک اسکا دفاع کر رہے ہیں۔
جبکہ کارٹوں کا شائع کرنا اہل مغرب کی زیادتی۔

تو جو میرا نظریہ ہی نہیں تھا آپ نے کیسے اُسے مجھ پر لاگو کر دیا۔ یا حیرت۔

تو جب یورپ میں رہنے والے مسلم احمقانہ حرکتیں کریں گے تو اسکا خمیازہ انہیں مغرب میں نفرت کی صورت میں ہی ملے گا اور تبلیغ کی جو آسانی ملی ہوئی ہے، وہ بھی جاتی رہے گی۔

مثلا آج ہی جنگ اخبار کی خبر ہے

up09.gif


تو مجھے جیسے لوگ تو اسکی کھل کر مخالفت کرتے ہیں، مگر ابو شامل بھائی آپ جیسے حضرات کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ آپ لوگ یا تو ایسی حرکتوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہوتے ہیں یا پھر خاموش ہوتے ہیں (یعنی مغرب کی غلطیوں پر فورا احتجاج آتا ہے مگر مسلم انتہا پسندی کی صورت میں کبھی مذمت دیکھنے کو نہیں آتی)۔ بہرحال یہ میری رائے تھی جو شاید آپ کے انفرادی معاملے میں غلط ہو، مگر اکثریت اسی دو رخے کردار میں مبتلا ہے۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\

میناروں کے متعلق میں پہلے ہی لکھ چکی ہوں کہ میں خود اسکی تعمیر کے حق میں ہوں۔ شاید اگر نائن الیون جیسے واقعات نہ ہوئے ہوتے تو ہمیں یورپ میں شاید اتنی مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور آسانی سے مینار بنانے کی اجازت مل جاتی۔

(مثلا جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں ابھی ایک مسجد کا نقشہ بمع میناروں کے منظور ہوا ہے اور شہر کے جرمن ناظم نے خود دلچسپی لے کر یہ نقشہ منظور کروایا ہے کیونکہ سڑک کے دوسری طرف ایک کلیسا اپنے بلند مینار کے ساتھ موجود تھا۔


بہرحال شاید پاکستان میں رہنے والے یہ بات نہ سمجھ سکیں، مگر یورپ میں امریکہ جیسا معاملہ نہیں ہے بلکہ ہر شہر کے تعمیر کا ایک مزاج ہے اور اس میں ہمیشہ میناروں جیسی عمارتوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ تو آجکل مساجد کے مینار تعمیر کرنے کی مخالفت صرف مذھبی عناد کی وجہ سے نہیں ہے (جیسا کہ پاکستانی قلم کار تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں) بلکہ اصل آرگومنٹ تمام قسم کی میناروں جیسی عمارتوں کی تعمیر کا ہے۔ (یعنی آپ کو مسجدیں بنانے کی مکمل آزادی ہے جہاں آپ کھل کر عبادت و تبلیغ کریں، مگر صرف مینار نہ بنائیں)۔


\\\\\\\\\\\\\\\\\

اور یورپ کی عوام کو صلیبی جنگوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے (سوائے شاید بہت ہی قلیل اقلیت کے)۔ بلکہ عوام کی اکثریت جنگ کو برا سمجھتی ہے اور امن کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ لیکن اگر مسلمان انتہا پسند اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے تو یہ چیز وقت کے ساتھ ساتھ الٹی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ صلیبی انتہا پسند پھر سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور انہیں عوام کی حمایت بھی ملنا شروع ہو جائے گی۔ (جبکہ آج ان صلیبی انتہا پسندوں کو یورپ کی عوام کوئی وقعت نہیں دیتی )۔
 

ساجداقبال

محفلین
ابوشامل برادر!
آپ کی کم و بیش ساری باتوں سے متفق ہوں لیکن ساتھ میں ایک شکایت بھی کہ آپ اچھی خاصی پُرمغز باتیں کرتے ہوئے ذاتیات میں پڑ جاتے ہیں۔ اقبال کی نظم واقعی خوب ہے، لیکن بحث ختم ہونے سے پہلے ہی کسی کو قصور وار قرار دینا انصاف نہیں۔
ویسے حکیم الامت حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی یہ نظم شاید اسی موقع اور اسی قبیل کے افراد کے لیے کہی گئی تھی
آپکے مندرجہ بالا ارشادات واضح طور پر ذاتیات میں پڑ جانے کیطرف اشارہ کرتے ہیں۔چند ایک اور دھاگوں میں بھی آپکا طرزِ تخاطب قدرے سخت ہے۔
آپکو اچھی طرح معلوم ہوگا کہ شائستگی اور نرمی سے کی گئی بات ہی بحث میں مخالف کے دل کو مسخر کرتی ہے۔ دوسروں کی ذات کو مختلف حوالوں سے نشانہ بنانا نہ آپ کے لئے فائدہ مند اور نہ ہی آپ کے موقف کیلیے۔
 
مہوش علی نے کہا:
ابوشامل برادرؒ:

۔۔۔۔۔تو مقامی و غیر ملکی مسلمانوں کی تعداد میں‌ روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے تو ان کے لیے عبادت گاہوں کی ضرورت ہے لیکن آپ کا یہ نقطۂ نظر کہ انہیں تعمیر نہیں کرنے ‌دیا جا رہا تو ٹھیک کیا جا رہا ہے، لیکن جہاں ضروری ہی نہیں وہاں ‌بنانے پر زور۔ یہ دوغلہ نقطۂ نظر آخر کیوں؟

بھائی جی،
میں نے کب کہا ہے کہ مسلمانوں کو یورپ میں مساجد تعمیر نہیں کرنے دیا جا رہا ہے تو ٹھیک کیا جا رہا ہے؟؟؟ بھائی جی مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہو رہی ہے بلکہ اکثر آپ سے گفتگو کے دوران مجھے آپ کے آرگومنٹ سمجھ نہیں آ پاتے ۔ شاید میری عقل کا ہی قصور ہو۔ اور اللہ بہتر جاننا والا ہے۔


ابو شامل برادر:

ویسے کچھ عرصہ قبل ہی لاہور میں‌ایک مندر (کٹاس راج مندر) کا افتتاح ہوا ہے اس بارے میں آپ کیا کہیں گی؟ (اس بارے میں بھی بتائیے گا کہ مساجد گرا کر مندروں کو آباد کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟)

اگر مسجد گرا کے مندر آباد کرنے کی بات ہے تو شاید آپ بابری مسجد کی بات کر رہے ہیں۔
تو بھائی جی،
میرا نظریہ تو ہمیشہ بہت صاف رہا ہے کہ "انتہا پسندی" جہاں بھی جس طبقے اور قوم میں بھی آ جاتی ہے، وہ فتنہ ہے۔ چاہے یہ مسلمان انتہا پسندی کا فتنہ ہو یا ہندو، عیسائی، یہودی انتہا پسندی کا۔۔۔۔۔ یا پھر لسانی و علاقائی انتہا پسندی کا۔ ۔۔۔۔ یہ سب انتہا پسندیاں فتنہ ہیں۔


ابو شامل برادر:


مجھے آپ کے اس امر سے اختلاف ہے کہ پاکستان کا مذہبی طبقہ نئی اقلیتی عبادت گاہوں کے قیام کا مخالف ہے اور نہ ہی میرے علم میں یہ ہے کہ مودودی نے اپنی کسی کتاب میں ان پر پابندی لگانے کا ذکر کیا بلکہ میری معلومات کے مطابق "اسلامی ریاست" نامی کوئی کتاب مولانا نے نہیں لکھی۔

مولانا مودودی کی اس کتاب کا نام اگر "اسلامی ریاست" نہیں تو پھر "حکومت اسلامی" تھا، اور میں نے خاص طور پر یہ انکی یہ کتاب غیر مسلمین کے حوالے سے پڑھی تھی۔ اس کے علاوہ بھی میرے مطالعہ میں علماء حضرات کی آراء آتی رہی ہیں (اگرچہ کہ میرے پاس ابھی ریفرنس موجود نہیں) کہ غیر مسلمین کو نئی عبادت گاہیں آباد نہ کرنی دی جائیں۔

بہرحال اس مسئلے کو ٹھوس ثبوت آنے تک مؤخر کرتے ہیں۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

اور میں نے مسلمان کالم نگار پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:

اگر سوئٹزر لینڈ میں صرف 4 مساجد ہیں تو اسکی تعداد کی ذمہ دار حکومت نہیں ہے، مگر مسلم ایسا تاثر دے رہے ہیں جیسے کہ انہیں زبردستی روکا گیا ہوا ہے کہ وہ مزید مساجد نہ بنا سکیں۔

تو اسکے جواب میں آپ نے کچھ عجیب ہی آرگومنٹ دیا ہے جو یہ ہے:

آپ ہی بتائیں میں کیا کہوں! آپ لوگ آخر ہر چیز کا ذمہ دار مسلمانوں کو ہی کیوں ٹھہراتے ہیں۔ دیکھیں معتدل نقطہ نظر یہ نہیں ہوتا کہ آپ معاملات کو ایک ہی نظر سے دیکھیں، نائن الیون، سیون الیون، سیون سیون، میڈرڈ بم دھماکے، مساجد کا معاملہ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز کارٹون ہر معاملے میں مسلمان قصور وار اور دیگر تمام بری الذمہ! واہ کیا neutral نقطۂ نظر ہے!

پہلی بات تو یہ کہ آپکا یہ جواب کہیں بھی میرے اعتراض سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔
دوم یہ کہ میری نظر کے متعلق آپ پوچھ رہے ہیں تو نائن الیون، میڈرڈ بم دھماکے مسلمان انتہا پسندوں کی غلطی اور اُن مسلمان انتہا پسندوں کی بھی جو آج تک اسکا دفاع کر رہے ہیں۔
جبکہ کارٹوں کا شائع کرنا اہل مغرب کی زیادتی۔

تو جو میرا نظریہ ہی نہیں تھا آپ نے کیسے اُسے مجھ پر لاگو کر دیا۔ یا حیرت۔

تو جب یورپ میں رہنے والے مسلم احمقانہ حرکتیں کریں گے تو اسکا خمیازہ انہیں مغرب میں نفرت کی صورت میں ہی ملے گا اور تبلیغ کی جو آسانی ملی ہوئی ہے، وہ بھی جاتی رہے گی۔

مثلا آج ہی جنگ اخبار کی خبر ہے

up09.gif


تو مجھے جیسے لوگ تو اسکی کھل کر مخالفت کرتے ہیں، مگر ابو شامل بھائی آپ جیسے حضرات کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ آپ لوگ یا تو ایسی حرکتوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہوتے ہیں یا پھر خاموش ہوتے ہیں (یعنی مغرب کی غلطیوں پر فورا احتجاج آتا ہے مگر مسلم انتہا پسندی کی صورت میں کبھی مذمت دیکھنے کو نہیں آتی)۔ بہرحال یہ میری رائے تھی جو شاید آپ کے انفرادی معاملے میں غلط ہو، مگر اکثریت اسی دو رخے کردار میں مبتلا ہے۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\

میناروں کے متعلق میں پہلے ہی لکھ چکی ہوں کہ میں خود اسکی تعمیر کے حق میں ہوں۔ شاید اگر نائن الیون جیسے واقعات نہ ہوئے ہوتے تو ہمیں یورپ میں شاید اتنی مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور آسانی سے مینار بنانے کی اجازت مل جاتی۔

(مثلا جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں ابھی ایک مسجد کا نقشہ بمع میناروں کے منظور ہوا ہے اور شہر کے جرمن ناظم نے خود دلچسپی لے کر یہ نقشہ منظور کروایا ہے کیونکہ سڑک کے دوسری طرف ایک کلیسا اپنے بلند مینار کے ساتھ موجود تھا۔


بہرحال شاید پاکستان میں رہنے والے یہ بات نہ سمجھ سکیں، مگر یورپ میں امریکہ جیسا معاملہ نہیں ہے بلکہ ہر شہر کے تعمیر کا ایک مزاج ہے اور اس میں ہمیشہ میناروں جیسی عمارتوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ تو آجکل مساجد کے مینار تعمیر کرنے کی مخالفت صرف مذھبی عناد کی وجہ سے نہیں ہے (جیسا کہ پاکستانی قلم کار تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں) بلکہ اصل آرگومنٹ تمام قسم کی میناروں جیسی عمارتوں کی تعمیر کا ہے۔ (یعنی آپ کو مسجدیں بنانے کی مکمل آزادی ہے جہاں آپ کھل کر عبادت و تبلیغ کریں، مگر صرف مینار نہ بنائیں)۔


\\\\\\\\\\\\\\\\\

اور یورپ کی عوام کو صلیبی جنگوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے (سوائے شاید بہت ہی قلیل اقلیت کے)۔ بلکہ عوام کی اکثریت جنگ کو برا سمجھتی ہے اور امن کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ لیکن اگر مسلمان انتہا پسند اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے تو یہ چیز وقت کے ساتھ ساتھ الٹی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ صلیبی انتہا پسند پھر سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور انہیں عوام کی حمایت بھی ملنا شروع ہو جائے گی۔ (جبکہ آج ان صلیبی انتہا پسندوں کو یورپ کی عوام کوئی وقعت نہیں دیتی )۔

مولانا مودودی کی کتاب کا نام ‘اسلامی ریاست‘ ہی ہے اور یہ کتاب میرے پاس بھی ہے۔ میں نے یہ کتاب پوری نہیں پڑھی ہے ، مہوش آپ کو یاد ہے کہ کس باب میں مولانا مودودی نے اقلیتیوں کی عبادت گاہیں تعمیر نہ کرنے کی بات کی ہے تاکہ کم از کم اس بات کی تصدیق ہو جائے اسی بحث کے دوران۔
 

مہوش علی

لائبریرین
محب علوی نے کہا:
مہوش علی نے کہا:
ابوشامل برادرؒ:

۔۔۔۔۔تو مقامی و غیر ملکی مسلمانوں کی تعداد میں‌ روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے تو ان کے لیے عبادت گاہوں کی ضرورت ہے لیکن آپ کا یہ نقطۂ نظر کہ انہیں تعمیر نہیں کرنے ‌دیا جا رہا تو ٹھیک کیا جا رہا ہے، لیکن جہاں ضروری ہی نہیں وہاں ‌بنانے پر زور۔ یہ دوغلہ نقطۂ نظر آخر کیوں؟

بھائی جی،
میں نے کب کہا ہے کہ مسلمانوں کو یورپ میں مساجد تعمیر نہیں کرنے دیا جا رہا ہے تو ٹھیک کیا جا رہا ہے؟؟؟ بھائی جی مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہو رہی ہے بلکہ اکثر آپ سے گفتگو کے دوران مجھے آپ کے آرگومنٹ سمجھ نہیں آ پاتے ۔ شاید میری عقل کا ہی قصور ہو۔ اور اللہ بہتر جاننا والا ہے۔


ابو شامل برادر:

ویسے کچھ عرصہ قبل ہی لاہور میں‌ایک مندر (کٹاس راج مندر) کا افتتاح ہوا ہے اس بارے میں آپ کیا کہیں گی؟ (اس بارے میں بھی بتائیے گا کہ مساجد گرا کر مندروں کو آباد کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟)

اگر مسجد گرا کے مندر آباد کرنے کی بات ہے تو شاید آپ بابری مسجد کی بات کر رہے ہیں۔
تو بھائی جی،
میرا نظریہ تو ہمیشہ بہت صاف رہا ہے کہ "انتہا پسندی" جہاں بھی جس طبقے اور قوم میں بھی آ جاتی ہے، وہ فتنہ ہے۔ چاہے یہ مسلمان انتہا پسندی کا فتنہ ہو یا ہندو، عیسائی، یہودی انتہا پسندی کا۔۔۔۔۔ یا پھر لسانی و علاقائی انتہا پسندی کا۔ ۔۔۔۔ یہ سب انتہا پسندیاں فتنہ ہیں۔


ابو شامل برادر:


مجھے آپ کے اس امر سے اختلاف ہے کہ پاکستان کا مذہبی طبقہ نئی اقلیتی عبادت گاہوں کے قیام کا مخالف ہے اور نہ ہی میرے علم میں یہ ہے کہ مودودی نے اپنی کسی کتاب میں ان پر پابندی لگانے کا ذکر کیا بلکہ میری معلومات کے مطابق "اسلامی ریاست" نامی کوئی کتاب مولانا نے نہیں لکھی۔

مولانا مودودی کی اس کتاب کا نام اگر "اسلامی ریاست" نہیں تو پھر "حکومت اسلامی" تھا، اور میں نے خاص طور پر یہ انکی یہ کتاب غیر مسلمین کے حوالے سے پڑھی تھی۔ اس کے علاوہ بھی میرے مطالعہ میں علماء حضرات کی آراء آتی رہی ہیں (اگرچہ کہ میرے پاس ابھی ریفرنس موجود نہیں) کہ غیر مسلمین کو نئی عبادت گاہیں آباد نہ کرنی دی جائیں۔

بہرحال اس مسئلے کو ٹھوس ثبوت آنے تک مؤخر کرتے ہیں۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

اور میں نے مسلمان کالم نگار پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:

اگر سوئٹزر لینڈ میں صرف 4 مساجد ہیں تو اسکی تعداد کی ذمہ دار حکومت نہیں ہے، مگر مسلم ایسا تاثر دے رہے ہیں جیسے کہ انہیں زبردستی روکا گیا ہوا ہے کہ وہ مزید مساجد نہ بنا سکیں۔

تو اسکے جواب میں آپ نے کچھ عجیب ہی آرگومنٹ دیا ہے جو یہ ہے:

آپ ہی بتائیں میں کیا کہوں! آپ لوگ آخر ہر چیز کا ذمہ دار مسلمانوں کو ہی کیوں ٹھہراتے ہیں۔ دیکھیں معتدل نقطہ نظر یہ نہیں ہوتا کہ آپ معاملات کو ایک ہی نظر سے دیکھیں، نائن الیون، سیون الیون، سیون سیون، میڈرڈ بم دھماکے، مساجد کا معاملہ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز کارٹون ہر معاملے میں مسلمان قصور وار اور دیگر تمام بری الذمہ! واہ کیا neutral نقطۂ نظر ہے!

پہلی بات تو یہ کہ آپکا یہ جواب کہیں بھی میرے اعتراض سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔
دوم یہ کہ میری نظر کے متعلق آپ پوچھ رہے ہیں تو نائن الیون، میڈرڈ بم دھماکے مسلمان انتہا پسندوں کی غلطی اور اُن مسلمان انتہا پسندوں کی بھی جو آج تک اسکا دفاع کر رہے ہیں۔
جبکہ کارٹوں کا شائع کرنا اہل مغرب کی زیادتی۔

تو جو میرا نظریہ ہی نہیں تھا آپ نے کیسے اُسے مجھ پر لاگو کر دیا۔ یا حیرت۔

تو جب یورپ میں رہنے والے مسلم احمقانہ حرکتیں کریں گے تو اسکا خمیازہ انہیں مغرب میں نفرت کی صورت میں ہی ملے گا اور تبلیغ کی جو آسانی ملی ہوئی ہے، وہ بھی جاتی رہے گی۔

مثلا آج ہی جنگ اخبار کی خبر ہے

up09.gif


تو مجھے جیسے لوگ تو اسکی کھل کر مخالفت کرتے ہیں، مگر ابو شامل بھائی آپ جیسے حضرات کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ آپ لوگ یا تو ایسی حرکتوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہوتے ہیں یا پھر خاموش ہوتے ہیں (یعنی مغرب کی غلطیوں پر فورا احتجاج آتا ہے مگر مسلم انتہا پسندی کی صورت میں کبھی مذمت دیکھنے کو نہیں آتی)۔ بہرحال یہ میری رائے تھی جو شاید آپ کے انفرادی معاملے میں غلط ہو، مگر اکثریت اسی دو رخے کردار میں مبتلا ہے۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\

میناروں کے متعلق میں پہلے ہی لکھ چکی ہوں کہ میں خود اسکی تعمیر کے حق میں ہوں۔ شاید اگر نائن الیون جیسے واقعات نہ ہوئے ہوتے تو ہمیں یورپ میں شاید اتنی مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور آسانی سے مینار بنانے کی اجازت مل جاتی۔

(مثلا جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں ابھی ایک مسجد کا نقشہ بمع میناروں کے منظور ہوا ہے اور شہر کے جرمن ناظم نے خود دلچسپی لے کر یہ نقشہ منظور کروایا ہے کیونکہ سڑک کے دوسری طرف ایک کلیسا اپنے بلند مینار کے ساتھ موجود تھا۔


بہرحال شاید پاکستان میں رہنے والے یہ بات نہ سمجھ سکیں، مگر یورپ میں امریکہ جیسا معاملہ نہیں ہے بلکہ ہر شہر کے تعمیر کا ایک مزاج ہے اور اس میں ہمیشہ میناروں جیسی عمارتوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ تو آجکل مساجد کے مینار تعمیر کرنے کی مخالفت صرف مذھبی عناد کی وجہ سے نہیں ہے (جیسا کہ پاکستانی قلم کار تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں) بلکہ اصل آرگومنٹ تمام قسم کی میناروں جیسی عمارتوں کی تعمیر کا ہے۔ (یعنی آپ کو مسجدیں بنانے کی مکمل آزادی ہے جہاں آپ کھل کر عبادت و تبلیغ کریں، مگر صرف مینار نہ بنائیں)۔


\\\\\\\\\\\\\\\\\

اور یورپ کی عوام کو صلیبی جنگوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے (سوائے شاید بہت ہی قلیل اقلیت کے)۔ بلکہ عوام کی اکثریت جنگ کو برا سمجھتی ہے اور امن کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ لیکن اگر مسلمان انتہا پسند اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے تو یہ چیز وقت کے ساتھ ساتھ الٹی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ صلیبی انتہا پسند پھر سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور انہیں عوام کی حمایت بھی ملنا شروع ہو جائے گی۔ (جبکہ آج ان صلیبی انتہا پسندوں کو یورپ کی عوام کوئی وقعت نہیں دیتی )۔

مولانا مودودی کی کتاب کا نام ‘اسلامی ریاست‘ ہی ہے اور یہ کتاب میرے پاس بھی ہے۔ میں نے یہ کتاب پوری نہیں پڑھی ہے ، مہوش آپ کو یاد ہے کہ کس باب میں مولانا مودودی نے اقلیتیوں کی عبادت گاہیں تعمیر نہ کرنے کی بات کی ہے تاکہ کم از کم اس بات کی تصدیق ہو جائے اسی بحث کے دوران۔

محب،
اس کتاب میں "اقلیتوں کے حقوق" کے متعلق پورا ایک باب تھا۔ اسی میں آپکو عبادت گاہوں کا مسئلہ بھی مل جائے گا۔
 

ابوشامل

محفلین
مہوش بہن سب سے پہلے تو آپ نے معذرت کہ شاید میں کچھ زیادہ جذباتی ہو گیا اور گفتگو کے دوران شاید چند باتیں آپ کو ناگوار گذری ہيں جس پر میں تہہ دل سے آپ سے معذرت خواہ ہوں، یقین جانیے میرا مقصد ہر گز کسی کا دل دکھانا یا نیچا دکھانا نہیں بلکہ اسلام اور اس سے متعلق مختلف نقطہ ہائے نظر کے افراد سے ایک جامع گفتگو کرنا ہے اس سلسلے میں اگر کبھی کوئی بات بری لگ جائے تو ابن آدم سمجھ کر درگزر فرمائیے گا۔ اللہ آپ کو جزا دے۔


گر مسجد گرا کے مندر آباد کرنے کی بات ہے تو شاید آپ بابری مسجد کی بات کر رہے ہیں۔
تو بھائی جی،
میرا نظریہ تو ہمیشہ بہت صاف رہا ہے کہ "انتہا پسندی" جہاں بھی جس طبقے اور قوم میں بھی آ جاتی ہے، وہ فتنہ ہے۔ چاہے یہ مسلمان انتہا پسندی کا فتنہ ہو یا ہندو، عیسائی، یہودی انتہا پسندی کا۔۔۔۔۔ یا پھر لسانی و علاقائی انتہا پسندی کا۔ ۔۔۔۔ یہ سب انتہا پسندیاں فتنہ ہیں۔

میں بابری مسجد کی نہیں بلکہ اسلام آباد میں شہید ہونے والی مساجد کا ذکر کر رہا ہوں۔ آپ کے اس خیال سے میں بالکل متفق ہوں کہ انتہا پسندی خواہ و اسلامی ہو، یا ہندو یا عیسائی یا یہودی سب فتنے ہیں۔ لیکن ایک سوال ہمیشہ میرے ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا نماز پڑھنا اور میناروں کا تعمیر کرنا تک کیوں انتہا پسندی میں شمار کیا جاتا ہے؟


مولانا مودودی کی اس کتاب کا نام اگر "اسلامی ریاست" نہیں تو پھر "حکومت اسلامی" تھا، اور میں نے خاص طور پر یہ انکی یہ کتاب غیر مسلمین کے حوالے سے پڑھی تھی۔ اس کے علاوہ بھی میرے مطالعہ میں علماء حضرات کی آراء آتی رہی ہیں (اگرچہ کہ میرے پاس ابھی ریفرنس موجود نہیں) کہ غیر مسلمین کو نئی عبادت گاہیں آباد نہ کرنی دی جائیں۔

بہرحال اس مسئلے کو ٹھوس ثبوت آنے تک مؤخر کرتے ہیں۔

میں بھی ثبوت کا منتظر ہوں! لیکن میں نے جماعت اسلامی کی ویب سائٹ کو وزٹ کیا وہاں تو یہ لکھا ہوا ہے:

غیر مسلمانوں کے لیے، جوکسی اسلامی ریاست کے حدود میں رہتے ہوں، اسلام نے چند حقوق معین کردیے ہیں اور وہ لازماً دستور اسلامی کا جزو ہوں گے۔ اسلامی اصطلاح میں ایسے غیر مسلم کو "ذمی" کہاجاتا ہے، یعنی جس کی حفاظت کا اسلامی ریاست نے ذمہ لے لیا ہے۔ ذمی کی جان و مال اور آبرو محترم ہے۔ فوج داری اور دیوانی قوانین میں مسلم اور ذمی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ ذمیوں کے پرسنل لاء میں اسلامی ریاست کوئی مداخلت نہ کرے گے۔ ذمیوں کو ضمیرواعتقاد اور مذہبی رسوم وعبادات میں پوری آزادی حاصل ہوگی۔ یہ اور ایسے ہی بہت سے حقوق اسلامی دستور میں غیر مسلم رعایا کو دیے گئے ہیں اور یہ مستقل حقوق ہیں جنھیں اس وقت تک سلب نہیں کیاجاسکتا، جب تک وہ ہمارے ذمے سے خارج نہ ہوجائیں۔ کوئی غیر مسلم حکومت اپنی مسلم رعایا پر چاہے کتنے ہی ظلم ڈھائے، ایک اسلامی ریاست کے لیے اس کے جواب میں اپنی غیر مسلم رعایا پر شریعت کے خلاف ذرا سی دست درازی کرنا بھی جائز نہیں۔ حتی کہ ہماری سرحد کے باہر اگر سارے مسلمان قتل کردیے جائیں تب بھی ہم اپنی حد کے اندر ایک ذمی کا خون بھی حق کے بغیر نہیں بہا سکتے۔

اس صفحے کا ربط یہ ہے:

جماعت اسلامی


اور میں نے مسلمان کالم نگار پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:

اگر سوئٹزر لینڈ میں صرف 4 مساجد ہیں تو اسکی تعداد کی ذمہ دار حکومت نہیں ہے، مگر مسلم ایسا تاثر دے رہے ہیں جیسے کہ انہیں زبردستی روکا گیا ہوا ہے کہ وہ مزید مساجد نہ بنا سکیں۔

تو اسکے جواب میں آپ نے کچھ عجیب ہی آرگومنٹ دیا ہے جو یہ ہے:

اقتباس: <Select> <Expand>
آپ ہی بتائیں میں کیا کہوں! آپ لوگ آخر ہر چیز کا ذمہ دار مسلمانوں کو ہی کیوں ٹھہراتے ہیں۔ دیکھیں معتدل نقطہ نظر یہ نہیں ہوتا کہ آپ معاملات کو ایک ہی نظر سے دیکھیں، نائن الیون، سیون الیون، سیون سیون، میڈرڈ بم دھماکے، مساجد کا معاملہ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز کارٹون ہر معاملے میں مسلمان قصور وار اور دیگر تمام بری الذمہ! واہ کیا neutral نقطۂ نظر ہے!



پہلی بات تو یہ کہ آپکا یہ جواب کہیں بھی میرے اعتراض سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔
دوم یہ کہ میری نظر کے متعلق آپ پوچھ رہے ہیں تو نائن الیون، میڈرڈ بم دھماکے مسلمان انتہا پسندوں کی غلطی اور اُن مسلمان انتہا پسندوں کی بھی جو آج تک اسکا دفاع کر رہے ہیں۔
جبکہ کارٹوں کا شائع کرنا اہل مغرب کی زیادتی۔

تو جو میرا نظریہ ہی نہیں تھا آپ نے کیسے اُسے مجھ پر لاگو کر دیا۔ یا حیرت۔

تو جب یورپ میں رہنے والے مسلم احمقانہ حرکتیں کریں گے تو اسکا خمیازہ انہیں مغرب میں نفرت کی صورت میں ہی ملے گا اور تبلیغ کی جو آسانی ملی ہوئی ہے، وہ بھی جاتی رہے گی۔

میرے خیال میں عقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے، آپ نے نہایت خوبصورتی سے یورپ کے ممالک میں مساجد نہ بنانے کا ذمہ دار خود مسلمانوں کو قرار دے کر ان پر یہ تک الزام لگا دیا کہ وہ اس طرح کا تاثر پیدا کر رہے ہیں جیسے انہیں مساجد تعمیر نہیں کرنے دیا جا رہا۔
اس دعوے کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے؟

تو مجھے جیسے لوگ تو اسکی کھل کر مخالفت کرتے ہیں، مگر ابو شامل بھائی آپ جیسے حضرات کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ آپ لوگ یا تو ایسی حرکتوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہوتے ہیں یا پھر خاموش ہوتے ہیں (یعنی مغرب کی غلطیوں پر فورا احتجاج آتا ہے مگر مسلم انتہا پسندی کی صورت میں کبھی مذمت دیکھنے کو نہیں آتی)۔ بہرحال یہ میری رائے تھی جو شاید آپ کے انفرادی معاملے میں غلط ہو، مگر اکثریت اسی دو رخے کردار میں مبتلا ہے۔

مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ آپ جس معتدل رویے اور کردار کی بات کر رہی ہیں وہ کیا ہے؟


میناروں کے متعلق میں پہلے ہی لکھ چکی ہوں کہ میں خود اسکی تعمیر کے حق میں ہوں۔ شاید اگر نائن الیون جیسے واقعات نہ ہوئے ہوتے تو ہمیں یورپ میں شاید اتنی مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور آسانی سے مینار بنانے کی اجازت مل جاتی۔

(مثلا جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں ابھی ایک مسجد کا نقشہ بمع میناروں کے منظور ہوا ہے اور شہر کے جرمن ناظم نے خود دلچسپی لے کر یہ نقشہ منظور کروایا ہے کیونکہ سڑک کے دوسری طرف ایک کلیسا اپنے بلند مینار کے ساتھ موجود تھا۔


بہرحال شاید پاکستان میں رہنے والے یہ بات نہ سمجھ سکیں، مگر یورپ میں امریکہ جیسا معاملہ نہیں ہے بلکہ ہر شہر کے تعمیر کا ایک مزاج ہے اور اس میں ہمیشہ میناروں جیسی عمارتوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ تو آجکل مساجد کے مینار تعمیر کرنے کی مخالفت صرف مذھبی عناد کی وجہ سے نہیں ہے (جیسا کہ پاکستانی قلم کار تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں) بلکہ اصل آرگومنٹ تمام قسم کی میناروں جیسی عمارتوں کی تعمیر کا ہے۔ (یعنی آپ کو مسجدیں بنانے کی مکمل آزادی ہے جہاں آپ کھل کر عبادت و تبلیغ کریں، مگر صرف مینار نہ بنائیں)۔

دیکھیں میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ میری نظر میں مینار کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن اہمیت اس نظریے کی ہے جو اس سے منسلک ہے اور یورپ کے لوگ بھی کنکریٹ کے اس راکٹ کے مخالف نہیں بلکہ اس کے پیچھے جو نظریہ کار فرما ہے اور اس کا تعلق جس سے جا ملتا ہے (یعنی اسلام) اس کے مخالف ہیں۔
اور یورپ کی عوام کو صلیبی جنگوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے (سوائے شاید بہت ہی قلیل اقلیت کے)۔ بلکہ عوام کی اکثریت جنگ کو برا سمجھتی ہے اور امن کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ لیکن اگر مسلمان انتہا پسند اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے تو یہ چیز وقت کے ساتھ ساتھ الٹی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ صلیبی انتہا پسند پھر سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور انہیں عوام کی حمایت بھی ملنا شروع ہو جائے گی۔ (جبکہ آج ان صلیبی انتہا پسندوں کو یورپ کی عوام کوئی وقعت نہیں دیتی )۔

یہ بات آپ ذاتی بنیاد پر اپنے قریب رہنے والوں کے لیے تو کہہ سکتی ہیں لیکن شاید اجتماعی طور پر ایسا نہیں ہے کیونکہ یورپ اور امریکہ میں جمہوریت ہے اور وہاں جو بھی اقتدار میں آتا ہے عوام کی پوری تائید سے آتا ہے اور ان کی حکومتوں کا مسلمانوں کے خلاف جنگ میں ملوث ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام بھی ان کے ساتھ ہیں، اب چاہے ذاتی طور پر وہ کچھ بھی کہیں، انہوں نے خود اپنے ہاتھوں نے اپنی حکومتوں کے ہاتھوں میں ڈنڈا دیا ہے کہ اس سے مسلمانوں کا سر کچل دیں۔


مہوش بہن الف نظامی صاحب نے بہت اچھا سوال اٹھایا ہے اس کے جواب میں بھی کچھ فرمائیے۔
 

ابوشامل

محفلین
ابوشامل برادر!
آپ کی کم و بیش ساری باتوں سے متفق ہوں لیکن ساتھ میں ایک شکایت بھی کہ آپ اچھی خاصی پُرمغز باتیں کرتے ہوئے ذاتیات میں پڑ جاتے ہیں۔ اقبال کی نظم واقعی خوب ہے، لیکن بحث ختم ہونے سے پہلے ہی کسی کو قصور وار قرار دینا انصاف نہیں۔
اقتباس: <Select>
ویسے حکیم الامت حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی یہ نظم شاید اسی موقع اور اسی قبیل کے افراد کے لیے کہی گئی تھی
آپکے مندرجہ بالا ارشادات واضح طور پر ذاتیات میں پڑ جانے کیطرف اشارہ کرتے ہیں۔چند ایک اور دھاگوں میں بھی آپکا طرزِ تخاطب قدرے سخت ہے۔
آپکو اچھی طرح معلوم ہوگا کہ شائستگی اور نرمی سے کی گئی بات ہی بحث میں مخالف کے دل کو مسخر کرتی ہے۔ دوسروں کی ذات کو مختلف حوالوں سے نشانہ بنانا نہ آپ کے لئے فائدہ مند اور نہ ہی آپ کے موقف کیلیے۔

ساجد بھائی! میں اس سلسلے میں معذرت کر چکا ہوں۔ ویسے بحث کا کوئی انجام نہیں ہوتا، یہ بات پوری گفتگو میں اپنے ذہن میں رکھیے گا۔ :D اور ہاں! کی بورڈ سے اپنے احساسات اور نرم رویے کو پیش کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، کئی مرتبہ ہماری نرم لہجے میں کی گئی گفتگو کو سامنے والا خود پر سنگین طنز سمجھ بیٹھتا ہے۔ اکثر میری باتیں نرم ہی ہوتی ہیں البتہ کبھی کبھی گرم بھی ہوجاتی ہیں :D
 
Top