شعر و شاعری اسلام میں جائز ہے اور بالکل اس کی اجازت ہے جیسا کہ میں نے پڑھا ہے ’’شعر بمثل کلام کے ہے‘‘ اگر کلام میں جھوٹ کی ممانعت ہے تو شعر میں بھی ہے۔ یہ کس حدیث کا مفہوم ہے؟ شعر و شاعری جائز ہے تو کیسے اور ناجائز ہے تو کیونکر؟ یہ حدیث کے حوالوں سے بتانے کی درخواست ہے۔۔۔ اگر قرآن کے بھی حوالہ جات دے سکیں تو مہربانی ہوگی۔۔۔
بہت ہی دلچسپ سوال ہے میرے بھائی کا۔۔۔ لیکن اس حقیر و کم علم کو ٹیگ کر کے شرمندہ کر دیا آپ نے۔۔۔ اس سلسلے میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ سے خوشہ چینی مناسب معلوم ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ
شعر اور شاعروں کے متعلق اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے۔
والشعراء یتبعھم الغاوون۔الم تر انھم فی کل وادیھیمون۔۔۔ اور شاعروں کی راہ تو بے راہ لوگ چلا کرتے ہیں، کیا تم کو معلوم نہیں کہ وہ (خیالی مضامین کے) ہر میدان میں حیران پھرا کرتے ہیں۔۔۔
جس طرح کے اشعار ہمارے واعظین کی تقریروں میں ملتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر عشق کی کیفیت، معشوق کے حسن و جمال کی تعریف اور وصال و فراق کے قصوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ مجلس وعظ میں سیدھے سادھے عوام اور کم پڑھے لکھے لوگوں کا مجمع ہوتا ہے۔ ان کے باطن میں شہوت کے جذبات موجزن رہتے ہیں۔ ان کے دلوں میں خوبصورت چہروں کا تخیل رہتا ہے۔ وہ جب اس طرح کے بے ہودہ اشعار سنتے ہیں تو ان میں شہوت کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ وہ ان اشعار پر جھومتے اور داد دیتے ہیں۔ انجام ان سب اشعار کا خرابی ہوتا ہے۔ اس لئے صرف وہی اشعار استعمال کرنے کی اجازت ہے جن میں نصیحت و حکمت ہو اور انہیں بطور دلیل یا مانوس کرنے کی غرض سے استعمال کیا جا رہا ہو۔ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں۔
ان من الشعرالحکمۃ۔ کہ بعض اشعار حکمت سے پُر ہوتے ہیں۔۔۔ (صحیح بخاری)
تاہم اگر مجلس وعظ میں صرف مخصوص لوگ ہوں اور ان کے دل اللہ تعالٰی کی محبت سے سرشار ہوں تو ایسے لوگوں کے حق میں وہ شعر نقصان دہ نہیں ہوتے جو بظاہر مخلوق کے متعلق معلوم ہوتے ہیں۔ کیونکہ سننے والا سنتا ہے اور معنی پہچان لیتا ہے۔۔۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ شعر سنایا کہ
ذھب النین یعاش فی اکنافہم
وبقیت فی خلف کجلدالاجرب
(وہ دن رخصت ہو گئے جن کے سائے میں زندگی کے دن گزرتے تھے۔ میں تو پچھلوں میں خارش زدہ کی جلد کی طرح رہ گئی ہوں)۔
صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ جب حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر اور حضرت بلال رضی اللہ عنہما بخار میں مبتلا ہو گئے۔ان دنوں مدینہ منورہ میں بخار کی وباء پھیلی ہوئی تھی۔ میں والد ماجد حضرت ابو بکر سے دریافت کرتی کہ ابا جان آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو وہ جواب میں یہ شعر پڑھتے۔
کل امری مصبح فی اھلہ
والموت ادنی من شراک نعلہ
(ہر شخص اپنے گھر والوں میں صبح کرتا ہے لیکن موت جوتے کے تسمے سے زیادہ اسکے قریب ہوتی ہے)۔
اسی طرح جب میں بلال سے ان کی خیریت دریافت کرتی تو وہ بھی جواب میں شعر پڑھتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے ان دونوں کی اس کیفیت سے سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مطلع کیا، آپ نے یہ دعا فرمائی۔
اللّٰھم حبب الیناالمدینہ کحبنا مکۃ او اشد۔ اے اللہ مدینہ ہمیں اس طرح محبوب کر دے جس طرح مکہ ہمیں محبوب ہے، یا اس سے بھی زیادہ۔۔۔صحیح بخاری ومسلم۔۔۔
ایک مرتبہ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ شعر بھی پڑھا۔
اللّٰھم ان العیش عیشۃ الآخرۃ
فارحم الانصار والمھاجرۃ۔۔۔
(اے اللہ زندگی تو صرف آخرت کی زندگی ہے، انصار اور مہاجرین رحم فرما)-
بعض اوقات حضور کے حکم پر مسجد نبوی میں منبر رکھا جاتا اور حضرت حسان بن ثابت اس پر کھڑے ہو کر حضور علیہ الصلاہ والسلام کی شان اقدس میں اشعار پڑھتے اور کفار کی ہجو بیان کرتے۔ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے اشعار سن کر فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالٰی روح القدس کے ذریعہ حسان کی تائید و حفاظت فرماتا ہے جب تک کہ وہ دشمنان خدا کی ہجو اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کرتا ہے۔(صحیح بخاری و مسلم)۔
جس وقت سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ کو اپنے مبارک وجود سے رونق بخشی تو وہاں کی عورتوں نے چھتوں پر چڑھ کر آپ کو خوش آمدید کہا اور دف بجا کر اور اس طرح کے اشعار پڑھ کر اس بے پایاں محبت مسرت کا اظہار کیا جو آپ کی آمد سے انہیں ہوئی تھی۔
طلع البدر علینا من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا ما دعی للہ داع
ایھاالمبعوث فینا جئت بالامر المطاع
۔۔۔
(احیاء علوم الدین- امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ)۔