عبد الرحمن
لائبریرین
سورج نہ نکلنے کا کچھ یہ بھی سبب ٹھہرا
اس شہر کا ہر باسی دلدادہ شب ٹھہرا
احباب تو سمجھوتا حالات سے کرلیں گے
ایک میں ہی یہاں گویا آزاد طلب ٹھہرا
جس شخص کے ہونے سے توقیر تھی بستی کی
وہ شخص ہی بستی میں بے نام و نسب ٹھہرا
پانی کا کوئی چشمہ کب پیاس بجھائے گا
زہر اب کے ساغر کو ہونٹوں کی طلب ٹھہرا
دیوار بھی بے سایا، اشجار بھی بے سایا
بستی ہو کہ جنگل ہو، دستور عجب ٹھہرا
کیا صبح کے آنے کی امید رکھی جائے!
جب صبح کا تارہ بھی ہرکارہ شب ٹھہرا
یہ ہو نہ سکا مجھ سے، احباب کا دل توڑوں
کچھ لفظ بھی گونگے ہیں، کچھ پاسِ ادب ٹھہرا
اب تو بھی نسیم اپنے اظہار کو جدت دے
اب شامِ الم کو بھی تو صبحِ طرف ٹھہرا
اس شہر کا ہر باسی دلدادہ شب ٹھہرا
احباب تو سمجھوتا حالات سے کرلیں گے
ایک میں ہی یہاں گویا آزاد طلب ٹھہرا
جس شخص کے ہونے سے توقیر تھی بستی کی
وہ شخص ہی بستی میں بے نام و نسب ٹھہرا
پانی کا کوئی چشمہ کب پیاس بجھائے گا
زہر اب کے ساغر کو ہونٹوں کی طلب ٹھہرا
دیوار بھی بے سایا، اشجار بھی بے سایا
بستی ہو کہ جنگل ہو، دستور عجب ٹھہرا
کیا صبح کے آنے کی امید رکھی جائے!
جب صبح کا تارہ بھی ہرکارہ شب ٹھہرا
یہ ہو نہ سکا مجھ سے، احباب کا دل توڑوں
کچھ لفظ بھی گونگے ہیں، کچھ پاسِ ادب ٹھہرا
اب تو بھی نسیم اپنے اظہار کو جدت دے
اب شامِ الم کو بھی تو صبحِ طرف ٹھہرا