سید شہزاد ناصر
محفلین
زندہ مشاہیرے کے سوانحی حالات کو موضوع بنانے میں بظاہر ایک سہولت یہ نظرآتی ہے کہ کسی بات میں شبہ ہوا یا حالات و واقعات کا دستاویزی ثبوت ناکافی محسوس ہوا‘ وہیں اس شخص سے رجوع کرلیا اور اس سے دریافت کرکے تفصیلات کی کمی دور کرلی۔ مگر انتظار حسین کی روایت خود ان کے اپنے بارے میں مستند نہیں ہے۔ افسانہ نگا رجو ٹھہرے۔
انتظار حسین کی زندگی کا بھید بھائو اور س کے گردتحقیق طلب پُراسرار ہالہ ان کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے۔ اتنا تو طے ہے کہ وہ کبھی نہ کبھی اس عالم رنگ وبو میں وارد ہوئے ہوں گے لیکن کب اور کہاں؟اس کے بارے میں بھی اتنی روایتیں ہیں کہ جتنی ان کے افسانوں کی تشریح کی کوششیں اور ظاہر ہے کہ انتظار حسین نے اس بھید کو مٹانے میں خود کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
تاریخ پیدائش کا اندرج اکثر جگہوں پر 21 دسمبر 1925 ء بمقام ڈبائی‘ ضلع بلند شہر‘ صوبہ جات متحدہ آکرہ واودھ ہندوستان ہے۔
والد اور خانی پس منظر
انتظار حسین کی والد کا نام منظر علی تھا۔ ان کے دادا کا نام امجد علی تھا۔ انتظار حسین کی والدہ کا نام صغریٰ بیگم اور نانا کا نام وصیت علی تھا۔
تعلیم
انتظارحسین نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی رسمی تعلیم کا آغاز ان کے والد کے معتقدات اور زمانے کے تقاضوں کے درمیان کشمکش کا ایک سبب بن گیا۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ روایتی مذہبی تعلیم حاصل کریں اور اسکول جانے کے سخت خلاف تھے۔ ان کی بڑی بہن نے اصرار کرکے ان کو اسکول میں داخل کروایا اور باقاعدہ تعلیم کے سلسلے کا آغاز کروایا۔
انتظار حسین نے 1942 ء میں آرٹس کے مضامین کے ساتھ انٹرمیڈیٹ اور 1944 ء میں بی اے کی سند حاصل کی۔
آغازِ کار
اب اس بات پر مشکل سے یقین آتا ہے کہ انتظار حسین نے جب آغازِ کار میں قلم اٹھایا تو ان کا ارادہ افسانہ نگاری کا نہیں تھا۔ یہ میدان انہوں نے اپنے ایک دوست کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ خود ان کا ارادہ شاعری کرنے اور تنقید لکھنے کا تھا۔
شاعری سے افسانے تک
انتظار حسین نے اپنی ادبی زندگی کی ابتداء شاعری سے کی ۔ ن م راشد کی ’’ماورا‘‘ سے گہرا اثر قبول کیا اور اس انداز میں آزاد نظمیں لکھنے کا آغاز کیا۔ لیکن جلد ہی وہ شاعری سے افسانہ نگاری کی طرف آگئے۔
پہلی گم شدہ کتاب
انتظار حسین نے اپن پہلی کتاب تقسیم اور ہجرت سے قبل مکمل کرلی تھی اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کتاب کا موضوع لسانیات تھا۔ ایک گفتگو کے دوران انتظار حسین نے راقم الحروف کو بتایاکہ ایم اے کی تکمیل کے دوران ان کو لسانیات سے دلچسپی ہوگئی اور انہوں نے اردو لسانیات کے بارے میں پوری ایک کتاب لکھ ڈالی۔ وہ اس کتاب کے مسودے کے ساتھ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے پاس گئے جن سے وطنی تعلق کی نسبت بھی تھی۔ مولوی عبدالحق نے ریاض الحسن کو مسودہ دکھانے کا مشودہ دیا‘ اس کتاب کے بعض حصے ایک یا دو مضامین کی صورت میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے رسالے ’’جامعہ‘‘ میں شائع ہوئے۔ انتظار حسین نے اس کتاب کے مسودے ان مضامین کی کوئی نقل بھی محفوط ںہ رکھی اور لسانیات سے ان کی دلچسپی بھی اس کے ساتھ ختم ہوگئی۔
اساتذہ
اپنے کالج کے زمانے کے اساتذہ میں انتظار حسین نے خصوصیت کے ساتھ پروفیسر کرار حسین کا ذکر کیا ہے کہ جن سے انہوں نے گہرا اثر قبول کیا۔
انتظار حسین کے معنوی اساتذہ میں اہم نام محمد حسن عسکری کا ہے جو افسانہ نگار اور نقاد کی حیثیت سے جدید اردو ادب کا اہم نام ہیں۔ عسکری صاحب سے ان کی ملاقات میرٹھ میں ہوئی اور ان سے تعلقات کی روداد وہ ایک شخصی خاکے کی صورت میں قلم بند کرچکے ہیں۔ عسکری صاحب کے بلاوے پر ہی انہوں نے پاکستان ہجرت کرنے کا ارادہ کیا۔
اپنی ادبی زندگی کے ابتدائی و تشکیلی ادوار میں انہوں نے محمد حسن عسکری سے گہرا اثر قبول کیا۔ ان کے ابتدائی مضامین میں یہ اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک سے اختلاف‘ فسادات کے افسانوں کے بارے میں نقطۂ نظر او رپاکستانی ادب جیسے معاملات میں وہ محمد حسن عسکری کی اختیار کردہ راہ کے مسافر نظر آتے ہیں اور ان کے خیالات سے دور نہیں جاتے۔ لاہور میں اپنے ابتدائی دنوں میں بھی وہ محمد حسن عسکری کے زیر سایہ چلتے ہوئے نظر آتے ہیں‘ جس کا احوال انہوں نے ’’چراغوں کا دھواں‘‘ میں درج کیا ہے۔ عسکری صاحب کے توسط سے وہ ناصر کاظمی سے بھی ملے جو ان کے گہرے دوست بن گئے۔
ہجرت کے سفر سے قیام تک
انتظار حسین کے سوانح اور ادبی زندگی ‘ دونوں میں ایک اہم مرحلہ پاکستان کی نوآزاد مملکت میں ان کی ہجرت ہے۔ میرٹھ سے لاہور آنے کے لیے فوری محرک محمد حسن عسکری ثابت ہوئے جنہوں نے لاہور آکر ریڈیو اکستان کے اعلانات کے ذریعے سے پیغام بھیجا اور یہاں آنے کی دعوت دی۔ اس مشورے کو قبول کرکے انتظار حسین ایک نئے وطن کی طرف روانہ ہوگئے۔یہ عمل چاہے کتنا بھی اضطراری رہا ہو‘ اس کے نتائج بہت دور رس نکلنے تھے اور انہوں نے ہی انتظار حسین کے آئندہ کام کو تشکیل دیا۔
ہجرت کی بازدید
ہجرت انتظار حسین کے لیے کوئی سادہ سوال نہیں رہی۔ انہوں نے اس کی سیاسی تاویل بھی دہرائی ہے مگر وہ اس کو بنیادی طور پر ایک ادبی تجربے کی حیثیت سے دیکھتے آئے ہیں۔
ہجرت کا یہ عمل ایک ادبی تصو رکے طور پر بھی آغاز کار سے ہی ان کے ساتھ وابستہ ہوگیا تھا۔
یہ بہرحال ان کا after-thought ہے۔ ہجرت کا تجربہ ان کے یہاں بڑی تفصیل سے سامنے آتا ہے اور ان کی بہت سی تحریروں میں رنگ بھرتا ہے جہاں براہ راست اس کا بیان نہیں وہاں بھی اس کے مضمرات موجود ہیں۔
اچے برج لاہور دے‘‘
لاہور مں ان کا قیام عارضی ثابت نہیں ہوا کہ انہوں نے اپنے لیے اسی شہر کو پسند کیا۔ میرٹھ سے بڑھ کر لاہور اب ان کی ادبی شناخت کا حصہ ہے اور ’’چراغوں کا دھواں‘‘ لکھ کر تو وہ دور جدید میں اس شہر کے سب سے بڑے وقائع نگار بن گئے ہیں جنہوں نے ان کے بدلتے ہوئے در و دیوار‘ رنگ ڈھنگ اور موسم اور اس کی سبھا سجانے والے افراد کا ایک پورا نگار خانہ اپنی کتاب کے اوراق میں زندہ کر دکھایا ہے۔
حلقہ یاراں
لاہور کے ابتدائی دنوں ۃیں ایک ایک کرکے وہ لوگ ملتے گئے جن سے انتظار حسین کا شب و روز کا ساتھ رہا۔
ملازمت
پاکستان آنے کے بعد انتظار حسین نے پہلے پہل ہفت روزہ ’’نظام‘‘ میں مدیر کے طور پر ملازمت اختیار کی۔ اس ک یبعد سے ان کا ذریعہ معاش بڑی حد تک صحافت ہی رہا۔ انہوں نے جن اخبارات مین ملازمت کی ان کی تفصیل یہ ہے۔
روزنامہ ’’امروز ‘‘ لاہور بہ حیثیت سب ایڈیٹر 1949 ء تا 1953 ء
روزنامہ ’آفاق‘‘ لاہور بہ حیثیت سب ایڈیٹر او رکالم نگار 1955 ء تا 1957 ء
روزنامہ ’’مشرق‘‘لاہور بہ حیثیت کالم نگار 1963 ء تا 1988 ء
ماہ نامہ ’’ادب لطیف‘‘ کی ادارت اس کے علاوہ ہے۔ انتظار حسین کی طویل ترین وابستگی روزنامہ ’’مشرق‘‘ سے رہی جہاں وہ شہر کے حوالے سے مستقل کالم اور ادبی فیچر لکھتے رہے۔ ان تحریروں کا انتخاب کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے۔ 1988 ء میں وہ روزنامہ ’’مشرق‘‘ سے ریتائر ہوگئے اور ان کے بعد آزاد قلم صحافی و ادیب کے طور پر کالم لکھتے آئے ہیں۔
انگریزی کالم نگاری
اردو کے علاوہ انتظار حسین انگریزی میں بھی کالم لکھتے آئے ہیں۔ پہلے 1962 ء میں لاہور کے روزنامہ “Civil and Military Gazzette” میں ’’دیوجانس‘‘(Diogenes) کے نام سے لکھے۔ روزنامہ ’’مشرق‘‘ سے علیحدہ ہونے کے بعد وہ لاہور کے روزنامہ Frontier Post میں 1989 ء سے فروری 1994 ء تک ہفتہ وار کالم لکھتے رہے۔ اس کالم کا عنوان Point Counter Point تھا۔
1994 ء سے انہوں نے کراچی کے روزنامہ Dawn کی ہفتہ وار اشاعت کے لیے Point of view کے عنوان سے مستقل کالم لکھنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس عنوان کے تحت وہ ادبی مسائل نئی کتابیں اور اہم شخصیات کے حوالے سے لکھتے آئے ہیں۔
شادی
انتظار حسین کی شادی مارچ 1966 ء میں عالیہ بیگم سے لاہور میں ہوئی۔ شادی کے لیے لڑکی کا انتخاب انتظار حسین کی والدہ اور بڑی بہن نے کیا۔
عالیہ بیگم گھریلو خاتون تھیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ گفتگو کے دوران راقم الحروف کو بتایاکہ شادی سے پہلے انہوں نے انتظار صاحب کے افسانے نہیں پڑھے تھے مگر ’’مشرق‘‘ اخبار میں ان کا کالم دیکھ کر سوچا کرتی تھیں کہ یا اللہ‘ یہ شخص کیا کبھی گھر میں بھی ٹکتا ہے۔ اس وقت انہیں اندازہ نہیں تھا کہ گھر میں نہ ٹکنے والے اس آدمی کا گھر انہی کو بسانا ہے۔
عالیہ بیگم نے اس مکان کی تعمیر میں بہت دلچسپی لی جس میں انتظار حسین کا قیام ہے۔ انتظار حسین نے اپنے کالموں کے مجموعے میں ذکر کیا ہے کہ ان کے تراشے ان کی بیگم نے سنبھال کر رکھے تھے۔ آخر عمر مین ان کی صحت گر گئی تھی۔ طویل علالت کے بعد جنوری 2005 ء میں بیگم عالیہ انتظار حسین کا انتقال ہوگیا۔ ان کی تجہیز و تکفین لاہور میں ہوئی۔
غیرملکی سفر
انتظار حسین نے کئی ممالک کے سفر کیے ہیں۔ سفر کے شیدائی نہ ہونے کے باوجود انہوں نے سفر کے مواقع سے فائدہ اٹھایا ہے۔ وہ ہندوستان‘ نیپال‘ ایران‘ ترکی‘ عرب امارات‘ جرمنی‘ ناروے‘ انگلستان‘ امریکا اور کینیڈا کا سفر کرچکے ہیں او ران میں سے بیشتر کے بارے میں وہ اپنے تاثرات کسی نہ کسی حد تک قلم بند کرچکے ہیں۔
موجودہ مشاغل
انتظار حسین لاہو رمیں اپنے مکان واقع جیل روڈ میں مقیم ہیں اور لکھنے پڑھنے کے مشاغل میں مصروف ہیں۔ ڈان کا ہفتہ وار کالم ان کی ایک مستقل مصروفیت ہے۔ ان کی نئی تحریریں متواتر شائع ہوتی رہتی ہیں۔
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/jasaratmagazine/news/52649
انتظار حسین کی زندگی کا بھید بھائو اور س کے گردتحقیق طلب پُراسرار ہالہ ان کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے۔ اتنا تو طے ہے کہ وہ کبھی نہ کبھی اس عالم رنگ وبو میں وارد ہوئے ہوں گے لیکن کب اور کہاں؟اس کے بارے میں بھی اتنی روایتیں ہیں کہ جتنی ان کے افسانوں کی تشریح کی کوششیں اور ظاہر ہے کہ انتظار حسین نے اس بھید کو مٹانے میں خود کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
تاریخ پیدائش کا اندرج اکثر جگہوں پر 21 دسمبر 1925 ء بمقام ڈبائی‘ ضلع بلند شہر‘ صوبہ جات متحدہ آکرہ واودھ ہندوستان ہے۔
والد اور خانی پس منظر
انتظار حسین کی والد کا نام منظر علی تھا۔ ان کے دادا کا نام امجد علی تھا۔ انتظار حسین کی والدہ کا نام صغریٰ بیگم اور نانا کا نام وصیت علی تھا۔
تعلیم
انتظارحسین نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی رسمی تعلیم کا آغاز ان کے والد کے معتقدات اور زمانے کے تقاضوں کے درمیان کشمکش کا ایک سبب بن گیا۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ روایتی مذہبی تعلیم حاصل کریں اور اسکول جانے کے سخت خلاف تھے۔ ان کی بڑی بہن نے اصرار کرکے ان کو اسکول میں داخل کروایا اور باقاعدہ تعلیم کے سلسلے کا آغاز کروایا۔
انتظار حسین نے 1942 ء میں آرٹس کے مضامین کے ساتھ انٹرمیڈیٹ اور 1944 ء میں بی اے کی سند حاصل کی۔
آغازِ کار
اب اس بات پر مشکل سے یقین آتا ہے کہ انتظار حسین نے جب آغازِ کار میں قلم اٹھایا تو ان کا ارادہ افسانہ نگاری کا نہیں تھا۔ یہ میدان انہوں نے اپنے ایک دوست کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ خود ان کا ارادہ شاعری کرنے اور تنقید لکھنے کا تھا۔
شاعری سے افسانے تک
انتظار حسین نے اپنی ادبی زندگی کی ابتداء شاعری سے کی ۔ ن م راشد کی ’’ماورا‘‘ سے گہرا اثر قبول کیا اور اس انداز میں آزاد نظمیں لکھنے کا آغاز کیا۔ لیکن جلد ہی وہ شاعری سے افسانہ نگاری کی طرف آگئے۔
پہلی گم شدہ کتاب
انتظار حسین نے اپن پہلی کتاب تقسیم اور ہجرت سے قبل مکمل کرلی تھی اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کتاب کا موضوع لسانیات تھا۔ ایک گفتگو کے دوران انتظار حسین نے راقم الحروف کو بتایاکہ ایم اے کی تکمیل کے دوران ان کو لسانیات سے دلچسپی ہوگئی اور انہوں نے اردو لسانیات کے بارے میں پوری ایک کتاب لکھ ڈالی۔ وہ اس کتاب کے مسودے کے ساتھ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے پاس گئے جن سے وطنی تعلق کی نسبت بھی تھی۔ مولوی عبدالحق نے ریاض الحسن کو مسودہ دکھانے کا مشودہ دیا‘ اس کتاب کے بعض حصے ایک یا دو مضامین کی صورت میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے رسالے ’’جامعہ‘‘ میں شائع ہوئے۔ انتظار حسین نے اس کتاب کے مسودے ان مضامین کی کوئی نقل بھی محفوط ںہ رکھی اور لسانیات سے ان کی دلچسپی بھی اس کے ساتھ ختم ہوگئی۔
اساتذہ
اپنے کالج کے زمانے کے اساتذہ میں انتظار حسین نے خصوصیت کے ساتھ پروفیسر کرار حسین کا ذکر کیا ہے کہ جن سے انہوں نے گہرا اثر قبول کیا۔
انتظار حسین کے معنوی اساتذہ میں اہم نام محمد حسن عسکری کا ہے جو افسانہ نگار اور نقاد کی حیثیت سے جدید اردو ادب کا اہم نام ہیں۔ عسکری صاحب سے ان کی ملاقات میرٹھ میں ہوئی اور ان سے تعلقات کی روداد وہ ایک شخصی خاکے کی صورت میں قلم بند کرچکے ہیں۔ عسکری صاحب کے بلاوے پر ہی انہوں نے پاکستان ہجرت کرنے کا ارادہ کیا۔
اپنی ادبی زندگی کے ابتدائی و تشکیلی ادوار میں انہوں نے محمد حسن عسکری سے گہرا اثر قبول کیا۔ ان کے ابتدائی مضامین میں یہ اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک سے اختلاف‘ فسادات کے افسانوں کے بارے میں نقطۂ نظر او رپاکستانی ادب جیسے معاملات میں وہ محمد حسن عسکری کی اختیار کردہ راہ کے مسافر نظر آتے ہیں اور ان کے خیالات سے دور نہیں جاتے۔ لاہور میں اپنے ابتدائی دنوں میں بھی وہ محمد حسن عسکری کے زیر سایہ چلتے ہوئے نظر آتے ہیں‘ جس کا احوال انہوں نے ’’چراغوں کا دھواں‘‘ میں درج کیا ہے۔ عسکری صاحب کے توسط سے وہ ناصر کاظمی سے بھی ملے جو ان کے گہرے دوست بن گئے۔
ہجرت کے سفر سے قیام تک
انتظار حسین کے سوانح اور ادبی زندگی ‘ دونوں میں ایک اہم مرحلہ پاکستان کی نوآزاد مملکت میں ان کی ہجرت ہے۔ میرٹھ سے لاہور آنے کے لیے فوری محرک محمد حسن عسکری ثابت ہوئے جنہوں نے لاہور آکر ریڈیو اکستان کے اعلانات کے ذریعے سے پیغام بھیجا اور یہاں آنے کی دعوت دی۔ اس مشورے کو قبول کرکے انتظار حسین ایک نئے وطن کی طرف روانہ ہوگئے۔یہ عمل چاہے کتنا بھی اضطراری رہا ہو‘ اس کے نتائج بہت دور رس نکلنے تھے اور انہوں نے ہی انتظار حسین کے آئندہ کام کو تشکیل دیا۔
ہجرت کی بازدید
ہجرت انتظار حسین کے لیے کوئی سادہ سوال نہیں رہی۔ انہوں نے اس کی سیاسی تاویل بھی دہرائی ہے مگر وہ اس کو بنیادی طور پر ایک ادبی تجربے کی حیثیت سے دیکھتے آئے ہیں۔
ہجرت کا یہ عمل ایک ادبی تصو رکے طور پر بھی آغاز کار سے ہی ان کے ساتھ وابستہ ہوگیا تھا۔
یہ بہرحال ان کا after-thought ہے۔ ہجرت کا تجربہ ان کے یہاں بڑی تفصیل سے سامنے آتا ہے اور ان کی بہت سی تحریروں میں رنگ بھرتا ہے جہاں براہ راست اس کا بیان نہیں وہاں بھی اس کے مضمرات موجود ہیں۔
اچے برج لاہور دے‘‘
لاہور مں ان کا قیام عارضی ثابت نہیں ہوا کہ انہوں نے اپنے لیے اسی شہر کو پسند کیا۔ میرٹھ سے بڑھ کر لاہور اب ان کی ادبی شناخت کا حصہ ہے اور ’’چراغوں کا دھواں‘‘ لکھ کر تو وہ دور جدید میں اس شہر کے سب سے بڑے وقائع نگار بن گئے ہیں جنہوں نے ان کے بدلتے ہوئے در و دیوار‘ رنگ ڈھنگ اور موسم اور اس کی سبھا سجانے والے افراد کا ایک پورا نگار خانہ اپنی کتاب کے اوراق میں زندہ کر دکھایا ہے۔
حلقہ یاراں
لاہور کے ابتدائی دنوں ۃیں ایک ایک کرکے وہ لوگ ملتے گئے جن سے انتظار حسین کا شب و روز کا ساتھ رہا۔
ملازمت
پاکستان آنے کے بعد انتظار حسین نے پہلے پہل ہفت روزہ ’’نظام‘‘ میں مدیر کے طور پر ملازمت اختیار کی۔ اس ک یبعد سے ان کا ذریعہ معاش بڑی حد تک صحافت ہی رہا۔ انہوں نے جن اخبارات مین ملازمت کی ان کی تفصیل یہ ہے۔
روزنامہ ’’امروز ‘‘ لاہور بہ حیثیت سب ایڈیٹر 1949 ء تا 1953 ء
روزنامہ ’آفاق‘‘ لاہور بہ حیثیت سب ایڈیٹر او رکالم نگار 1955 ء تا 1957 ء
روزنامہ ’’مشرق‘‘لاہور بہ حیثیت کالم نگار 1963 ء تا 1988 ء
ماہ نامہ ’’ادب لطیف‘‘ کی ادارت اس کے علاوہ ہے۔ انتظار حسین کی طویل ترین وابستگی روزنامہ ’’مشرق‘‘ سے رہی جہاں وہ شہر کے حوالے سے مستقل کالم اور ادبی فیچر لکھتے رہے۔ ان تحریروں کا انتخاب کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے۔ 1988 ء میں وہ روزنامہ ’’مشرق‘‘ سے ریتائر ہوگئے اور ان کے بعد آزاد قلم صحافی و ادیب کے طور پر کالم لکھتے آئے ہیں۔
انگریزی کالم نگاری
اردو کے علاوہ انتظار حسین انگریزی میں بھی کالم لکھتے آئے ہیں۔ پہلے 1962 ء میں لاہور کے روزنامہ “Civil and Military Gazzette” میں ’’دیوجانس‘‘(Diogenes) کے نام سے لکھے۔ روزنامہ ’’مشرق‘‘ سے علیحدہ ہونے کے بعد وہ لاہور کے روزنامہ Frontier Post میں 1989 ء سے فروری 1994 ء تک ہفتہ وار کالم لکھتے رہے۔ اس کالم کا عنوان Point Counter Point تھا۔
1994 ء سے انہوں نے کراچی کے روزنامہ Dawn کی ہفتہ وار اشاعت کے لیے Point of view کے عنوان سے مستقل کالم لکھنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس عنوان کے تحت وہ ادبی مسائل نئی کتابیں اور اہم شخصیات کے حوالے سے لکھتے آئے ہیں۔
شادی
انتظار حسین کی شادی مارچ 1966 ء میں عالیہ بیگم سے لاہور میں ہوئی۔ شادی کے لیے لڑکی کا انتخاب انتظار حسین کی والدہ اور بڑی بہن نے کیا۔
عالیہ بیگم گھریلو خاتون تھیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ گفتگو کے دوران راقم الحروف کو بتایاکہ شادی سے پہلے انہوں نے انتظار صاحب کے افسانے نہیں پڑھے تھے مگر ’’مشرق‘‘ اخبار میں ان کا کالم دیکھ کر سوچا کرتی تھیں کہ یا اللہ‘ یہ شخص کیا کبھی گھر میں بھی ٹکتا ہے۔ اس وقت انہیں اندازہ نہیں تھا کہ گھر میں نہ ٹکنے والے اس آدمی کا گھر انہی کو بسانا ہے۔
عالیہ بیگم نے اس مکان کی تعمیر میں بہت دلچسپی لی جس میں انتظار حسین کا قیام ہے۔ انتظار حسین نے اپنے کالموں کے مجموعے میں ذکر کیا ہے کہ ان کے تراشے ان کی بیگم نے سنبھال کر رکھے تھے۔ آخر عمر مین ان کی صحت گر گئی تھی۔ طویل علالت کے بعد جنوری 2005 ء میں بیگم عالیہ انتظار حسین کا انتقال ہوگیا۔ ان کی تجہیز و تکفین لاہور میں ہوئی۔
غیرملکی سفر
انتظار حسین نے کئی ممالک کے سفر کیے ہیں۔ سفر کے شیدائی نہ ہونے کے باوجود انہوں نے سفر کے مواقع سے فائدہ اٹھایا ہے۔ وہ ہندوستان‘ نیپال‘ ایران‘ ترکی‘ عرب امارات‘ جرمنی‘ ناروے‘ انگلستان‘ امریکا اور کینیڈا کا سفر کرچکے ہیں او ران میں سے بیشتر کے بارے میں وہ اپنے تاثرات کسی نہ کسی حد تک قلم بند کرچکے ہیں۔
موجودہ مشاغل
انتظار حسین لاہو رمیں اپنے مکان واقع جیل روڈ میں مقیم ہیں اور لکھنے پڑھنے کے مشاغل میں مصروف ہیں۔ ڈان کا ہفتہ وار کالم ان کی ایک مستقل مصروفیت ہے۔ ان کی نئی تحریریں متواتر شائع ہوتی رہتی ہیں۔
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/jasaratmagazine/news/52649