فخرنوید
محفلین
تحریر:قاضی ایم اے خالد
ارشادربانی ہے کہ’’ آپ کہہ دیجئے کہ جوکچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کیلئے جو اس کو کھائے ’ مگر یہ کہ وہ مردارہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہوکیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کہ غیر اللہ کیلئے نامزد کر دیا گیا ہو۔ پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا ہو تو واقعی آپ کا رب غفور ورحیم ہے’’ (سورہ انعام 146)
جدیدسائنس نے اسلامی شریعت میں ممنوعہ چیزوں کے بعض اسباب جاننے کی کوشش کی جس کو متبعین شریعت نے خورد بینوں کے انکشاف سے پہلے صدیوں تک عمل کیا ہے۔ ترتیب کے ساتھ مردار اور خون اس سے جراثیم پروان چڑھتے ہیںنیز خون سے تیزی اور کثرت کیساتھ بڑھتے ہیں اور خنزیر(سور)جس کے بدن میں تمام جہاں کی بیماریاں اور گندگیاں جمع ہیں ’ اور کسی بھی طرح کی صفائی ستھرائی ان کو دور نہیں کر سکتی خنزیرکے اندر کیڑے ‘بیکٹیریا اور ایسے وائرس ہوتے ہیںجن کو وہ انسان اور جانوروں میں منتقل کرتا ہے ۔ او ر خطرناک امراض کا باعث بنتا ہے مثلاTRCHINELLA،Balantidium Dysentery،Taenia Solium،Spiralis،ASCARIS،Fasciolopsis Buski،Balantidiasisوغیرہ اور سور کے اندر انفلوانزا کا مخصوص وائرس ہوتاہے جو کہ خنزیر پالنے والوں اور ان سے میل جول رکھنے والوں کے اندر وبائی مرض کی شکل میں ظاھرہوتا ہے۔ اور یہ مرض مصنوعی طور پر ترقی یافتہ ملکوں میں جہاں جہاں خنزیر پالے جاتے ہیں ‘زیادہ ہوتا ہے ۔عام طور پر اس بیماری کی علامت طبی نقطہ نظر کے حوالے سے موسمی نزلہ زکام سے مشابہہ ہیں تاہم کلینیکل رپورٹ کے مطابق یہ بیماری شروع ہونے کے بعد تیزی سے تبدیل ہوتی ہے اور موت تک ایک شدید نوعیت کے نمونیا میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اگرچہ جرمنی، فرانس ، فلپائن اور وینژویلا وغیرہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے جدید ٹیکنیکس بروئے کار لاکرخنزیر کے گوشت کی نجاستوں اور خباستوں کو دور کر دیا ہے لیکن ان ممالک کے مخصوص سرٹیفائڈ فارموں کا مذکورہ گوشت کھانے والے بیشمار افرادمیںبھی Trichinellosisکا مرض لگ جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے معدے سے آواز نکلنے لگتی ہے اور کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں جن کی تعدادکم ازکم دس ہزار ہوتی ہے پھر یہ کیڑے خون کے راستہ سے انسان کے پٹھوں میں منتقل ہوجاتے ہیں اور پھر مزیدمہلک امراض کی شکل اختبار کر لیتے ہیں ۔اسی طرح Spiralisکا مرض بیمارخنزیر کا گوشت کھانے سے لگتا ہے ۔ اس مرض میں بھی انسان کی آنتوں کے اندر کیڑا پروان چڑھنے لگتا ہے جس کی لمبائی کبھی کبھی سات میٹر سے بھی لمبی ہوتی ہے جس کا کانٹے دار سر آنتوں کی دیواروں کے اندر فضلے اوردوران خون کی دشواری کا سبب بنتا ہے اسکی چار چو سنے والی چونچیں اور ایک گردن ہوتی ہے جس سے مزید چونچ دار کیڑے وجود میں آتے ہیں جن کا ایک مستقل وجود ھوتا ہے اور تعدادہزار تک ہوتی ہے ، اور ہر بارہزار انڈے پیدا ہوتے ہیںاور انڈوں سے ملوث کھانا کھانے کی صورت میں Taenia Soliumکا مرض لگ جاتا ہے جس سے کیڑے پیدا ہو کر خون میں منتقل ہو جاتے ہیں اور مہلک امراض کا باعث بنتے ہیں۔
یہ معلومات وہ ہیں جوکہ پنجاب کی ایک اعلیٰ شخصیت کی طرف سے سور کے گوشت کے استعمال کے حوالے سے آنے والی خبروں کے بعد ایلیٹ سوسائٹی کے اراکین تک پہنچانے کی کوشش کر چکا ہوں۔تاکہ ان خبروں سے اس نجس گوشت کے استعمال کی ترغیب نہ ہونے پائے۔جبکہ پاکستان میں سب سے پہلے اس خدشے کا اظہار بھی راقم نے ہی کیا تھا کہ پاکستان میں مرغیوں کوسور کی چربی سے بنی فیڈ استعمال کروانے سے برڈ فلو کے کیسز زیادہ سامنے آرہے ہیں لہذا اس پر پابندی عائد کی جائے۔پاکستان کی عدلیہ نے بھی اس کی توثیق کی اور سورکی چربی ملی مرغیوں کی فیڈ پر پابندی عائد ہوئی۔
سوائن فلو یا خنزیر میں ہونے والے انفلوائنزا وائرس سے متعلقہ خبریں تو مارچ کے اواخر سے ہی سور کا گوشت استعمال کرنے والے ممالک کے حوالے سے سامنے آرہی تھیںلہذا اتنی فکرلاحق نہ ہوئی لیکن جب اپریل کے اواخر تک سوائن فلو عالمی وباکی شکل اختیار کرنے لگا تو ماتھاٹنکااور اس سلسلے میں معلومات کے حصول کیلئے تگ ودو شروع کی ‘اب تک جو معلومات حاصل ہوئیں وہ نذرقارئین ہے۔
سوائن فلو کی وبا نے دنیا کے بیسیوںممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یورپ میں اسپین اور برطانیہ کے بعد جرمنی میں بھی سوائن فلو کے کیسز کی تصدیق ہوگئی ہے۔ سوائن فلو کی وبا کا آغازمارچ میں میکسیکو سے ہوا’ جہاں اب تک سینکڑوںافراد ہلاک ہوچکے ہیں ۔سوائن فلو کے مشتبہ مریضوں کی تعدادہزاروںسے تجاوز کرچکی ہے ۔ تادم تحریرمیکسیکو میں مشتبہ مریضوں کی تعداد دو ہزار چار سو اٹھانوے ہے ۔امریکا میں ریاست کیلیفورنیا میں ہنگامی صورتحال کا اعلان کر دیا گیا ہے نیو یارک میں ایک سکول کے سینکڑوں طالبعلم اس وائرس کی زد میں ہیں ۔امریکہ کے صدر باراک اوباما نے اس وائرس کے خلاف اقدامات کے لئے کانگریس سے ڈیڑھ بلین ڈالر کا تقاضا کیا ہے۔ کینیڈا ،نیوزی لینڈ ، کوسٹاریکا ، اسکاٹ لینڈ، اسپین ، اسرائیل، جرمنی ، ارجنٹائن، آسٹریلیا، آسٹریا،چلی، کولمبیا، ڈنمارک، فرانس، ہانگ کانگ، انڈونیشیا، نیوزی لینڈ،آئرلینڈ، ہالینڈ، پولینڈ جنوبی کوریا، سویڈن، سوئٹزرلینڈ اور تھائی لینڈ میں مہلک سوائن فلو کے مشتبہ کیسز سامنے آئے ہیں۔میکسیکو میں تمام اسکولوں کو جبکہ امریکا میں متاثرہ ریاستوں کے اسکول بند کردیئے گئے ہیں ۔ پاکستان سمیت کئی ممالک نے ایئرپورٹس اور داخلی راستوں پر مسافروں کی اسکیننگ شروع کردی ہے۔ عالمی سطح پر ہیجان اور تشویش کا باعث بننے والا سوائن وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔میکسیکو کے شہری گھروں سے باہر نکلتے ہوئے ماسک کا استعمال کر رہے ہیں اور ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بھی گریز کر رہے ہیں۔سکولوں سے لے کر ہوٹلوں تک ہر جگہ بند ہے۔ اس وائرس کے پھیلا کی وجہ سے ملکی سیاحت بھی شدید متاثر ہو رہی ہے اور صرف میکسیکو سٹی کو روزانہ 57 ملین ڈالر کا خسارہ اٹھانا پڑ رہا ہے۔آٹھ ممالک نے، جن میں فرانس، برطانیہ، کیوبا اور ارجنٹائن شامل ہیں ، میکسیکو کے لئے اپنی پروازوں کا سلسلہ معطل کر دیا ہے اور اپنے شہریوں سے اس ملک کا سفر نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔وائرس کے پھیلا کی تشویش کی وجہ سے فرانس سے تھائی لینڈ تک بہت سے افراد کو جن پر اس وائرس میں مبتلا ہونے کا شبہ ہے طبی نگرانی میں رکھا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اس مرحلے پر مرض پر قابو پانا ممکن نہیں رہا۔ دنیا بھر میں کوئی جگہ اس وائرس سے محفوظ نہیں مزید یہ کہ ادارے نے ہنگامی صورتحال میں مزید اقدامات کا اضافہ کردیا ہے۔
سوائن فلو ہے کیا؟
سوائن فلو کی موجودہ وباء خنزیروں میں موجود ایک وائرسinfluenza A virus subtype H1N1کی وجہ سے دنیا کی تباہی کا پیغام لے کر آئی ہے۔ یہ سب ٹائپ فلو،جانورں اور انسانی فلو وائرس کے مختلف اجزا سے مرکب ہے۔ اس کی ابتدا کیسے ہوئی، اس کا اب تک پتہ نہیں چلایا جا سکا لیکن سوائن وائرس کا سب سے پہلے انکشاف 1930 میں سانس کی خطرناک بیماری میں مبتلا سوروں میں ہوا۔
سوائن فلو ‘زکام سے مشابہہ متعددی مرض ہے مگر اس کا طریقہ کار مخفی ہے۔ ابھی تک یہی خیال کیا جا رہا ہے کہ کھانسنے ، چھینکنے اور متاثرہ شخص کو چھونے سے یہ مرض ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے۔خصوصا انسانی تنفس سے دوسرے انسان کو متاثر کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت WHOکے مطابق میکسیکو میں ہلاکتوں کا سبب بننے والا وائرس A/H1N1وائرس ہے۔ یہ وائرس انسان سے انسان کو منتقل ہوتا ہے اور انسانوں، سوروں اور پرندوں کے فلو وائرس کے اجتماع سے سامنے آتا ہے۔
علامات
طبی ماہرین کے مطابق سوائن فلو میں مبتلا ہونے کی اہم علامات میں اچانک 104درجے کا بخار شدیدزکام، کھانسی ،سردرد ،جوڑوں کا درد اور بھوک کا ختم ہو جانا ہیں۔اگر بروقت علاج نہ ہوسکے اور مدافعتی نظام ناکارہ ہوجائے تو مریض نمونیا کا شکار ہو کر دم توڑ جاتا ہے۔چونکہ سوائن فلو کی بیماری واضح علامات ظاہر نہیں کرتی اور عام معمولی فلو کے مریض کی طرح کی ہی علامات سامنے آتی ہیںجس کی وجہ سے اس بیماری میں مبتلا انسانوں کی درست تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
ارشادربانی ہے کہ’’ آپ کہہ دیجئے کہ جوکچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کیلئے جو اس کو کھائے ’ مگر یہ کہ وہ مردارہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہوکیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کہ غیر اللہ کیلئے نامزد کر دیا گیا ہو۔ پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا ہو تو واقعی آپ کا رب غفور ورحیم ہے’’ (سورہ انعام 146)
جدیدسائنس نے اسلامی شریعت میں ممنوعہ چیزوں کے بعض اسباب جاننے کی کوشش کی جس کو متبعین شریعت نے خورد بینوں کے انکشاف سے پہلے صدیوں تک عمل کیا ہے۔ ترتیب کے ساتھ مردار اور خون اس سے جراثیم پروان چڑھتے ہیںنیز خون سے تیزی اور کثرت کیساتھ بڑھتے ہیں اور خنزیر(سور)جس کے بدن میں تمام جہاں کی بیماریاں اور گندگیاں جمع ہیں ’ اور کسی بھی طرح کی صفائی ستھرائی ان کو دور نہیں کر سکتی خنزیرکے اندر کیڑے ‘بیکٹیریا اور ایسے وائرس ہوتے ہیںجن کو وہ انسان اور جانوروں میں منتقل کرتا ہے ۔ او ر خطرناک امراض کا باعث بنتا ہے مثلاTRCHINELLA،Balantidium Dysentery،Taenia Solium،Spiralis،ASCARIS،Fasciolopsis Buski،Balantidiasisوغیرہ اور سور کے اندر انفلوانزا کا مخصوص وائرس ہوتاہے جو کہ خنزیر پالنے والوں اور ان سے میل جول رکھنے والوں کے اندر وبائی مرض کی شکل میں ظاھرہوتا ہے۔ اور یہ مرض مصنوعی طور پر ترقی یافتہ ملکوں میں جہاں جہاں خنزیر پالے جاتے ہیں ‘زیادہ ہوتا ہے ۔عام طور پر اس بیماری کی علامت طبی نقطہ نظر کے حوالے سے موسمی نزلہ زکام سے مشابہہ ہیں تاہم کلینیکل رپورٹ کے مطابق یہ بیماری شروع ہونے کے بعد تیزی سے تبدیل ہوتی ہے اور موت تک ایک شدید نوعیت کے نمونیا میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اگرچہ جرمنی، فرانس ، فلپائن اور وینژویلا وغیرہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے جدید ٹیکنیکس بروئے کار لاکرخنزیر کے گوشت کی نجاستوں اور خباستوں کو دور کر دیا ہے لیکن ان ممالک کے مخصوص سرٹیفائڈ فارموں کا مذکورہ گوشت کھانے والے بیشمار افرادمیںبھی Trichinellosisکا مرض لگ جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے معدے سے آواز نکلنے لگتی ہے اور کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں جن کی تعدادکم ازکم دس ہزار ہوتی ہے پھر یہ کیڑے خون کے راستہ سے انسان کے پٹھوں میں منتقل ہوجاتے ہیں اور پھر مزیدمہلک امراض کی شکل اختبار کر لیتے ہیں ۔اسی طرح Spiralisکا مرض بیمارخنزیر کا گوشت کھانے سے لگتا ہے ۔ اس مرض میں بھی انسان کی آنتوں کے اندر کیڑا پروان چڑھنے لگتا ہے جس کی لمبائی کبھی کبھی سات میٹر سے بھی لمبی ہوتی ہے جس کا کانٹے دار سر آنتوں کی دیواروں کے اندر فضلے اوردوران خون کی دشواری کا سبب بنتا ہے اسکی چار چو سنے والی چونچیں اور ایک گردن ہوتی ہے جس سے مزید چونچ دار کیڑے وجود میں آتے ہیں جن کا ایک مستقل وجود ھوتا ہے اور تعدادہزار تک ہوتی ہے ، اور ہر بارہزار انڈے پیدا ہوتے ہیںاور انڈوں سے ملوث کھانا کھانے کی صورت میں Taenia Soliumکا مرض لگ جاتا ہے جس سے کیڑے پیدا ہو کر خون میں منتقل ہو جاتے ہیں اور مہلک امراض کا باعث بنتے ہیں۔
یہ معلومات وہ ہیں جوکہ پنجاب کی ایک اعلیٰ شخصیت کی طرف سے سور کے گوشت کے استعمال کے حوالے سے آنے والی خبروں کے بعد ایلیٹ سوسائٹی کے اراکین تک پہنچانے کی کوشش کر چکا ہوں۔تاکہ ان خبروں سے اس نجس گوشت کے استعمال کی ترغیب نہ ہونے پائے۔جبکہ پاکستان میں سب سے پہلے اس خدشے کا اظہار بھی راقم نے ہی کیا تھا کہ پاکستان میں مرغیوں کوسور کی چربی سے بنی فیڈ استعمال کروانے سے برڈ فلو کے کیسز زیادہ سامنے آرہے ہیں لہذا اس پر پابندی عائد کی جائے۔پاکستان کی عدلیہ نے بھی اس کی توثیق کی اور سورکی چربی ملی مرغیوں کی فیڈ پر پابندی عائد ہوئی۔
سوائن فلو یا خنزیر میں ہونے والے انفلوائنزا وائرس سے متعلقہ خبریں تو مارچ کے اواخر سے ہی سور کا گوشت استعمال کرنے والے ممالک کے حوالے سے سامنے آرہی تھیںلہذا اتنی فکرلاحق نہ ہوئی لیکن جب اپریل کے اواخر تک سوائن فلو عالمی وباکی شکل اختیار کرنے لگا تو ماتھاٹنکااور اس سلسلے میں معلومات کے حصول کیلئے تگ ودو شروع کی ‘اب تک جو معلومات حاصل ہوئیں وہ نذرقارئین ہے۔
سوائن فلو کی وبا نے دنیا کے بیسیوںممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یورپ میں اسپین اور برطانیہ کے بعد جرمنی میں بھی سوائن فلو کے کیسز کی تصدیق ہوگئی ہے۔ سوائن فلو کی وبا کا آغازمارچ میں میکسیکو سے ہوا’ جہاں اب تک سینکڑوںافراد ہلاک ہوچکے ہیں ۔سوائن فلو کے مشتبہ مریضوں کی تعدادہزاروںسے تجاوز کرچکی ہے ۔ تادم تحریرمیکسیکو میں مشتبہ مریضوں کی تعداد دو ہزار چار سو اٹھانوے ہے ۔امریکا میں ریاست کیلیفورنیا میں ہنگامی صورتحال کا اعلان کر دیا گیا ہے نیو یارک میں ایک سکول کے سینکڑوں طالبعلم اس وائرس کی زد میں ہیں ۔امریکہ کے صدر باراک اوباما نے اس وائرس کے خلاف اقدامات کے لئے کانگریس سے ڈیڑھ بلین ڈالر کا تقاضا کیا ہے۔ کینیڈا ،نیوزی لینڈ ، کوسٹاریکا ، اسکاٹ لینڈ، اسپین ، اسرائیل، جرمنی ، ارجنٹائن، آسٹریلیا، آسٹریا،چلی، کولمبیا، ڈنمارک، فرانس، ہانگ کانگ، انڈونیشیا، نیوزی لینڈ،آئرلینڈ، ہالینڈ، پولینڈ جنوبی کوریا، سویڈن، سوئٹزرلینڈ اور تھائی لینڈ میں مہلک سوائن فلو کے مشتبہ کیسز سامنے آئے ہیں۔میکسیکو میں تمام اسکولوں کو جبکہ امریکا میں متاثرہ ریاستوں کے اسکول بند کردیئے گئے ہیں ۔ پاکستان سمیت کئی ممالک نے ایئرپورٹس اور داخلی راستوں پر مسافروں کی اسکیننگ شروع کردی ہے۔ عالمی سطح پر ہیجان اور تشویش کا باعث بننے والا سوائن وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔میکسیکو کے شہری گھروں سے باہر نکلتے ہوئے ماسک کا استعمال کر رہے ہیں اور ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بھی گریز کر رہے ہیں۔سکولوں سے لے کر ہوٹلوں تک ہر جگہ بند ہے۔ اس وائرس کے پھیلا کی وجہ سے ملکی سیاحت بھی شدید متاثر ہو رہی ہے اور صرف میکسیکو سٹی کو روزانہ 57 ملین ڈالر کا خسارہ اٹھانا پڑ رہا ہے۔آٹھ ممالک نے، جن میں فرانس، برطانیہ، کیوبا اور ارجنٹائن شامل ہیں ، میکسیکو کے لئے اپنی پروازوں کا سلسلہ معطل کر دیا ہے اور اپنے شہریوں سے اس ملک کا سفر نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔وائرس کے پھیلا کی تشویش کی وجہ سے فرانس سے تھائی لینڈ تک بہت سے افراد کو جن پر اس وائرس میں مبتلا ہونے کا شبہ ہے طبی نگرانی میں رکھا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اس مرحلے پر مرض پر قابو پانا ممکن نہیں رہا۔ دنیا بھر میں کوئی جگہ اس وائرس سے محفوظ نہیں مزید یہ کہ ادارے نے ہنگامی صورتحال میں مزید اقدامات کا اضافہ کردیا ہے۔
سوائن فلو ہے کیا؟
سوائن فلو کی موجودہ وباء خنزیروں میں موجود ایک وائرسinfluenza A virus subtype H1N1کی وجہ سے دنیا کی تباہی کا پیغام لے کر آئی ہے۔ یہ سب ٹائپ فلو،جانورں اور انسانی فلو وائرس کے مختلف اجزا سے مرکب ہے۔ اس کی ابتدا کیسے ہوئی، اس کا اب تک پتہ نہیں چلایا جا سکا لیکن سوائن وائرس کا سب سے پہلے انکشاف 1930 میں سانس کی خطرناک بیماری میں مبتلا سوروں میں ہوا۔
سوائن فلو ‘زکام سے مشابہہ متعددی مرض ہے مگر اس کا طریقہ کار مخفی ہے۔ ابھی تک یہی خیال کیا جا رہا ہے کہ کھانسنے ، چھینکنے اور متاثرہ شخص کو چھونے سے یہ مرض ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے۔خصوصا انسانی تنفس سے دوسرے انسان کو متاثر کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت WHOکے مطابق میکسیکو میں ہلاکتوں کا سبب بننے والا وائرس A/H1N1وائرس ہے۔ یہ وائرس انسان سے انسان کو منتقل ہوتا ہے اور انسانوں، سوروں اور پرندوں کے فلو وائرس کے اجتماع سے سامنے آتا ہے۔
علامات
طبی ماہرین کے مطابق سوائن فلو میں مبتلا ہونے کی اہم علامات میں اچانک 104درجے کا بخار شدیدزکام، کھانسی ،سردرد ،جوڑوں کا درد اور بھوک کا ختم ہو جانا ہیں۔اگر بروقت علاج نہ ہوسکے اور مدافعتی نظام ناکارہ ہوجائے تو مریض نمونیا کا شکار ہو کر دم توڑ جاتا ہے۔چونکہ سوائن فلو کی بیماری واضح علامات ظاہر نہیں کرتی اور عام معمولی فلو کے مریض کی طرح کی ہی علامات سامنے آتی ہیںجس کی وجہ سے اس بیماری میں مبتلا انسانوں کی درست تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔