حسان خان
لائبریرین
محمود کی خدمت میں بھیجا۔
شاہنامہ کی وقعت تاریخ کے لحاظ سے: اگرچہ اس میں شک نہیں کہ شاعرانہ رنگ آمیزیوں نے شاہنامہ کو عام نظروں میں تاریخی درجہ سے گرا دیا ہے تاہم ایران کی کوئی مفصل تاریخ اس سے زیادہ صحیح نہیں مل سکتی۔
ملکم صاحب بھی تاریخ ایران میں اعتراف کرتے ہیں۔
"یہ کتاب فردوسی اگرچہ افسانہ و خیالات شاعری بسیار دارد لکن تقریباً جمیع اخبارے کہ در تاریخ قدیم ایران و توران در ملک آسیا (ایشیا) یافت میشود دران مندرج است"
مالکم صاحب نے نہایت تفصیل کے ساتھ شاہ نامہ کے واقعات کا یونانی مورخین کے بیان سے مقابلہ کیا ہے اور اکثر جگہ دونوں میں تطبیق دی ہے، علامہ ثعلبی نے جو سلطان محمود کا معاصر تھا ایران کی قدیم تاریخ پر ایک مبسوط کتاب لکھی ہے اس نے بھی جابجا شاہنامہ کا حوالہ دیا ہے۔ تاریخی حیثیت سے شاہنامہ کے متعلق مفصل بحث کرنا ہمارا موضوع نہیں، البتہ اس قدر جتانا ضروری ہے کہ شاہنامہ کی بے اعتباری کی بڑی وجہ جو آجکل خیال کی جاتی ہے وہ اس کے دور از کار افسانے ہیں۔ مثلاً دیو سفید۔ مار ضحاک، جام کیخسرو وغیرہ وغیرہ لیکن اولاً تو چند واقعات کی بناء پر تمام کتاب کو غلط نہیں کہہ سکتے۔ ہیروڈوٹس گو تمام یورپ کی تاریخ کا آدم مانا جاتا ہے لیکن اس کی تاریخ میں ہزاروں واقعات فرضی اور وہمی ہیں اور خود یورپ کو اس کا اعتراف ہے دوسرے ایرانیوں کی قدیم تاریخ میں واقعات اسی طرح مذکور تھے۔ اس لئے فردوسی کا صرف یہی فرض تھا کہ ان واقعات کو بعینہ نقل کر دے۔ علامہ ثعلبی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ یہ تمام افسانے گو بالکل بے سر و پا اور خلاف عقل ہیں لیکن چونکہ ایران کی تاریخ میں بہ تواتر بیان ہوتے چلے آئے ہیں۔ اس لئے ہمارا صرف اسقدر فرض ہے کہ جوں کا توں ان کو نقل کر دیا جائے علامہ موصوف کے یہ الفاظ ہیں (ذکر قصۂ زال و سیمرغ)
و انا ابرء من عمدۃ ھذہ الحکایۃ و لو لا شھرتھا بکل مکان و فی زمان و علی کل لسان و جریھا یجری ما یستطاب ویلہی بہ الملوک و عندالارق لما کتبتھا و قد کانت العجائب کثیرۃ فی ذلک الزمان الاول کبلوغ عمر الواحد من اهلہ الف سنتہ و کطاعۃ
شاہنامہ کی وقعت تاریخ کے لحاظ سے: اگرچہ اس میں شک نہیں کہ شاعرانہ رنگ آمیزیوں نے شاہنامہ کو عام نظروں میں تاریخی درجہ سے گرا دیا ہے تاہم ایران کی کوئی مفصل تاریخ اس سے زیادہ صحیح نہیں مل سکتی۔
ملکم صاحب بھی تاریخ ایران میں اعتراف کرتے ہیں۔
"یہ کتاب فردوسی اگرچہ افسانہ و خیالات شاعری بسیار دارد لکن تقریباً جمیع اخبارے کہ در تاریخ قدیم ایران و توران در ملک آسیا (ایشیا) یافت میشود دران مندرج است"
مالکم صاحب نے نہایت تفصیل کے ساتھ شاہ نامہ کے واقعات کا یونانی مورخین کے بیان سے مقابلہ کیا ہے اور اکثر جگہ دونوں میں تطبیق دی ہے، علامہ ثعلبی نے جو سلطان محمود کا معاصر تھا ایران کی قدیم تاریخ پر ایک مبسوط کتاب لکھی ہے اس نے بھی جابجا شاہنامہ کا حوالہ دیا ہے۔ تاریخی حیثیت سے شاہنامہ کے متعلق مفصل بحث کرنا ہمارا موضوع نہیں، البتہ اس قدر جتانا ضروری ہے کہ شاہنامہ کی بے اعتباری کی بڑی وجہ جو آجکل خیال کی جاتی ہے وہ اس کے دور از کار افسانے ہیں۔ مثلاً دیو سفید۔ مار ضحاک، جام کیخسرو وغیرہ وغیرہ لیکن اولاً تو چند واقعات کی بناء پر تمام کتاب کو غلط نہیں کہہ سکتے۔ ہیروڈوٹس گو تمام یورپ کی تاریخ کا آدم مانا جاتا ہے لیکن اس کی تاریخ میں ہزاروں واقعات فرضی اور وہمی ہیں اور خود یورپ کو اس کا اعتراف ہے دوسرے ایرانیوں کی قدیم تاریخ میں واقعات اسی طرح مذکور تھے۔ اس لئے فردوسی کا صرف یہی فرض تھا کہ ان واقعات کو بعینہ نقل کر دے۔ علامہ ثعلبی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ یہ تمام افسانے گو بالکل بے سر و پا اور خلاف عقل ہیں لیکن چونکہ ایران کی تاریخ میں بہ تواتر بیان ہوتے چلے آئے ہیں۔ اس لئے ہمارا صرف اسقدر فرض ہے کہ جوں کا توں ان کو نقل کر دیا جائے علامہ موصوف کے یہ الفاظ ہیں (ذکر قصۂ زال و سیمرغ)
و انا ابرء من عمدۃ ھذہ الحکایۃ و لو لا شھرتھا بکل مکان و فی زمان و علی کل لسان و جریھا یجری ما یستطاب ویلہی بہ الملوک و عندالارق لما کتبتھا و قد کانت العجائب کثیرۃ فی ذلک الزمان الاول کبلوغ عمر الواحد من اهلہ الف سنتہ و کطاعۃ