نذر حسین ناز
محفلین
سورج رستہ بھول گیا تھا
میں نے اس کی انگلی تھامی اس کو اپنے گھر لے آیا
جانے کتنے دن سے یونہی بھوکا پیاسا گھوم رہا تھا
کھانا کھا کر ، اور سستا کر بولا مجھ سے آؤ دشت نوردی کر لیں
ہم دونوں خاموشی اوڑھے میرے گھر سے باہر نکلے
دروازے پہ چاند کھڑا تھا
پیلا پیلا دبلا پتلا ، بیماری میں لپٹا چاند
جانے کتنی راتوں سے وہ جاگ رہا تھا
آنکھوں سے سرخی کی چادر جھانک رہی تھی
نیند اداسی پھانک رہی تھی
چاند سے تھوڑی باتیں کر کے آگے آئے
رستے میں کچھ ریت کے ذرے آگ جلا کر سینک رہے تھے
ہم نے ان کو گیت سنائے
ہم تھوڑا سا آگے آئے
چلتے چلتے اک ٹیلے پہ آ نکلے ہم
پیاس کی شدت کا احساس ہوا تو سورج بولا "پانی"
دشت کے پار اک جنگل ہے اور اس جنگل کی دوسری جانب
اک دریا بھی بہتا ہے
پیاس کے مارے ہم دونوں دریا پہ پہنچے
اپنی اپنی پیاس بجھائی
دریا سے کچھ باتیں بھی کیں
کافی ساری باتیں تھیں میں بھول گیا ہوں
خیر کہاں تھے ؟ ہاں ! دریا پر
ہم دونوں نے پیاس بجھائی
وقت کی باگیں جلدی جلدی کھینچی ہم نے
بھاگے بھاگے واپس آئے
گھر پہنچے تو صبح کا تارا دروازے پہ پہرے دار بنا بیٹھا تھا
ہاتھوں میں تلوار اٹھائے
سورج لینے آیا تھا
حالانکہ یہ ساری باتیں لا یعنی ہیں
لیکن کیا ہے۔ اک مدت سے میں تنہائی کے زنداں میں قید پڑا ہوں
اک کمرے کی چار دیواری کے اندر ہی
جانے کتنے سال سمے سے اپنی سانسوں کی مدھم آوازیں سنتا
رفتہ رفتہ اپنا جیون کھینچ رہا ہوں
مدت گزری ان آنکھوں نے کوئی بھی انسان نہ دیکھا
آئینہ بھی کب دیکھا تھا یاد نہیں ہے
مجھ کو میرے چہرے کے سب خال و خد بھی بھول گئے ہیں
جانے کتنے ہی سالوں سے میں نے خود سے بات نہیں کی
هونٹ تکلم بھول گئے تھے
کبھی کبھی میں سناٹے میں چیخ کے خود کو سن لیتا تھا
کان مرے انسانوں کی آواز کجا ، حیواںوں کو تَرَس چکے تھے
دوستو آج تمہیں دیکھا تو میرے دل میں خواہش جاگی
جی بھر کے میں باتیں کر لوں
میں نے نظم بہانہ کر کے
تم سے کتنی باتیں کر لیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناز
میں نے اس کی انگلی تھامی اس کو اپنے گھر لے آیا
جانے کتنے دن سے یونہی بھوکا پیاسا گھوم رہا تھا
کھانا کھا کر ، اور سستا کر بولا مجھ سے آؤ دشت نوردی کر لیں
ہم دونوں خاموشی اوڑھے میرے گھر سے باہر نکلے
دروازے پہ چاند کھڑا تھا
پیلا پیلا دبلا پتلا ، بیماری میں لپٹا چاند
جانے کتنی راتوں سے وہ جاگ رہا تھا
آنکھوں سے سرخی کی چادر جھانک رہی تھی
نیند اداسی پھانک رہی تھی
چاند سے تھوڑی باتیں کر کے آگے آئے
رستے میں کچھ ریت کے ذرے آگ جلا کر سینک رہے تھے
ہم نے ان کو گیت سنائے
ہم تھوڑا سا آگے آئے
چلتے چلتے اک ٹیلے پہ آ نکلے ہم
پیاس کی شدت کا احساس ہوا تو سورج بولا "پانی"
دشت کے پار اک جنگل ہے اور اس جنگل کی دوسری جانب
اک دریا بھی بہتا ہے
پیاس کے مارے ہم دونوں دریا پہ پہنچے
اپنی اپنی پیاس بجھائی
دریا سے کچھ باتیں بھی کیں
کافی ساری باتیں تھیں میں بھول گیا ہوں
خیر کہاں تھے ؟ ہاں ! دریا پر
ہم دونوں نے پیاس بجھائی
وقت کی باگیں جلدی جلدی کھینچی ہم نے
بھاگے بھاگے واپس آئے
گھر پہنچے تو صبح کا تارا دروازے پہ پہرے دار بنا بیٹھا تھا
ہاتھوں میں تلوار اٹھائے
سورج لینے آیا تھا
حالانکہ یہ ساری باتیں لا یعنی ہیں
لیکن کیا ہے۔ اک مدت سے میں تنہائی کے زنداں میں قید پڑا ہوں
اک کمرے کی چار دیواری کے اندر ہی
جانے کتنے سال سمے سے اپنی سانسوں کی مدھم آوازیں سنتا
رفتہ رفتہ اپنا جیون کھینچ رہا ہوں
مدت گزری ان آنکھوں نے کوئی بھی انسان نہ دیکھا
آئینہ بھی کب دیکھا تھا یاد نہیں ہے
مجھ کو میرے چہرے کے سب خال و خد بھی بھول گئے ہیں
جانے کتنے ہی سالوں سے میں نے خود سے بات نہیں کی
هونٹ تکلم بھول گئے تھے
کبھی کبھی میں سناٹے میں چیخ کے خود کو سن لیتا تھا
کان مرے انسانوں کی آواز کجا ، حیواںوں کو تَرَس چکے تھے
دوستو آج تمہیں دیکھا تو میرے دل میں خواہش جاگی
جی بھر کے میں باتیں کر لوں
میں نے نظم بہانہ کر کے
تم سے کتنی باتیں کر لیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناز