خاورچودھری
محفلین
دل آرام ریسٹورنٹ کے باہرجب پہلی مرتبہ میری نظراُس پرپڑی تومیں نے اُسے کوئی اہمیت نہیں دی تھی.... مگرجب وہ اکثرشام کے بعد وہاں دکھائی دینے لگاتو میں نے ایک دن اُس سے پوچھ ہی لیا۔
”میں یہاں ہیرے فروخت کرنے آتاہوں“
اُس کے اِس جواب سے میں شش در و متعجب ہوکر اُس کا منہ تکنے لگا۔میری حیرتوں کو بھانپتے ہوئے اُس نے اپنے کندھے سے بوری اتاری اورگویاہُوا
”اِس طرح کیوں تک رہے ہو؟“
اورپھر جلدی سے بوری کامنہ کھولااوراُس سے درجنوں رنگ بہ رنگ پتھرنکال کرزمین پر پھےلادیے۔ایک گول مٹول سرخی مائل پتھرمیری طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگا
”یہ ملکہ الزبتھ دوم کے استعمال میں رہاہے،جب وہ آئینے کے سامنے جایاکرتی تھی تویہ پتھر سنگھار میزپرموجودہوتا۔اس کی قیمت ایک لاکھ امریکن ڈالرہے ۔“
سرمئی پتھرمیرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا
”ابراہم لنکن کویہ موتی اُس کی اعلیٰ خدمات پیش نظررکھتے ہوئے ایک امریکی سرمایہ کارجان ای ایگرنے تحفہ میں دیا تھا؛ اس کی قیمت پچپن لاکھ امریکن ڈالر ہے ۔‘ ‘
بادامی رنگ کے چھوٹے سے پتھر کو دکھاتے ہوئے اس نے کہاکہ
”یہ محبت کی نشانی ہے.... ویسے تواربوں ڈالربھی اگرمجھے کوئی دے تومیں اسے نہ دوں.... مگر میراکاروباراس نوعیت کاہے کہ میں اسے زیادہ دیرتک اپنے پاس نہیں رکھ سکتا؛یہ دو کروڑ ڈالرکاہے۔لیڈی ڈیاناکواس کے آخری عاشق دودی الفائدنے محبت کے آخری تحفے کے طور پر دیا تھا۔جب ان کی گاڑی کوحادثہ پیش آیا تو وہاں موجودایک شخص نے اِسے اُٹھا لیا تھا۔“
نہ جانے کتنے اورموتی اورہیرے اس کی بوری میں تھے ....جو کئی نام ور ہستیوں کے زیر استعمال رہ چکے تھے۔میں نے اس سے پوچھا
”یہ موتی کون خریدتاہے؟“
تواس نے بتایا
”یہاں کورین، چائنیز، ملائشینز ،جرمنز اور عریبک لوگ آتے رہتے ہیں۔میرازیادہ کاروبار ان سے رہتا ہے، تاہم بعض اوقات کوئی پاکستانی تاجر بھی مال اُٹھا لیتا ہے ، لیکن میں اِن سے زیادہ تجارت اِس لیے بھی نہیں کرتاکہ یہ لین دین ٹھیک نہیں کرتے۔چھ ماہ پہلے کراچی کے ایک تاجرکوڈیڑھ ارب ڈالرکے ہیرے دیے تھے .... اُس نے ایک ماہ کے اندررقم دینے کاوعدہ کیاتھا،مگرتاحال رقم نہیں آئی۔“
یہ کہتے ہوئے وہ انتہائی تیزی سے ہوٹل کی طرف دوڑا....
٭٭٭
صحیح نام اس کاغالباًعبدالشکورہے .... لیکن لوگوں میں وہ کئی ناموں سے مشہور ہے ۔کچھ نام اس نے خودچُنے تھے اور بعض اس کے القابات اور خطابات شمارکیے جاسکتے ہیں ۔ایک زمانے میں وہ”شِکرا“کے نام سے شہرت کوپہنچا....یہ اس کا اپنا رکھاہوانام ہے۔ پھروہ”دونمبر“کے نام سے جانا گیا۔یہ نام اُسے ان لوگوں نے دیاجواس کے ”کاروبار“ کو جعلی سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ”آن وڑئے اوئے“(*)کہہ کر بھی اُسے مخاطب کرتے ہیں۔جس کے جواب میں اس کے منہ سے پھول جھڑناشروع ہوجاتے ہیں....اوروہ ہیرے جن کی مالیت اربوں سے زیادہ ہوتی ہے مخاطب کی جانب برسناشروع ہوجاتے ہیں۔ اپنی توہین شکرے سے کبھی برداشت نہیں ہوپاتی ،بھلے اس کااربوں میں نقصان ہوجائے۔پھینکے ہوئے ہیروں کو دوبارہ سمیٹنے کی بعد بیس کلو سے زیادہ وزن دار بوری کاندھے پراُٹھاکرکسی اورجانب چل پڑے گا۔
میں نے جب ہوش سنبھالاتووہ اس شہر میں موجود تھا۔ اُس وقت یہ حالت نہیں تھی اُس کی۔
1986ءمیں ایک مرتبہ اس نے بتایاتھاکہ وہ سائیکل پر دو مرتبہ تین ہزارکلومیٹر فاصلہ طے کرکے کراچی گیااورآیاہے۔تن سازی کے مقابلوں میں بھی حصہ لیتارہا۔جس وقت مجھے یہ بتارہاتھااُس وقت وہ اپنی موٹر سائیکل کورکشا میں تبدیل کررہا تھا۔ رکشا جب تیار ہوا تو وہ بڑے فخرسے شہرمیں اُسے پھراتارہا....کیوں کہ اس کی بناوٹ میں استعمال ہونے والے پرزےاس کی اپنی انجینئرنگ کانتیجہ تھے۔ دوسری بات یہ بھی تھی کہ وہ اس شہر کا پہلارکشا تھا۔رکشا کی تکمیل کے بعداُس نے خواہش ظاہرکی تھی
”اگرمیری پاس وسائل ہوتے تومیں بڑے پیمانے پر رکشا سازی کاکام شروع کرتا۔“ دیکھنے والوں نے دیکھاکہ”شکرا“دن بھرمیلوں کی مسافت طے کرکے رکشاپرآئس کریم ، اچاراوردیگرکئی چیزیں بیچا کرتا۔ پھر یوں ہوا کہ اس کی موٹرسائیکل خراب رہنے لگی.... اور آخرکار اس نے موٹرسائیکل بیچ کر گدھا خرید لیا۔ موٹرسائیکل کے پیچھی باندھی گئی گاڑی کو اس نے موٹرسائیکل سے جداکردیاتھا.... پھروہی گاڑی اس کے گدھے کے کام آئی۔ یعنی رکشا ،چاند گاڑی میں بدل گیا۔ میں بتاچکاہوں کہ شِکرا میلوں پھرنے کاعادی تھا اور گدھے کے لیے یہ مسافت ناقابل برداشت تھی.... اس لیے وہ جلدہی اسے چھوڑگیا۔ بس یہی دن تھے جواسے معاشرے کی ٹھوکروں پرچھوڑگئے۔ شروع میں وہ تفنن ِطبع کے لیے اپنی ذات کے حوالے سے بھی مزاح کرتاتھا۔ لوگ سن کرخوش ہوجاتے اوراسے چائے.... سگریٹ پیش کرتے۔ پھرلوگوں نے اسے مذاق کا نشانہ بنانامعمول بنا لیا۔ اوراب توچھوٹے بڑے نے اس کی وہ خبرلی تھی کہ وہ خودسے بے خبر ہو گیا۔ اس کی حالت یہ ہے کہ وہ نصف من پتھروں کوہیرے سمجھ کر دن بھرکاندھے پر اٹھائے پھرتاہے ....اوررات کوان کواپنے پہلو میں دبا کر سوتا ہے ۔
کئی برس گزرگئے....شکرے سے متعلق باتیں ہوا میں تحلیل ہونے لگیں.... لوگوں کی دل چسپیاں بدلنے لگیں.... ماحول میں تبدیلی آئی۔ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ دل آرام ریسٹورنٹ کے باہرپڑی کرسیوں پر بیٹھاہوں.... دفعتاً دو نمبر آجا تاہے.... اب اس کی حالت انتہائی قابل رحم ہے۔ چوکور میز کے ایک کونے پرپیرجماکرکہتاہے
”مال چاہیے....؟“
میں اُسے اس کے پرانے حال میں سمجھتے ہوئے کہتاہوں
”کیاجارج ڈبلیوبش سے ڈیل نہیں ہوئی....؟“
وہ اپنےایک ہاتھ کودوسرے پرتالی کے سے اندازمیں مارتے ہوئے بہ آوازبلندقہقہہ لگاتا ہے ....توسب لوگ ہماری طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ قدرے توقف کے بعدکہنے لگتاہے
”جناب....!وہ پرانی باتیں ہیں....اب اورمال بکتاہے“
”اب کون سامال بکتاہے....شکریا؟“میں نے دل چسپی سے پوچھا
”شراب....افیون....ہیروئن....چرس....نن باوء....ویاگرا....“
دونمبرکے اس انکشاف سے میں چونک ساگیا....اب وہ مجھے حقیقتاًدونمبرمحسوس ہورہاتھا ....میں نے سوچاشایداس نے پاگل پن کابہروپ بھررکھاہے اوروہ اس اندازسے اپنا گھٹیا کام کرتا چلا آرہا ہے۔ مجھ سے رہانہ گیاتومیں نے پوچھا
”تم بیچتے ہویہ سب چیزیں....؟“
وہ پھرکھلکھلاکرہنسااوراُسے اندازسے اپنے ایک ہاتھ پردوسراہاتھ مارا....کہنے لگا
”میں کہاں بیچتاہوں....چودھری صاحب،راناصاحب،میاں صاحب اورشیخ صاحب بیچتے ہیں“
”کیاوہ خودبیچتے ہیں....؟“
”بھلاخودکیوں بیچیں گے؟کیاوہ شرفانہیں ہیں؟“
”توکون بیچتاہے پھر....؟“
”پیپا....لاٹو....سوہنا....مندری....بجنس....کارتوس....“
وہ خاموش ہوتاہے اور پھر ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھتاہے.... جیسے مجھے سنناچاہتاہو۔ میں پھر اُس سے سوال کرتاہوں........
”تم کیابیچتے ہو....؟“
”میں....میں توآئینے بیچتاہوں....آنکھیں بیچتاہوں اورآنکھوں کے موتی بیچتاہوں.... لفظوں کے ہیرے بیچتاہوں۔“
٭٭٭
”میں یہاں ہیرے فروخت کرنے آتاہوں“
اُس کے اِس جواب سے میں شش در و متعجب ہوکر اُس کا منہ تکنے لگا۔میری حیرتوں کو بھانپتے ہوئے اُس نے اپنے کندھے سے بوری اتاری اورگویاہُوا
”اِس طرح کیوں تک رہے ہو؟“
اورپھر جلدی سے بوری کامنہ کھولااوراُس سے درجنوں رنگ بہ رنگ پتھرنکال کرزمین پر پھےلادیے۔ایک گول مٹول سرخی مائل پتھرمیری طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگا
”یہ ملکہ الزبتھ دوم کے استعمال میں رہاہے،جب وہ آئینے کے سامنے جایاکرتی تھی تویہ پتھر سنگھار میزپرموجودہوتا۔اس کی قیمت ایک لاکھ امریکن ڈالرہے ۔“
سرمئی پتھرمیرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا
”ابراہم لنکن کویہ موتی اُس کی اعلیٰ خدمات پیش نظررکھتے ہوئے ایک امریکی سرمایہ کارجان ای ایگرنے تحفہ میں دیا تھا؛ اس کی قیمت پچپن لاکھ امریکن ڈالر ہے ۔‘ ‘
بادامی رنگ کے چھوٹے سے پتھر کو دکھاتے ہوئے اس نے کہاکہ
”یہ محبت کی نشانی ہے.... ویسے تواربوں ڈالربھی اگرمجھے کوئی دے تومیں اسے نہ دوں.... مگر میراکاروباراس نوعیت کاہے کہ میں اسے زیادہ دیرتک اپنے پاس نہیں رکھ سکتا؛یہ دو کروڑ ڈالرکاہے۔لیڈی ڈیاناکواس کے آخری عاشق دودی الفائدنے محبت کے آخری تحفے کے طور پر دیا تھا۔جب ان کی گاڑی کوحادثہ پیش آیا تو وہاں موجودایک شخص نے اِسے اُٹھا لیا تھا۔“
نہ جانے کتنے اورموتی اورہیرے اس کی بوری میں تھے ....جو کئی نام ور ہستیوں کے زیر استعمال رہ چکے تھے۔میں نے اس سے پوچھا
”یہ موتی کون خریدتاہے؟“
تواس نے بتایا
”یہاں کورین، چائنیز، ملائشینز ،جرمنز اور عریبک لوگ آتے رہتے ہیں۔میرازیادہ کاروبار ان سے رہتا ہے، تاہم بعض اوقات کوئی پاکستانی تاجر بھی مال اُٹھا لیتا ہے ، لیکن میں اِن سے زیادہ تجارت اِس لیے بھی نہیں کرتاکہ یہ لین دین ٹھیک نہیں کرتے۔چھ ماہ پہلے کراچی کے ایک تاجرکوڈیڑھ ارب ڈالرکے ہیرے دیے تھے .... اُس نے ایک ماہ کے اندررقم دینے کاوعدہ کیاتھا،مگرتاحال رقم نہیں آئی۔“
یہ کہتے ہوئے وہ انتہائی تیزی سے ہوٹل کی طرف دوڑا....
٭٭٭
صحیح نام اس کاغالباًعبدالشکورہے .... لیکن لوگوں میں وہ کئی ناموں سے مشہور ہے ۔کچھ نام اس نے خودچُنے تھے اور بعض اس کے القابات اور خطابات شمارکیے جاسکتے ہیں ۔ایک زمانے میں وہ”شِکرا“کے نام سے شہرت کوپہنچا....یہ اس کا اپنا رکھاہوانام ہے۔ پھروہ”دونمبر“کے نام سے جانا گیا۔یہ نام اُسے ان لوگوں نے دیاجواس کے ”کاروبار“ کو جعلی سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ”آن وڑئے اوئے“(*)کہہ کر بھی اُسے مخاطب کرتے ہیں۔جس کے جواب میں اس کے منہ سے پھول جھڑناشروع ہوجاتے ہیں....اوروہ ہیرے جن کی مالیت اربوں سے زیادہ ہوتی ہے مخاطب کی جانب برسناشروع ہوجاتے ہیں۔ اپنی توہین شکرے سے کبھی برداشت نہیں ہوپاتی ،بھلے اس کااربوں میں نقصان ہوجائے۔پھینکے ہوئے ہیروں کو دوبارہ سمیٹنے کی بعد بیس کلو سے زیادہ وزن دار بوری کاندھے پراُٹھاکرکسی اورجانب چل پڑے گا۔
میں نے جب ہوش سنبھالاتووہ اس شہر میں موجود تھا۔ اُس وقت یہ حالت نہیں تھی اُس کی۔
1986ءمیں ایک مرتبہ اس نے بتایاتھاکہ وہ سائیکل پر دو مرتبہ تین ہزارکلومیٹر فاصلہ طے کرکے کراچی گیااورآیاہے۔تن سازی کے مقابلوں میں بھی حصہ لیتارہا۔جس وقت مجھے یہ بتارہاتھااُس وقت وہ اپنی موٹر سائیکل کورکشا میں تبدیل کررہا تھا۔ رکشا جب تیار ہوا تو وہ بڑے فخرسے شہرمیں اُسے پھراتارہا....کیوں کہ اس کی بناوٹ میں استعمال ہونے والے پرزےاس کی اپنی انجینئرنگ کانتیجہ تھے۔ دوسری بات یہ بھی تھی کہ وہ اس شہر کا پہلارکشا تھا۔رکشا کی تکمیل کے بعداُس نے خواہش ظاہرکی تھی
”اگرمیری پاس وسائل ہوتے تومیں بڑے پیمانے پر رکشا سازی کاکام شروع کرتا۔“ دیکھنے والوں نے دیکھاکہ”شکرا“دن بھرمیلوں کی مسافت طے کرکے رکشاپرآئس کریم ، اچاراوردیگرکئی چیزیں بیچا کرتا۔ پھر یوں ہوا کہ اس کی موٹرسائیکل خراب رہنے لگی.... اور آخرکار اس نے موٹرسائیکل بیچ کر گدھا خرید لیا۔ موٹرسائیکل کے پیچھی باندھی گئی گاڑی کو اس نے موٹرسائیکل سے جداکردیاتھا.... پھروہی گاڑی اس کے گدھے کے کام آئی۔ یعنی رکشا ،چاند گاڑی میں بدل گیا۔ میں بتاچکاہوں کہ شِکرا میلوں پھرنے کاعادی تھا اور گدھے کے لیے یہ مسافت ناقابل برداشت تھی.... اس لیے وہ جلدہی اسے چھوڑگیا۔ بس یہی دن تھے جواسے معاشرے کی ٹھوکروں پرچھوڑگئے۔ شروع میں وہ تفنن ِطبع کے لیے اپنی ذات کے حوالے سے بھی مزاح کرتاتھا۔ لوگ سن کرخوش ہوجاتے اوراسے چائے.... سگریٹ پیش کرتے۔ پھرلوگوں نے اسے مذاق کا نشانہ بنانامعمول بنا لیا۔ اوراب توچھوٹے بڑے نے اس کی وہ خبرلی تھی کہ وہ خودسے بے خبر ہو گیا۔ اس کی حالت یہ ہے کہ وہ نصف من پتھروں کوہیرے سمجھ کر دن بھرکاندھے پر اٹھائے پھرتاہے ....اوررات کوان کواپنے پہلو میں دبا کر سوتا ہے ۔
کئی برس گزرگئے....شکرے سے متعلق باتیں ہوا میں تحلیل ہونے لگیں.... لوگوں کی دل چسپیاں بدلنے لگیں.... ماحول میں تبدیلی آئی۔ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ دل آرام ریسٹورنٹ کے باہرپڑی کرسیوں پر بیٹھاہوں.... دفعتاً دو نمبر آجا تاہے.... اب اس کی حالت انتہائی قابل رحم ہے۔ چوکور میز کے ایک کونے پرپیرجماکرکہتاہے
”مال چاہیے....؟“
میں اُسے اس کے پرانے حال میں سمجھتے ہوئے کہتاہوں
”کیاجارج ڈبلیوبش سے ڈیل نہیں ہوئی....؟“
وہ اپنےایک ہاتھ کودوسرے پرتالی کے سے اندازمیں مارتے ہوئے بہ آوازبلندقہقہہ لگاتا ہے ....توسب لوگ ہماری طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ قدرے توقف کے بعدکہنے لگتاہے
”جناب....!وہ پرانی باتیں ہیں....اب اورمال بکتاہے“
”اب کون سامال بکتاہے....شکریا؟“میں نے دل چسپی سے پوچھا
”شراب....افیون....ہیروئن....چرس....نن باوء....ویاگرا....“
دونمبرکے اس انکشاف سے میں چونک ساگیا....اب وہ مجھے حقیقتاًدونمبرمحسوس ہورہاتھا ....میں نے سوچاشایداس نے پاگل پن کابہروپ بھررکھاہے اوروہ اس اندازسے اپنا گھٹیا کام کرتا چلا آرہا ہے۔ مجھ سے رہانہ گیاتومیں نے پوچھا
”تم بیچتے ہویہ سب چیزیں....؟“
وہ پھرکھلکھلاکرہنسااوراُسے اندازسے اپنے ایک ہاتھ پردوسراہاتھ مارا....کہنے لگا
”میں کہاں بیچتاہوں....چودھری صاحب،راناصاحب،میاں صاحب اورشیخ صاحب بیچتے ہیں“
”کیاوہ خودبیچتے ہیں....؟“
”بھلاخودکیوں بیچیں گے؟کیاوہ شرفانہیں ہیں؟“
”توکون بیچتاہے پھر....؟“
”پیپا....لاٹو....سوہنا....مندری....بجنس....کارتوس....“
وہ خاموش ہوتاہے اور پھر ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھتاہے.... جیسے مجھے سنناچاہتاہو۔ میں پھر اُس سے سوال کرتاہوں........
”تم کیابیچتے ہو....؟“
”میں....میں توآئینے بیچتاہوں....آنکھیں بیچتاہوں اورآنکھوں کے موتی بیچتاہوں.... لفظوں کے ہیرے بیچتاہوں۔“
٭٭٭