الف عین
لائبریرین
پڑ رہی ہے ایسی ہر جانب سے مار
ہے یہ دامن تار تار
دھول بن کر اڑ رہا ہے سب وہ پھولوں کا د یار
گھاٹیاں فردوس صورت وادیاں جنّت مثال
ہنستی گاتی بستیاں سب چپ ہیں مرگھٹ کی طرح
خوشبوؤں کا دیس تھا پھولوں کا مسکن تھا یہیں
قریہ قریہ قصبہ قصبہ خون میں لت پت پڑا ہے آجکل
عظمت رفتہ کا آئینہ یہ والی کا محل
دل گرفتہ مضمحل تنہا کھڑا ہے آجکل
اب بھی ان اونچے چناروں کو بہت اچھی طرح سے یاد ہے
وہ گزشتہ دور وہ جاہ و جلال
دھوپ کی سرمستیاں بھی ان سے پوشیدہ نہیں
چاند کی سرگوشیوں کا راز بھی معلوم ہے
وہ حسیں شامیں کہاں ہیں وہ سویرے کیا ہوئے
ندّیاں کیوں گنگ ہیں پھولوں کے ڈیرے کیا ہوئے
سوات زخموں سے نڈھال
گولیوں کی سنسناہٹ کتنے ہونٹوں کا تبسم کھا گئی
آہنی گولوں کی ظالم گڑگڑاہٹ سے کہیں
نغمہ ریزی میں سدا مصروف دریا چل بسا
سوات زخموں سے نڈھال
وہ گلی کوچے جہاں پر زندگی رقصاں تھی کل
دوستوں کی ٹولیوں کا اک جہاں آباد تھا
موت کی دہشت سے ڈر کر اس طرح خاموش ہیں
جیسے ان کا لطف و مستی سے کبھی کوئی تعلق ہی نہ تھا
سوات زخموں سے نڈھال
سر کٹی لاشوں نے ان چوکوں کا ماضی کھا لیا
گولیوں کی تڑتڑاہٹ آسمانوں تک گئی
اپنے سوئے پاسبانوں تک گئی
کُوچہ کُوچہ گھوم پھر کر
موت کے قدموں نے سارے شہر کو اپنا لیا
سوات زخموں سے نڈھال
دوستوں کا دشمنوں کا جاننا ممکن نہیں
اک گھنا جنگل ہے جس میں رات دن محبوس ہیں
آشنا مانوس چہرے سارے نامانوس ہیں
زندہ بچنے والے اک اک سانس سے مایوس ہیں
سوات زخموں سے نڈھال
خوبصورت کل کا سندیسہ لئے کچھ لوگ پُر اُمید ہیں
بابِ مستقبل سے نکلے گا کسی دن آفتاب
چھین لے گا آج کے مکروہ چہرہ سے نقاب
’’کیوں جہنم بن گئی جنّت مری
کس لئے آئی ہے یہ شامت مری‘‘
کیا رہے گا تا قیامت لا جواب
خاک میں ملتے ہوئے ہونٹوں کا یہ زندہ سوال
سوات زخموں سے نڈھال
وہ فضا گٹ ہے فضا گٹ اب نہ وہ بحرین ہے
جس جگہ سُکھ چین تھا
ہر اس جگہ فریاد ہے اک بین ہے
وادئ کالام یارو وادئ آلام ہے
سوات زخموں سے نڈھال
جس زمیں کی وجہِ شہرت سیب کے باغات تھے
اب وہاں بربادیوں کا راج ہے
ہر گھڑی واں خوف کی اک فصل کٹنے کے لیے تیار ہے
صبح رہتی تھی جہاں دن بھر وہاں اب شام ہے
پھول سے چہروں کا کتنا ہولناک انجام ہے
سوات زخموں سے نڈھال
چُپ نہیں کانجو، کبل کالاکلے
اپنی اپنی داستانیں کہہ رہے ہیں گھر جلے
یہ شکستہ بام و در کل تک سبھی آباد تھے
روزمرّہ کے ہزاروں کام دھندے چل رہے تھے ہر طرف
اپنی قسمت پر یہاں کے رہنے والے مطمئن تھے شاد تھے
سوات زخموں سے نڈھال
ان گنت زخموں سے چکنا چور ہیں کوہ و دمن
ٹوٹے پھوٹے پل ہیں اب سڑکوں کے سینے چاک ہیں
راکھ جسموں پر مَلے چپ چاپ ہںی سرو و سمن
رستم و سہراب کل کے سب خس و خاشاک ہیں
دیدہ و نادیدہ ہاتھوں نے بہت ادنیٰ مقاصد کے لیے
ایک دل کش شکل و صورت کو بنا ڈالا ہے اتنا خوفناک
سوات زخموں سے نڈھال
ہے یہ دامن تار تار
دھول بن کر اڑ رہا ہے سب وہ پھولوں کا د یار
گھاٹیاں فردوس صورت وادیاں جنّت مثال
ہنستی گاتی بستیاں سب چپ ہیں مرگھٹ کی طرح
خوشبوؤں کا دیس تھا پھولوں کا مسکن تھا یہیں
قریہ قریہ قصبہ قصبہ خون میں لت پت پڑا ہے آجکل
عظمت رفتہ کا آئینہ یہ والی کا محل
دل گرفتہ مضمحل تنہا کھڑا ہے آجکل
اب بھی ان اونچے چناروں کو بہت اچھی طرح سے یاد ہے
وہ گزشتہ دور وہ جاہ و جلال
دھوپ کی سرمستیاں بھی ان سے پوشیدہ نہیں
چاند کی سرگوشیوں کا راز بھی معلوم ہے
وہ حسیں شامیں کہاں ہیں وہ سویرے کیا ہوئے
ندّیاں کیوں گنگ ہیں پھولوں کے ڈیرے کیا ہوئے
سوات زخموں سے نڈھال
گولیوں کی سنسناہٹ کتنے ہونٹوں کا تبسم کھا گئی
آہنی گولوں کی ظالم گڑگڑاہٹ سے کہیں
نغمہ ریزی میں سدا مصروف دریا چل بسا
سوات زخموں سے نڈھال
وہ گلی کوچے جہاں پر زندگی رقصاں تھی کل
دوستوں کی ٹولیوں کا اک جہاں آباد تھا
موت کی دہشت سے ڈر کر اس طرح خاموش ہیں
جیسے ان کا لطف و مستی سے کبھی کوئی تعلق ہی نہ تھا
سوات زخموں سے نڈھال
سر کٹی لاشوں نے ان چوکوں کا ماضی کھا لیا
گولیوں کی تڑتڑاہٹ آسمانوں تک گئی
اپنے سوئے پاسبانوں تک گئی
کُوچہ کُوچہ گھوم پھر کر
موت کے قدموں نے سارے شہر کو اپنا لیا
سوات زخموں سے نڈھال
دوستوں کا دشمنوں کا جاننا ممکن نہیں
اک گھنا جنگل ہے جس میں رات دن محبوس ہیں
آشنا مانوس چہرے سارے نامانوس ہیں
زندہ بچنے والے اک اک سانس سے مایوس ہیں
سوات زخموں سے نڈھال
خوبصورت کل کا سندیسہ لئے کچھ لوگ پُر اُمید ہیں
بابِ مستقبل سے نکلے گا کسی دن آفتاب
چھین لے گا آج کے مکروہ چہرہ سے نقاب
’’کیوں جہنم بن گئی جنّت مری
کس لئے آئی ہے یہ شامت مری‘‘
کیا رہے گا تا قیامت لا جواب
خاک میں ملتے ہوئے ہونٹوں کا یہ زندہ سوال
سوات زخموں سے نڈھال
وہ فضا گٹ ہے فضا گٹ اب نہ وہ بحرین ہے
جس جگہ سُکھ چین تھا
ہر اس جگہ فریاد ہے اک بین ہے
وادئ کالام یارو وادئ آلام ہے
سوات زخموں سے نڈھال
جس زمیں کی وجہِ شہرت سیب کے باغات تھے
اب وہاں بربادیوں کا راج ہے
ہر گھڑی واں خوف کی اک فصل کٹنے کے لیے تیار ہے
صبح رہتی تھی جہاں دن بھر وہاں اب شام ہے
پھول سے چہروں کا کتنا ہولناک انجام ہے
سوات زخموں سے نڈھال
چُپ نہیں کانجو، کبل کالاکلے
اپنی اپنی داستانیں کہہ رہے ہیں گھر جلے
یہ شکستہ بام و در کل تک سبھی آباد تھے
روزمرّہ کے ہزاروں کام دھندے چل رہے تھے ہر طرف
اپنی قسمت پر یہاں کے رہنے والے مطمئن تھے شاد تھے
سوات زخموں سے نڈھال
ان گنت زخموں سے چکنا چور ہیں کوہ و دمن
ٹوٹے پھوٹے پل ہیں اب سڑکوں کے سینے چاک ہیں
راکھ جسموں پر مَلے چپ چاپ ہںی سرو و سمن
رستم و سہراب کل کے سب خس و خاشاک ہیں
دیدہ و نادیدہ ہاتھوں نے بہت ادنیٰ مقاصد کے لیے
ایک دل کش شکل و صورت کو بنا ڈالا ہے اتنا خوفناک
سوات زخموں سے نڈھال