مغزل
محفلین
محمود، غزل تو حسبِ معمول اچھی ہے لیکن میں اپنی اس رائے پر قائم ہوں کہ شعوری طور پر ردیف قافیوں کی اکھاڑ پچھاڑ ناسخ کا وہی شعر یاد دلا تی ہے کہ
وہ پہلوانِ عشق ہوں ناسخ کہ ؎بعد مرگ
برسوں مرے مزار پہ مگدر گھما کئے
۔۔۔۔۔۔۔
مطلع میری بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ باقی اشعار تو اچھے بلکہ بہت خوب ہیں۔ لیکن
بہتر ہے اس سے موت ہی آئے خوشی خوشی
یہ دکھ بھی کوئی دکھ ہے بھلا، زندگی کا دکھ
فاتح نے درست بات کہی ہے۔ کیا پہلے مصرع میں خوشی خوشی کی جگہ ’بصد خوشی‘ سے یہ اعتراض دور ہو سکتا ہے؟
اور آخرش نصیب ہوئی ہجرتِدوام
کب تک کوئی اٹھائے بھلا بے گھری کا دکھ
یہاں بھی فاتح کا اعتراض درست ہے۔ لیکن معنی کے اعتبار سے تو وہی بات ہو گئی نا۔۔ آخرش قیام تو نصیب نہیں ہوا ہے نا جو بے گھری کا دکھ ختم ہو۔ ویسے فاتح کا اعتراض یوں ختم ہو سکتا ہے۔
لو آخرش تمام۔۔۔۔۔۔
بابا جانی رسید حاضر ہے ۔۔ میں نے ایک طویل مراسلہ لکھ مارا تھا ۔۔ کمبخت بجلی کی نذر ہوگیا ۔ میں دوبارہ لکھتا ہوں ، زحمت کیلیے معذرت خواہ ہوں