جنگ اخبار کی اس خبر کے ماخذ ابھی تک نامعلوم ہیں۔
کوئی پتا نہیں جنگ کے دفتر میں بھی کوئی سر پھرا بیٹھا ہو جو ایسی خبریں بغیر ثبوت کے اڑا رہا ہو۔ اس سے قبل جب واہ فیکٹری میں خود کش حملہ کیا گیا تھا اور طالبان ترجمان خود اچھل اچھل کر اسے قبول کر رہے تھے، اُس وقت بھی حامد میر جیسے سازشی کردار جنگ اخبار کے دفتر میں بیٹھ کر لمبی چوڑی خبر شائع کر رہے تھے کہ واہ فیکٹری میں دھماکے طالبان نے نہیں کروائے ہیں بلکہ ثبوت موجود ہیں کہ یہ دھماکے افغان سرحد پار سے انڈین را نے کروائے ہیں۔
اگر واقعی یہ خبر سچی ہے تو پھر اس شخص اور ان بچوں کا چالان ابھی تک عدالت میں کیوں نہیں پیش کیا گیا ہے؟ جب تک یہ چالان عدالت میں پیش نہیں ہوتا اُسوقت تک اس خبر پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس خبر میں بچوں کا ذکر ہے جو کہ سراسر غلط ہے کیونکہ اس ویڈیو کو دوبارہ دیکھ لیں یہاں پر دور دور تک کوئی بچے موجود نہیں بلکہ سب جوان لوگ موجود ہیں۔
لگتا ہے پھر وہی مسئلہ ہوا ہے کہ جھوٹ بولنے کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر یہاں دور دور تک کوئی بچہ نہیں دکھائی دے رہا ہے۔
کیا سوات میں اتنے لوگوں کی موجودگی میں طالبان کے اُس کافرانہ ظالمانہ دجالی دور میں ممکن تھا کہ اتنی تعداد میں لوگ جمع ہو کر یوں سڑک پر کسی لڑکی کو کوڑے مارنے کا ڈرامہ کیا جا سکے؟
جواب ہاں یا ناں میں دیں کہ اُس دجالی دور میں سڑکوں پر عورتوں کے خلاف ایسے ڈرامے کرنا ممکن تھا یا نہیں۔
اور کیا این جی او نے وہاں سڑک پر موجود ہر شخص کو 5 لاکھ روپے دیے تھے؟
اور جس وقت میڈیا میں اسکے خلاف اتنا شور مچ رہا تھا تو ان میں سے کوئی شخص آگے آ کر یہ کیوں نہیں کہتا ہے کہ یہ ڈرامہ کیا جا رہا تھا اس لیے وہ وہاں موجود تھے؟
اُس وقت تو یہی بات کہی جا رہی تھی کہ طالبان اس لڑکی کے گھر گئے ہیں اور اسکے بھائی سے بات کی ہے اور یہ بالکل ٹھیک ہوا کیونکہ اسکا پڑوس کے بجلی ٹھیک کرنے والے لڑکے سے چکر تھا وغیرہ وغیرہ۔۔۔
سوال یہ ہے کہ پھر طالبانی لیڈران نے اُس وقت یہ بہانے بنانے کی بجائے سیدھا سیدھا یہ کیوں نہیں کہہ دیا کہ این جو او کے کہنے پر یہ اُن کے خلاف سڑک پر لڑکی مارنے کا ڈرامہ بنایا جا رہا تھا۔ کیوں نہیں اُس وقت پھر سواتی طالبانی دجالوں نے اس لڑکی اور اس ڈرامے کرنے والے بھائی کو سزا کیوں نہیں دی؟
بہرحال، اگر دعوی کیا گیا ہے کہ ویڈیو جھوٹی ہے تو پھر ان لوگوں کو موقع دیا جانا چاہیے کہ وہ اپنے دعوے کو ثابت کریں۔
1۔ جنگ کے اس گمنام ماخذ کی بجائے سب سے پہلے اس شخص کا نام بتلائیے ۔
2۔ اس شخص اور دیگر ملزمان کے خلاف عدالت میں پیش کیا گیا چالان پیش کیجئے۔
3۔ اور پھر اس این جی او کا نام بھی بتلائیے اور اسکے خلاف عدالت میں پیش کیا گیا چالان بھی پیش کیجئے۔
میرے خیال میں اگر ان تین سوالات کے جوابات مل جاتے ہیں تو پھر اس خبر پر یقین کیا جا سکے گا، مگر اس کے بغیر اسکی حیثیت وہی ہے جو لال مسجد کے صحن میں گڑی ہزاروں مجازی طالبات کے دعوے کی ہے۔