زین
لائبریرین
حکومتی رٹ کو سوات میں چیلنج کیا جائے تو اسکو برا کہا جاتا ہے ڈرون حملوں پر حکومتی رٹ اور غیرت کہاں جاتی ہے ؟
حکومت میں اتنی جرات نہیں وہ امریکہ کےخلاف کوئی بات کر سکے صدر زرداری نوازشریف سمیت تمام سیاستدان اپنا اپنا سرمایہ ملک میں لائیں امریکہ اور اسکے حواری فرقہ واریت پھیلانے کی سازش کر رہے ہیں ملکر ناکام بنانا ہو گا‘مولانا فضل الرحمن ‘قاضی حسین احمد ‘سید ساجد علی نقوی ‘پروفیسر ساجد میر ‘مولانا حنیف جالندھری ‘ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی ‘انجینئر سلیم اللہ ‘صاحبزادہ ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر ‘قاری زوار بہادر ‘ڈاکٹر رحیق عباسی اور دیگر قائدین کا خطاب
لاہور……جمعیت علماء پاکستان نورانی کے زیر اہتمام دینی جماعتوں کی قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا ہے کہ اگر حکومتی رٹ کو سوات میں چیلنج کیا جائے تو اسکو برا کہا جاتا ہے حکمران بتائیں کہ ڈرون حملوں پر انکی رٹ اور غیرت کہاں جاتی ہے ؟‘فوج اور آصف زرداری ایک ہیں اور دونوں امریکی نواز پالیسیوں پر عمل کر رہے ہیں ‘فوجی طاقت کے استعمال سے مسائل حل نہیں ہونگے اور نہ ہی انگریز کے شاگرد اسلام کی بالا دستی قائم کر سکتے ہیں ‘حکومت میں اتنی جرات نہیں کہ وہ امریکہ کے خلاف کوئی بات کر سکے ‘اسلام اور اردو زبان جو ہمیں متحد رکھ سکتی ہے اسکی حمایت کرنے والوں کو ملک بدر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ‘صدر آصف زرداری اور میاں نوازشریف سمیت تمام سیاستدان اپنا اپنا سرمایہ ملک میں لائیں اور یہی رہیں ‘حکومت اگر جمہوریت پر یقین رکھتی ہے تو دہشتگردی اور دیگر مسائل کے حل کے حوالے سے پارلیمنٹ سے منظور کی جانیوالی قرار داد پر عمل کروائے اور فوری طور پر سوات میں فوجی آپریشن ختم کر کےے مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرے ‘ملک میں ایک مرتبہ پھر امریکہ اور اسکے حواری فرقہ واریت پھیلانے کی سازش کر رہے ہیں جسے ہم سب کو ملکر ناکام بنانا ہو گا۔ ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز مقامی ہوٹل میں منعقدہ کانفرنس سے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ‘جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد ‘اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ سید ساجد علی نقوی ‘مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر ‘وفاق المدارس کے سربراہ مولانا حنیف جالندھری ‘تحفظ ناموس رسالت محاذ کے سربراہ ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی ‘جمعیت علماء پاکستان (نفاذ شریعت ) کے سربراہ انجینئر سلیم اللہ ‘جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ صاحبزادہ ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر ‘جنرل سیکرٹری قاری زوار بہادر ‘تحریک منہاج القرآن کے ناظم اعلی ڈاکٹر رحیق عباسی ‘پاکستان امن کونسل کے مفتی صفدر علی قادری سمیت 17سے زائد دینی جماعتوں کے قائدین نے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ سوات یا قبائلی علاقوں میں کوئی حکومتی رٹ چیلنج کرے تو حکومت اسکو برا کہتی ہے مگر ڈرون حملوں پر غیرت کہا ں چلی جاتی ہے ‘عالمی قوتیں ہماری رٹ کو چیلنج کر کے ہماری عوام کو نشانہ بنا رہی ہے اور دہشتگردی کی جنگ ہم پر مسلط کی جا رہی ہے تو پھر حکومت کیوں خاموش ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج دیو بندی اور بریلوی تنازعہ کھڑا کیا جا رہا ہے اس لئے ہم سب کو چاہیے کہ متحد ہو کر دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا دیں اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بش نے کہا تھا کہ شیعہ سنی اختلافات ہمارے فائدے میں ہیں اور امریکہ جب چاہے انکو استعمال کر لے لیکن ہمیں امریکہ سمیت سب کو ناکام بنانا ہو گا۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور خرم ایجنسی میں بھی شیعہ سنی فسادات کی کوششیں کی گئی ہیں اور اب تک اس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بتائے کہ اگر صوفی محمد کے مطالبات درست نہیں تھے تو پھر ان سے معاہدہ کیوںکیا گیا تھا اور اب اس معاہدے کو کیوں توڑا گیا اور وہاں پر فوجی آپریشن شروع ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہم شروع دن سے کہتے ہیں کہ فوجی آپریشن مسائل کا حل نہیں طاقت کے استعمال کی بجائے مذاکرات مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر حکومت جمہوریت پر یقین رکھتی ہے تو انکو پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کروائی جانیوالی قرار داد پر عمل کرنا ہوگا کیونکہ پہلے ہی اس قرار داد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوجی آپریشن کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جب سرحد میں ہماری حکومت تھی تو ہم نے فوج کو آپریشن کی اجازت نہیں دی تھی ۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ سوات اور دیگر علاقوں میں فوجی آپریشن دہشتگردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف نہیں بلکہ معصوم لوگوں کے خلاف کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ایک بڑا انسانی المیہ وجود میںآچکا ہے یہ سب کچھ امریکہ کے کہنے پر کیا جار ہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ فوج اور صدر آصف علی زرداری ایک ہیں اور دونوں کی پالیسیاں امریکہ نواز ہیں ۔ آج پنجابی فوجیوں کو پختونوں اور بلوچوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے جو انتہائی خطرناک ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ جو مقاصد فوج کی حمایت کر کے حاصل کر سکتا ہے وہ سویلین حکومت سے ممکن نہیں کیونکہ قوم سویلین حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہے جب وہ اسکی امنگوں کے خلاف کام کرے اس لئے امریکہ فوج کی زیادہ حمایت کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو بچانے اور امریکی مداخلت کے لئے ہم سب کو ایک محاذ پر کھڑا ہونا ہو گا لیکن یہ حکومت کے ساتھ ملکر ممکن نہیں بلکہ حکومت کے مد مقابل کھڑے ہو کر ہی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ صوفی محمد نے سوات میں نظام عدل قائم کرنے سے انکار کر دیا تھا اصل میں حکمرانوں کی نیت ہی درست نہیں تھی ۔ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ جب تک ہم امریکہ سے آنیوالی امداد لینا بند نہیں کرتے اس وقت تک امریکی مداخلت کو بھی نہیں روکا جا سکتا کیونکہ جب ہم کسی کے آگے ہاتھ پھلائیں گے تو وہ ہمیں پیسے دیگا تو یقینا پھر اسکی ڈکٹیشن بھی قبول کرنا ہو گی جو ملک کیلئے خطرناک ہے ۔
حکومت میں اتنی جرات نہیں وہ امریکہ کےخلاف کوئی بات کر سکے صدر زرداری نوازشریف سمیت تمام سیاستدان اپنا اپنا سرمایہ ملک میں لائیں امریکہ اور اسکے حواری فرقہ واریت پھیلانے کی سازش کر رہے ہیں ملکر ناکام بنانا ہو گا‘مولانا فضل الرحمن ‘قاضی حسین احمد ‘سید ساجد علی نقوی ‘پروفیسر ساجد میر ‘مولانا حنیف جالندھری ‘ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی ‘انجینئر سلیم اللہ ‘صاحبزادہ ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر ‘قاری زوار بہادر ‘ڈاکٹر رحیق عباسی اور دیگر قائدین کا خطاب
لاہور……جمعیت علماء پاکستان نورانی کے زیر اہتمام دینی جماعتوں کی قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا ہے کہ اگر حکومتی رٹ کو سوات میں چیلنج کیا جائے تو اسکو برا کہا جاتا ہے حکمران بتائیں کہ ڈرون حملوں پر انکی رٹ اور غیرت کہاں جاتی ہے ؟‘فوج اور آصف زرداری ایک ہیں اور دونوں امریکی نواز پالیسیوں پر عمل کر رہے ہیں ‘فوجی طاقت کے استعمال سے مسائل حل نہیں ہونگے اور نہ ہی انگریز کے شاگرد اسلام کی بالا دستی قائم کر سکتے ہیں ‘حکومت میں اتنی جرات نہیں کہ وہ امریکہ کے خلاف کوئی بات کر سکے ‘اسلام اور اردو زبان جو ہمیں متحد رکھ سکتی ہے اسکی حمایت کرنے والوں کو ملک بدر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ‘صدر آصف زرداری اور میاں نوازشریف سمیت تمام سیاستدان اپنا اپنا سرمایہ ملک میں لائیں اور یہی رہیں ‘حکومت اگر جمہوریت پر یقین رکھتی ہے تو دہشتگردی اور دیگر مسائل کے حل کے حوالے سے پارلیمنٹ سے منظور کی جانیوالی قرار داد پر عمل کروائے اور فوری طور پر سوات میں فوجی آپریشن ختم کر کےے مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرے ‘ملک میں ایک مرتبہ پھر امریکہ اور اسکے حواری فرقہ واریت پھیلانے کی سازش کر رہے ہیں جسے ہم سب کو ملکر ناکام بنانا ہو گا۔ ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز مقامی ہوٹل میں منعقدہ کانفرنس سے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ‘جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد ‘اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ سید ساجد علی نقوی ‘مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر ‘وفاق المدارس کے سربراہ مولانا حنیف جالندھری ‘تحفظ ناموس رسالت محاذ کے سربراہ ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی ‘جمعیت علماء پاکستان (نفاذ شریعت ) کے سربراہ انجینئر سلیم اللہ ‘جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ صاحبزادہ ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر ‘جنرل سیکرٹری قاری زوار بہادر ‘تحریک منہاج القرآن کے ناظم اعلی ڈاکٹر رحیق عباسی ‘پاکستان امن کونسل کے مفتی صفدر علی قادری سمیت 17سے زائد دینی جماعتوں کے قائدین نے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ سوات یا قبائلی علاقوں میں کوئی حکومتی رٹ چیلنج کرے تو حکومت اسکو برا کہتی ہے مگر ڈرون حملوں پر غیرت کہا ں چلی جاتی ہے ‘عالمی قوتیں ہماری رٹ کو چیلنج کر کے ہماری عوام کو نشانہ بنا رہی ہے اور دہشتگردی کی جنگ ہم پر مسلط کی جا رہی ہے تو پھر حکومت کیوں خاموش ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج دیو بندی اور بریلوی تنازعہ کھڑا کیا جا رہا ہے اس لئے ہم سب کو چاہیے کہ متحد ہو کر دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا دیں اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بش نے کہا تھا کہ شیعہ سنی اختلافات ہمارے فائدے میں ہیں اور امریکہ جب چاہے انکو استعمال کر لے لیکن ہمیں امریکہ سمیت سب کو ناکام بنانا ہو گا۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور خرم ایجنسی میں بھی شیعہ سنی فسادات کی کوششیں کی گئی ہیں اور اب تک اس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بتائے کہ اگر صوفی محمد کے مطالبات درست نہیں تھے تو پھر ان سے معاہدہ کیوںکیا گیا تھا اور اب اس معاہدے کو کیوں توڑا گیا اور وہاں پر فوجی آپریشن شروع ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہم شروع دن سے کہتے ہیں کہ فوجی آپریشن مسائل کا حل نہیں طاقت کے استعمال کی بجائے مذاکرات مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر حکومت جمہوریت پر یقین رکھتی ہے تو انکو پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کروائی جانیوالی قرار داد پر عمل کرنا ہوگا کیونکہ پہلے ہی اس قرار داد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوجی آپریشن کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جب سرحد میں ہماری حکومت تھی تو ہم نے فوج کو آپریشن کی اجازت نہیں دی تھی ۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ سوات اور دیگر علاقوں میں فوجی آپریشن دہشتگردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف نہیں بلکہ معصوم لوگوں کے خلاف کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ایک بڑا انسانی المیہ وجود میںآچکا ہے یہ سب کچھ امریکہ کے کہنے پر کیا جار ہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ فوج اور صدر آصف علی زرداری ایک ہیں اور دونوں کی پالیسیاں امریکہ نواز ہیں ۔ آج پنجابی فوجیوں کو پختونوں اور بلوچوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے جو انتہائی خطرناک ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ جو مقاصد فوج کی حمایت کر کے حاصل کر سکتا ہے وہ سویلین حکومت سے ممکن نہیں کیونکہ قوم سویلین حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہے جب وہ اسکی امنگوں کے خلاف کام کرے اس لئے امریکہ فوج کی زیادہ حمایت کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو بچانے اور امریکی مداخلت کے لئے ہم سب کو ایک محاذ پر کھڑا ہونا ہو گا لیکن یہ حکومت کے ساتھ ملکر ممکن نہیں بلکہ حکومت کے مد مقابل کھڑے ہو کر ہی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ صوفی محمد نے سوات میں نظام عدل قائم کرنے سے انکار کر دیا تھا اصل میں حکمرانوں کی نیت ہی درست نہیں تھی ۔ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ جب تک ہم امریکہ سے آنیوالی امداد لینا بند نہیں کرتے اس وقت تک امریکی مداخلت کو بھی نہیں روکا جا سکتا کیونکہ جب ہم کسی کے آگے ہاتھ پھلائیں گے تو وہ ہمیں پیسے دیگا تو یقینا پھر اسکی ڈکٹیشن بھی قبول کرنا ہو گی جو ملک کیلئے خطرناک ہے ۔