hakimkhalid
محفلین
تحریر:حکیم قاضی ایم اے خالد ( چیئرمین پاکستان طبی جرنلسٹس کونسل)
گذشتہ سال مارچ کے اواخر سے سوائن فلو یعنی سور سے ہونے والے زکام کی وبا کا آغاز میکسیکو سے ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے دوسو سے زائد ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔تا دم تحریرعالمی ادارہ صحت کی جانب سے سوائن فلو سے دنیا بھر میں11516افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کردی گئی ہے جبکہ پاکستان میں 9افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اپریل 2009سے اب تک سوائن فلو کے پھیلنے سے ہلاکتیں ساڑھے گیارہ ہزار سے زائد ہو گئی ہیں۔208ممالک اور دیگر علاقوں کے افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں اور لیبارٹری سےH1N1وائرس کی تصدیق کی جا چکی ہے یہ وائرس اب ایشیا کی طرف منتقل ہورہا ہے۔سوائن فلو وائرس سے امریکا میں 6670 یورپ میں2045مغربی بحرالکاہل کے ممالک میں1039 جنوب مغربی ایشیا میں990مشرق وسطی میں663اور افریقہ میں109افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔پاکستان میں اس وائرس سے نو افراد ہلاک 'جب کہ 76افراد اس وائرس سے متاثر ہیں۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہزاروں افراد سوائن فلو کا شکارہو رہے ہیں عالمی ادارہ صحت کی سربراہ مارگریٹ چن نے کہا ہے کہ سوائن فلو وائرس دنیا میں اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے کہ اب اسے روکنا ناممکن ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اس مرحلے پر مرض پر قابو پانا ممکن نہیں رہا۔ دنیا بھر میں کوئی جگہ اس وائرس سے محفوظ نہیں مزید یہ کہ ادارے نے ہنگامی صورتحال میں مزید اقدامات کا اضافہ کردیا ہے۔یہاں یہ بھی یاد رہے کہ گذشتہ 41برس میں یہ پہلا موقع ہے جب ڈبلیو ایچ او نے کسی مرض کا بطور وبا اعلان کیا ۔سوائن فلو ہے کیا؟
سوائن فلو کی موجودہ وباء خنزیروں میں موجود ایک وائرسinfluenza A virus subtype H1N1کی وجہ سے دنیا کی تباہی کا دوبارہ پیغام لے کر آئی ہے۔ یہ سب ٹائپ فلو،جانورں اور انسانی فلو وائرس کے مختلف اجزا سے مرکب ہے۔ اس کی ابتدا کیسے ہوئی، اس کا اب تک پتہ نہیں چلایا جا سکا لیکن سب سے پہلے کب ہوئی یہ معلومات جین برونڈی کی کتاب فلو فائٹر کے مطالعہ سے معلوم ہوئیں جس کے مطابق سوائن وائرس کا سب سے پہلے انکشاف 1918 میںہواجسے اس وقت سپینش فلو کا نام دیا گیااس فلو سے امریکہ میں پچاس ہزار سے زائد جبکہ دنیا بھر میں بیس ملین ہلاکتیں ہوئیں یہ 1957تک ہسپانوی آبادی میں موجود رہا۔اس کے علاوہ 1930میںاس کا انکشاف سانس کی خطرناک بیماری میں مبتلا سوروں میں ہوا۔
سوائن فلو 'زکام سے مشابہہ متعددی مرض ہے مگر اس کا طریقہ کار مخفی ہے۔ ابھی تک یہی خیال کیا جا رہا ہے کہ کھانسنے ، چھینکنے اور متاثرہ شخص کو چھونے سے یہ مرض ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے۔خصوصا انسانی تنفس سے دوسرے انسان کو متاثر کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت WHOکے مطابق میکسیکو میں ہلاکتوں کا سبب بننے والا وائرس A/H1N1وائرس ہے۔ یہ وائرس انسان سے انسان کو منتقل ہوتا ہے اور انسانوں، سوروں اور پرندوں کے فلو وائرس کے اجتماع سے سامنے آتا ہے۔
علامات
طبی ماہرین کے مطابق سوائن فلو میں مبتلا ہونے کی اہم علامات میں اچانک 104درجے کا بخار شدیدزکام، کھانسی ،سردرد ،جوڑوں کا درداور بھوک کا ختم ہو جانا ہیں۔اگر بروقت علاج نہ ہوسکے اور مدافعتی نظام ناکارہ ہوجائے تو مریض نمونیا کا شکار ہو کر دم توڑ جاتا ہے۔چونکہ سوائن فلو کی بیماری واضح علامات ظاہر نہیں کرتی اور عام معمولی فلو کے مریض کی طرح کی ہی علامات سامنے آتی ہیںجس کی وجہ سے اس بیماری میں مبتلا انسانوں کی درست تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
خدشات
٭…طبی ماہرین کے مطابق یہ وائرس بیمار سوروں کے قریب رہنے والے انسانوں میں آسانی کے ساتھ منتقل ہو جاتا ہے اور پھر یہ انسانوں میں تیزی سے پھیل کر وبائی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ ماہرین نے اسے HINIٹائپ فلو وائرس کا نام دیا ہے۔ اس وائرس کے انسانوں کیلئے انتہائی خطرناک ہونے کا اندازہ عالمی ادارہ صحت کی اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ برڈ فلو کے ایچ 5ایف آئی وائرس سے 2003 سے اب تک دنیا بھرمیں 250انسانوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا اس کے برعکس سوائن فلو وائرس صرف اپریل2009سے تادم تحریر ساڑھے گیارہ ہزار سے زائدافراد کو نگل چکا ہے۔
٭…طبی ماہرین کے مطابق یہ انفلوائنزا وائرس کی ایک نئی اورکمپاؤنڈ قسم ہے جس پر دنیا بھر کی حکومتیں اورطبی ماہرین ریسرچ کر رہے ہیں۔
٭…جن لوگوں کا خنزیروں سے دور کابھی واسطہ نہیں وہ بھی پہلے سے متاثرہ کسی فرد سے یا وائرس سے متاثرہ شے سے سوائن فلو کا شکار ہو سکتے ہیں۔
٭…اس بیماری کے ایک شخص سے دوسرے میں انتقال کی رفتار ، اور دوسرے عوامل جو اس بیماری کی نوعیت متعین کرتے ہیں، واضح نہیں ہیں۔
علاج
٭…غالب طریق علاج (ایلوپیتھک)کے ماہرین اور جدید تحقیقات کے مطابق عام فلو کا باعث دو سو سے زائد اقسام کے وائرس بنتے ہیں' ان میں رائینووائرس 'کوکس ساکی وائرس اورکرونا وائرس خاص طور پرقابل ذکر ہیںیہ وائرس یا کوئی اور وائرس (جس سے زکام شروع ہو)کسی بھی دوائی سے مرتے نہیں یعنی عام زکام کیلئے آج تک کوئی بھی(ایلوپیتھک) دوائی ایجاد نہیں ہوسکی۔اسلئے ان وائرسوںکے خاتمے کیلئے انٹی بایوٹیک ادویات کا استعمال بے معنی ہے۔ ماہرین کے مطابق فلو کی اکثر اقسام لاعلاج ہیںاوربیشتر کی ویکسین بھی موجود نہیں اور تحقیقی مراحل میں ہیں ۔ فلووائرسزمیں جینیاتی تبدیلی آتی رہتی ہے بعض دفعہ اچانک تبدیلیاں جنم لیتی ہیں جنہیں جین مخالف تبدیلی یاAntigenic Shiftکہتے ہیںاس طرح کی تبدیلیوں کے نتیجے میںپوری کی پوری آبادیاں فلو میں مبتلا ہو جاتی ہیں اور عالمگیر وبا پھوٹ پڑتی ہے جب ان میں ٹائپ اے فلو وائرسز ملوث ہوںتو یہ انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہیں'ان امراض کا اپنا دورانیہ ہوتاہے اور مکمل علاج دستیاب ہونے تک (جس میں بعض دفعہ سالوں لگ سکتے ہیں)صرف اور صرف علامتی علاج ہی کیا جا سکتا ہے۔سنگین پچیدگیوں کے زبردست خطرے میںزیاد سے زیادہ چند اینٹی وائرل ادویات استعمال کروائی جا تی ہیں۔
٭…تغیر پذیروائرل ڈیزیزز میںجہاں ایلو پیتھک طریقہ علاج ناکام نظر آتا ہے وہاں ہربل یعنی طب یونانی (اسلامی) کی ادویات اور دیگر گھریلو علاج کی اثرپذیری کو کسی طوررد نہیں کیا جا سکتا WHOاور اس کے سربراہ مارگریٹ چان متعدد بار اسے تسلیم کر چکے ہیںلیکن پاکستان میں وسائل اور تحقیق کے مواقعوں کی عدم دستیابی سے سائنسی طور پر اسے ثابت کرنا بھی مشکل امر ہے۔مثلاً گذشتہ کئی سالوں سے ڈینگی وائر س کے کامیاب علاج کے حوالے سے پپیتے کے پتوں کے رس کو انتہائی موثر پایا ہے اور ہزاروں مریض میری وساطت سے شفا یاب ہوچکے ہیںجن میں کئی ایم ڈی امریکن ڈاکٹرز' بیوروکریٹس اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔لیکن اس شفایابی کی سائنسی توضیحات دینے سے قاصر ہوں ظاہر ہے یہ فرد واحد کاکام نہیں ادارے کا کام ہے جوحکومت کی سرپرستی کے بغیر کیسے ممکن العمل ہو سکتا ہے۔
٭…فلو کسی بھی وائرس سے ہو ادرک اورمیتھی کے بیج یعنی میتھرے کی ہربل ٹی کو میں نے انتہائی فائدہ مند پایا ہے کئی غیرملکی احباب بھی اس کی افادیت کے قائل ہیںاس کے تیار کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ میتھرے ایک کھانے کا چمچ ایک گلاس پانی میں جوش دیںجب پانی ایک تہائی رہ جائے اتار کر چھان لیں اب اس میںتازہ ادرک کا رس ایک چمچ (چائے والا) اور شہد ایک بڑاچمچ شامل کرلیں یہ ہربل ٹی پینے سے خوب پسینہ آتا ہے' بخار ٹوٹ جاتا ہے اور فلو میں افاقہ ہو جاتا ہے۔
٭… کالی مرچ پاؤڈرایک چٹکی'دارچینی پاؤڈرتین چٹکی اور شہد ایک بڑاچمچ ملا کر ہربل ٹی بنائیں ۔یہ ٹی بھی نزلہ و زکام 'گلے کی خراش 'ملیریا'ہرقسم کے فلواور سردی میں بہت فائدہ مند ہے۔
٭… سوائن فلو ایک وائرل مرض ہے اور اس میں وہ دوائیں استعمال کی جاتی ہیں جن سے جسم میں قوت مدافعت کو بڑھایا جاسکے ۔ طب یونانی میںاسی اصول کے مطابق سوائن فلو کا علاج موجودہے اور اس نسخے کو بطور جو شاندہ صبح و شام استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ بہدانہ تین گرام 'عناب 7عدد' سپستاں'گلو'نیلوفر'برگ گاؤزبان اورخاکسی ہر ایک 7گرام۔ مرض کی شدت کے پیش نظر چرائتہ تلخ سات گرام کااضافہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ دوائیں تعدیہ کو روکنے والی اور قوت مدافعت کو بڑھانے والی ہیں ۔ اس کے علاوہ مرکبات میں شربت خاکسی'شربت نیلوفر'خمیرہ مروارید' خمیرہ گاوزبان' کشتہ مرجان بھی استعمال کی جاسکتی ہیں ۔
٭…ہرقسم کے فلو کے مریض کو شراب'تمباکونوشی'محفوظ کیا ہوا گوشت'ڈبہ بند غذائیں'چاول 'آلو'اچار وغیرہ اور تمام ٹھوس غذاؤں سے حتی الامکان پرہیز لازم ہے۔پھلوں کے جوسز'سبزیوںکے سوپ اور دیگر سیال غذائیںو دوائیں جوشاندہ وغیرہ زیادہ مفید ہیں۔
٭…ورزش اور لمبی واک سے ہمارا مدافعتی نظام خود کو منظم کرکے نئی قوت حاصل کرتا ہے اور کسی بھی مرض میں زیادہ موثر مزاحمت کرتا ہے۔جبکہ نماز'مراقبہ'استغراق یا ذہنی ارتکازسے بھی اعصابی تناؤاور ذہنی دباؤ دور کر کے مدافعتی نظام کوصحتمند و متحرک کیا جا سکتا ہے۔
٭…ای ڈی او ہیلتھ ڈاکٹر فیاض رانجھا کے مطابق صرف پانچ وقت کی نماز اور وضو سے بآسانی سوائن فلو پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
٭… تازہ ترین معلومات کے مطابق لہسن نہ صرف عام فلو بلکہ ایچ ون این ون انفلونزا سے بچا ؤمیں بھی موثرہے۔ روائتی چینی طریقہ علاج اور چینی جڑی بوٹیوں کے معروف معالج ''لین یی فانگ'' سوائن فلومیں لہسن کو انتہائی فائدہ مند بتاتے ہیں۔ یی فانگ کے مطابق چونکہ لہسن انسان کے مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے لہذا وہ ایچ ون این ون وائرس سمیت ہر قسم کی وائرل ڈیزیززسے بچ سکتاہے۔جبکہ جاپان اور جنوبی کوریا سمیت کئی ایشیائی معاشروں میں مقامی معالج سوائن فلو کے حوالے سے لہسن کے استعمال کا مشورہ دے رہے ہیں۔لہسن زمانہ قدیم سے دوا اور غذا کے طور پر مستعمل ہے۔کئی ممالک میں قدرت کے اس عطیہ سے بلڈپریشر'امراض قلب اور کئی قسم کے سرطان سمیت متعدد امراض کا کامیاب علاج کیا جا رہا ہے۔حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق لہسن میں موجود''لیسین '' خون میں موجود خلیوں کے درمیان باہمی رابطے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے جس کی وجہ سے خون کے بہاؤ میں بہتری آتی ہے اور خون کو اہم اعضاء تک آکسیجن لے جانے میںمدد ملتی ہے ۔کھانے میں لہسن کی تھوڑی سی مقدار نہ صرف کھانوں بلکہ صحت کو بھی بہتر بناتی ہے ۔ماہرین نے خون کو کچلے ہوئے لہسن میں ڈبویا جس سے خون کے سرخ خلیوںکے تنا ؤمیں تہتر فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ مشرقی ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے جہاں لہسن کو کھانے میں سبزی کے ساتھ اہم جز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے وہا ں دیگر مغربی ممالک کی نسبت دل کے امراض کہیں کم ہیں۔ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ لہسن کا استعمال کر کے سوائن فلو سے بچا جا سکتا ہے۔
٭…چین میں سوائن فلو کے علاج کے لئے لہسن اور دیگر قدرتی اجزا سے نہایت موثرہربل دوا تیار کرلی گئی ہے ۔ جس کے استعمال سے صرف تین دن میں سوائن فلو جیسی خطرناک بیماری کا علاج ہو سکے گا۔ تاہم ''غیر ٹو کولڈ میڈیسن'' نامی یہ دوا سوائن فلو میں مبتلا بچوں کے لئے زیادہ کارآمد ہے۔ بعض بچے دوا کی صرف ایک خوراک سے صحت یاب ہونگے جبکہ دیگر بچے زیادہ سے زیادہ دو خوراک لینے سے مکمل صحت یاب ہونگے۔کونسل آف ہربل فزیشنز پاکستان اور یوایس اے کی جانب سے بیجنگ کے روایتی میڈیسن بیورو کے سربراہ کوچائنہ کے سفارت خانے کے ذریعے اس ایجاد پر مبارکباد پیش کی ہے۔
احتیاطی تدابیر
٭…احتیاط علاج سے بہتر ہے لہذا درج ذیل احتیاطی تدابیر کو بروئے کار لا کر اس مرض سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
٭…کسی بھی قسم کی انفیکشن خصوصاً وائرل انفیکشن کے تدارک اور داخلی مزاحمت و مدافعت بڑھانے کیلئے 'کسی بھی قسم کی گوبھی 'لہسن'پیاز'ترش پھل'لیموں'مالٹا'سنگترہ وغیرہ'ٹماٹر'ادرک 'کالی مرچ'زنک والی غذائیںمثلاًگندم 'مچھلی اور گوشت وغیرہ کو اپنی روز مرہ خوراک میں شامل کریں۔
٭…اپنے ہاتھوں کو باقاعدہ کسی صابن سے دھوئیں۔لیکویڈ سوپ کا استعمال وائرس کو پھیلنے سے بچانے کا اچھا طریقہ ہے۔ اگر آپ ایسے علاقے میں ہیں جہاں اس وباء کے پھیلنے کے امکانات ہیں، یا ایسے لوگ ہیں جو حال ہی میں بیرون ملک کا سفر کر کے لوٹے ہیں تو پھر احتیاطی تدابیرپر عمل کرنا مزید ضروری ہے۔جہاں وباء پھیلی ہو وہاں پرڈسپوزایبل ماسک کا استعمال بھی فائدہ مند ہے ۔
٭…چھینکتے یا کھانستے وقت کسی رومال یا ٹشو پیپر کو استعمال کریں اور استعمال کے فورا بعد اسے ضائع کر دیںاور ہاتھوں کو فورا ً لیکویڈصابن سے دھو لیں۔
٭…اگر آپ گھر سے باہر ہیں اور صابن سے ہاتھ نہیں دھو پائے ہیں تو اس دوران خصوصا ًاور ویسے بھی اپنے منہ، آنکھوں اور ناک کو ہاتھ یا انگلیاں لگانے سے پرہیز کریں کیونکہ ان جگہوں سے وائرس کے جسم میں داخلے کا امکان زیادہ ہے۔
٭…زیادہ تر غیرملکی سفر میں رہنے اور اکثرپبلک ٹیلیفون استعمال کرنے والے افرادکو وائرل انفیکشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اس سلسلے میں شدید ضرورت ہو تواپنے پاس wipesضرور رکھنا چاہئے اور وائپز سے رسیور صاف کر کے استعمال کرنا چاہئے۔
٭…اس خطرناک وائرس کو پاکستان پہنچنے سے روکنے کیلئے حکومت کو فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس مقصد کیلئے وائرس سے متاثرہ ممالک سے پاکستان آنے والے مسافروں کی ہوائی اڈوں پر خصوصی سکریننگ کی جانی چاہئے اور وائرس سے متاثرہ مسافروں کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے یا انتہائی نگہداشت اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ فوری طور پراس سلسلے میں مخصوص ہسپتال کے آئیسولیٹڈ وارڈ میں داخل کرا دینا چاہئے۔ صرف اسی اقدام سے ہی پاکستان کو اس تباہ کن وائرس سے بچایا جا سکتا ہے۔
٭…سور کے گوشت کے کاروبار کوسنبھالا دینے کیلئے کہا جا رہا ہے کہ سوائن فلوکا وائرس سور کے گوشت یا اس سے بنی مصنوعات کے کھانے سے پیدا نہیں ہوتااور یہ وائرس 70درجے پر سور کے گوشت کو پکانے سے ہلاک ہو جاتا ہے۔لیکن روس اور چین سمیت بعض ممالک نے اس ہدایت کی سنی ان سنی کرتے ہوئے امریکا سے سور کے گوشت کی درآمد پر پابندی لگادی ہے۔
٭…سوائن وائرس اب دنیا بھرکے ساتھ ساتھ ایشین ریجن اور پاکستان میں بھی پہنچ چکا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے وارننگ جاری کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ سوائن فلو کی وبا لاکھوں افراد کی ہلاکت کا سبب بن سکتی ہے لہذا دنیا بھر کے ممالک کو اس سے بچا ؤکیلئے حفاظتی اقدامات کرنے چاہیں۔
سوائن وائرس اورپاکستان
وزرات صحت حکومت پاکستان کے عہدے داروں کے مطابق وطن عزیزمیںتازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ ملک میں اب تک سوائن فلو کے دو سو سے زائد کیسز سامنے آچکے ہیں جن میں سے دس افراد جاں بحق ہوئے وفاقی سیکرٹری صحت خوشنود لاشاری کے مطابق پاکستان کو سوائن وائرس سے اتنا ہی خطرہ ہے جتنا کسی بھی دوسرے ملک کو۔
وفاقی سیکرٹری برائے صحت کے مطابق میکسیکو ،امریکہ، کنیڈا' یورپ 'بھارت اور دنیا کے بعض دیگر ممالک میں سوائن وائرس کے انسانی صحت پر اثرات اور اس سے ہونے والی ہلاکتوں کے پیش نظر پاکستان میں اس وبا کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے تمام ممکن اقدامات کئے جا رہے ہیں ۔سوائن فلو کے علاج کیلئے ویکسین جلد ہی پاکستان پہنچ جائے گی جو ایک ملین خوراکوں پر مشتمل ہو گی'سوائن فلو کی ویکسین عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے منگوائی جا رہی ہے اور اس کے بعد یو ایس ایڈ بھی پاکستان کو چالیس لاکھ سوائن فلو ویکسین کی خوراکیں فراہم کرے گا۔ ویکسین کی فوری تقسیم کیلئے ڈسٹری بیوشن پلان بھی مرتب کر لیا گیا ہے اور جن علاقوں میں سوائن فلو کے کیسز منظر عام پر آئے ہیں وہاں ویکسین کی فراہمی ترجیحی بنیادوں پر کی جائے گی۔سیکرٹری صحت کے مطابق سوائن فلو ویکسین کی ایک خوراک کی قیمت سات ڈالر سے زائد ہے تاہم اس کی مریضوں کو مفت فراہمی یقینی بنانے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ملکی آبادی کو اس بیماری کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے تما م بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر بیرون ملک سے آنے والے افراد کی خصوصی سکریننگ کی جارہی ہے تمام ہوائی اڈوں پر باہر سے آنے والے افراد کو فارم دے کر ان کی سفری معلومات حاصل کی جارہی ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی متاثرہ شخص متاثرہ ملک سے وائرس لے کر پاکستان میں داخل نہ ہونیز ایئر لائینز کے عملے سے کہا گیا ہے کہ وہ آنے والے مسافروں پر نظر رکھیں اور اگر کسی بھی مسافر میں مشتبہ فلو کی علامات ظاہر ہوں تو فورا ایئر پورٹ ہیلتھ اتھارٹی کو اطلاع دیں۔
یہ بات باعث تشویش ہے کہ پاکستان کی تمام حکومتوں کے دعووں کے برعکس صحت کے شعبے میں کوئی قابل ذکر ترقی نہیں ہوئی ۔نصف صدی سے زائد گذرنے کے باوجود ہمارا صحت کا شعبہ ابھی بھی ترقی پذیربلکہ انحطاط پذیر ہے۔مبہم صحت پالیسیاں بنانے کا کیا فائدہ جب ان پر عمل درآمد کے لئے کوئی طریق کار ہی وضع نہ کیا گیا ہو؟؟؟
تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق بیشتر ہوائی اڈوں پر سکریننگ کا کوئی انتظام نہیں ہے 'ملک کی کسی بندرگاہ میں ابھی تک تھرمل سکینرز کی تنصیب ممکن نہیں ہو سکی اور یہ باتیں صرف بیانات تک ہی محدود ہیں لہذا یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سوائن کے وائرس کو بھی ایڈز کے وائرس کی تخریبی کاروائی کی طرح کراچی پورٹ یا پاکستان کی دیگر ڈرائی پورٹس پرکینٹینرزکے ذریعے تجارتی اشیائے خورد و نوش یا دیگر اشیاء کے ذریعے بھی بھیجا جا سکتاہے ۔حکومت وقت کواس سلسلے میں فوری اقدا مات اٹھانے چاہئیں۔ اس معاشرے میں جہاں بخار کی دوا بھی حاصل کرنا دشوار ہو جاتا ہے وہا ں پر اس آفت کا مقابلہ کیسے ممکن ہو گا اس کیلئے دوست ممالک چین اورجاپان سے فورا ًمشاورت اور امداد حاصل کر کے سوائن فلوکی تباہی کو پاکستان میں نا ممکن بنایا جا سکتاہے۔ پاکستان کو درپیش اس خطرے کو حکومت تساہل کے سبب نظرانداز کرکے بڑا نقصان اٹھا سکتی ہے۔ خدانخواستہ اگر کراچی' سیالکوٹ 'لاہور 'فیصل آباد 'اسلام آبادجیسے شہروں میں یہ آفت پھیل گئی تو چشم تصور سے دیکھیں تو دشمن دور بیٹھے کس طرح ہمیں عالم بالا کی طرف بھیج کر پاکستان کو موجودہ صورتحال میں مزاحمت سے محروم کر سکتاہے۔ ان دیکھے دشمن کے خلاف شہری ہر گز مزاحم نہیں ہو سکیں گے۔ اس کا مقابلہ اسلحہ فوج یا طاقت سے نہیں فقط بروقت حفاظتی اقدامات سے ہی ہو سکتاہے۔ دشمن اس وقت کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال سے پاکستان میں مختلف بیماریوں کو پھیلانے اور اس کے ذریعے ملت اسلامیہ اور پاکستان کوخدانخوستہ ملیا میٹ کرنے پر تل چکے ہیں۔ چونکہ ان بیماریوںکا علاج معالجہ انتہائی پچیدگیوں کا حامل ہے اور نہ ہی ان کا کوئی سبب معلوم پڑتا ہے کہ کب کس وجہ سے کیا آفت ٹوٹ پڑے۔اسلئے یہ طاعون کی طرح پھیل کر بستیوںکی بستیاں اور شہر اجاڑ سکتی ہیں۔جس ملک کے شہری بیمار اور شہر ویران ہو جائیں وہاں کسی بھی طاقت کے خلاف مزاحمت کا عنصر مفقود ہی ہوگا۔ پاکستان میں جدید وبائی امراض سے نپٹنے کیلئے کوئی موثرسسٹم موجود نہیںاور اس سلسلے میں خالی بیانات داغے جا رہے ہیںجوانتہائی تشویش کا باعث ہے۔ وائرل ڈیزیزز کے حوالے سے صحت سے متعلقہ وفاقی اداروں کو ہنگامی بنیادوں پرفوری وعملی اقدامات کرنے چاہئیں۔###
مصادر و ماخذ:۔مضمون ہذا
http://www.deutsche-welle.de/popups/popup_printcontent/0,,4210144,00.html
http://en.wikipedia.org/wiki/Swine_flu
http://en.wikipedia.org/wiki/Influenza_A_virus_subtype_H1N1
http://www.oie.int/eng/press/en_090427.htm
http://www.who.int/mediacentre/news/statements/2009/h1n1_20090427/en/index.html
http://www.cdc.gov/swineflu/swineflu_you.htm
http://en.wikipedia.org/wiki/2009_swine_flu_outbreak
http://www.sanpedrosun.net/09-174.html
http://www.cdc.gov/swineflu/general_info.htm
فلو فائٹر:جین برونڈی'اور دیگرالیکٹرانک و پرنٹ میڈیا
ضروری نوٹ
٭…تحریر مصنف کا حوالہ دے کر شایع و نشر کی جا سکتی ہے
٭…مندرجہ بالا تحریر کی InPageفائل درج ذیل کسی بھی ایڈریس سے ڈاؤنلوڈ کی جا سکتی ہے
http://tinyurl.com/y9ag4rn
http://tinyurl.com/y8so7pt
http://rapidshare.com/files/328742883/SwineFlu.inp.html
http://www.filefactory.com/file/a16ed6g/n/SwineFlu.inp
http://netload.in/dateie4EOGNN1SV.htm