احسان نے رو رو کر کچھ اس درد سے بھائی کی حالت بیان کی کہ اس وقت میں بھی لرز گئی ، دیکھتی ہوں تو عرفان بیہوش پڑا ہے ۔
گھبرا کر گھر میں آئی ، سرکار کی آنکھ لگ گئی تھی ۔ صندوقچی کھول کر عطر نکالا ۔ ٹرنک منگوا کر کپڑے نکالے ، لے کر آئی تو دونوں بچے جا چکے تھے ۔ خاموش آکر بیٹھ گئی ، معاملہ پر غور کیا تو بِن ماں کا بچہ بے گناہ تھا ۔ اُس پر جو ظُلم ٹُوٹا وہ خُدا دُشمن کو بھی نہ دِکھائے ۔ اس کی عبرتناک تصویر ، اس کا میرے آگے ہاتھ جوڑنا ، بلکنا اور رونا میرے کلیجے کے پار ہو رہا تھا ۔ دل نے اُس وقت یہ صدا دی ۔ اشرف ! زندگی کا اعتبار نہیں ۔ اگر آج تیرا دَم نکل گیا تو عرفان سے بدتر حالت سلمان کی ہوگی ۔
اِس خیال کا دل میں آنا تھا کہ سلمان کی یہی تصویر آنکھوں میں پھر گئی ۔ برقع اوڑھ باہر نکل گئی ۔ کوٹھی کے سامنے قبرستان تھا ۔ چاندنی رات میں دو معصُوم بچے ایک قبر پر نظر آئے ۔ چھوٹا بیہوش تھا اور بڑا اُس کی صُورت دیکھ دیکھ کر تڑپ رہا تھا ۔ میں چُپکی کھڑی اُن کو دیکھ رہی تھی ۔ دفعتاً چھوٹا کسمسایا اور بڑے نے اُس کے منہ پر منہ رکھ کر کہا ،
”بھائی ، اُٹھ بیٹھ ۔“
عرفان : ” بھائی میرے ہاتھ میں بڑا درد ہو رہا ہے ۔ ہاتھ نہیں اُٹھتا ۔ ابا جان نے جو باہر پھینکا تو چوٹ لگ گئی ۔“
احسان : ” لا ، میں اپنا کُرتا اُتار کر باندھ دُوں ۔ ہمارا بھی تو اللہ ہے ۔ اب ہم بڑے ہو جائیں گے تو آپ کمانے لگیں گے ۔“
عرفان : ” اچھے بھائی ، خُدا کے لئے میرا سر دبا دے بڑا درد ہو رہا ہے ۔ تیلی آدھی گُھس گئی ہے ، پھر ستون گُھسا ۔ میری اماں ہوتیں تو وہ دبا دیتیں ۔“
احسان : ” اماں کے سامنے ابا مارتے ہی کیوں ! اماں ہی کے مرنے سے تو ہماری مٹی ویران ہوئی ۔ اس قبر میں اماں میری سو رہی ہیں ۔ اماں جان ہم کو بھی کلیجے سے لگا لو ۔“
یہ کہہ کر دونوں بھائی لپٹ گئے اور چیخیں مار مار کر رونے لگے ۔
اس وقت میری حالت بھی بگڑ چکی تھی ، موت میرے سامنے کھڑی تھی اور ظُلمِ ناحق کی سزا دوزخ کے شعلے میرے رُوبرُو بھڑک رہے تھے ۔ میں دونوں کو اُٹھا کر گھر لائی ۔ رات بھر ان کی خدمت کی ۔ صبح اُٹھتے ہی ڈاکٹر کو بلایا ۔ ہاتھ پر پٹی بندھوائی اور سچے دل سے خُدا کے حضور میں توبہ کی ۔
وہ دن اور آج کا دن یہ تینوں اب جوان جوان میرے سامنے بیٹھے ہیں ۔ ان میں رتّی بھر فرق کیا ہو تو خُدا کے ہاں کی دیندار ہوں ۔
پیارے بچو احسان ، عرفان ! اس ظلم کی آج تم دونوں سے معافی مانگتی ہوں ۔ میری زندگی ختم ہوگئی ۔ اور اب میں اس جگہ جا رہی ہوں جہاں ہر فعل کی جزا اور ہر کام کی سزا بُھگتنی ہے ۔ ایسا نہ ہو تم اس ظُلم کا دعوٰی کرو ۔“
اب دونوں بچے اشرف جہاں بیگم کو لپٹے دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے ،
”اماں جان ہمیں تو وہ بات ایک خواب سی یاد ہے ۔ ہاں یہ اچھی طرح یاد ہے کہ آپ کی محبت نے حقیقی ماں کو بُھلا دیا ۔“
اب اشرف جہاں بیگم نے کہا ،
”پیاری بچیو ! ممکن ہے تم کو بھی میری طرح ایسے بچوں سے سابقہ پڑے مگر یاد رکھو کہ ان کے دُکھے دلوں کی آہ اچھی نہیں ہوتی ۔ جس طرح میں اپنے فعل پر نادم ہو کر آج خُدا کے حضور میں سُرخ رُو جارہی ہوں ، اسی طرح جانے کی کوشش کرنا ، اور وہ موت ایسی ہو گی جس پر ہزاروں زندگیاں قربان ہوں ۔
1914ء
ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔۔ اختتام ۔۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ