سورج گرہن کے وقت پڑھی جانے والی نمازِ کسوف کے متعلق اہم مسائل

اطلاعات کے مطابق ہند و پاک کے کئی علاقوں میں 26 دسمبر بروز جمعرات صبح سات بجے سے دس بجے تک (کہیں کم کہیں زیادہ) سورج گرہن ہوگا۔ سورج گرہن کے متعلق مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ اللہ معارف الحدیث میں تحریر فرماتے ہیں:

’’سورج یا چاند کا گہن میں آ جانا اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ اور اس کے جلال و جبروت کی ایک نشانیوں میں سے ہے جن کا کبھی کبھی ظہور ہوتا ہے اور جن کا حق ہے کہ جب ان کا ظہور ہو تو اللہ کے بندے عاجزی کے ساتھ اس قادر و قہار کی عظمت و جلال کے سامنے جھک جائیں اور اس سے رحم و کرم کی بھیک مانگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ٹھیک اس دن جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شیر خوار صاحبزادے ابراہیم (علی ابیہ وعلیہ الصلوٰۃ والسلام ) کا قریبا ڈیڑھ سال کی عمر میں انتقال ہوا تھا سورج کو گہن لگا۔ (محدثین اس پر قریبا متفق ہیں کہ صاحبزادہ ابراہیم کا انتقال 10 ہجری میں ہوا۔ بعض حضرات نے ربیع الاول کا مہینہ بھی لکھا ہے لیکن گزشتہ صدی کے ماہر فلکیات محمود پاشا مرحوم نے اپنے ایک مقالہ میں جو انہوں نے فرانسیسی زبان میں لکھا تھا اور جس کا عربی ترجمہ بعد میں 1305 ہجری میں مصر سے شائع ہوا تھا، اپنے فنی حساب سے اس کسوف کی تاریخ 29 شوال 10 ہجری معین کی ہے اور دن سوموار کا اور وقت صبح ساڑھے آٹھ بجے کا لکھا ہے۔واللہ اعلم) عربوں میں زمانہ جاہلیت کے توہمات میں سے ایک یہ خیال بھی تھا کہ بڑے آدمیوں کی موت پر سورج کو گہن لگتا ہے اور گویا وہ اس کے ماتم میں سیاہ چادر اوڑھ لیتا ہے۔ حضرت ابراہیم کی وفات کے دن سورج کے گہن میں آ جانے سے اس توہم پرستی اور غلط عقیدہ کو تقویت پہنچ سکتی تھی بلکہ بعض روایات میں ہے کہ کچھ لوگوں کی زبانوں پر یہی بات آئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت غیر معمولی خشیت اور انتہائی فکر مندی کے ساتھ اللہ کے حضور میں جماعت سے دو رکعت نماز پڑھی، یہ نماز بھی غیر معمولی قسم کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں بہت طویل قرأت کی اور قرأت کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار اللہ کے حضور جھک جاتے تھے ( گویا رکوع میں چلے جاتے تھے) اور پھر کھڑے ہو کر قرأت کرنے لگتے تھے ۔ اسی طرح اس نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع اور سجدے بھی بہت طویل کئے اور اثناء نماز میں دعا بھی بہت اہتمام اور ابتہال کے ساتھ کی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور اس میں خاص طور سے اس غلط خیال کی تردید کی کہ سورج یا چاند کو گہن کسی بڑے آدمی کی موت کی وجہ سے لگتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ محض جاہلانہ توہم پرستی ہے جس کی اصل بنیاد کوئی نہیں، یہ تو دراصل اللہ کی قدرت وسطوت اور اس کے جلال و جبروت کی نشانی ہے، جب ایسی کسی نشانی کا ظہور ہو تو عاجزی کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔‘‘
(معارف الحدیث جلد سوم، صفحہ 252)

نماز کسوف کا پڑھا جانا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے، معارف الحدیث میں مذکورہ بالا تمہید کے تحت کئی احادیث ذکر کی گئی ہیں۔ سورج گرہن کے موقع پر نمازِ کسوف کا اہتمام کرنا چاہیے۔سورج گرہن کا واقعہ کیوں کہ شاذو و نادر ہوتا ہے، اس لیے عوام کو نمازِ کسوف کے مسائل سے زیادہ واقفیت نہیں ہوتی لہذا نمازِ کسوف کے چند اہم مسائل ذیل میں ذکر کیے جا رہے ہیں جو کتاب المسائل (از مفتی محمد سلیمان منصورپوری) سے ماخوذ ہیں:

٭…سورج گرہن کی نماز: جب سورج گرہن ہوجائے تو کم از کم دو رکعت نماز باجماعت ادا کرنا مسنون ہے، (دو سے زیادہ رکعات بھی پڑھ سکتے ہیں اور اگر جماعت کا موقع نہ ہو تو اکیلے اکیلے بھی پڑھ سکتے ہیں) (1)

٭…:نماز کسوف کا وقت: جس وقت سے سورج گرہن شروع ہو اور جب تک گرہن کا اثر باقی رہے، اس وقت تک نماز کسوف پڑھی جاسکتی ہے بشرطیکہ وقت مکروہ نہ ہو۔(2)

٭…مکروہ وقت میں سورج گرہن: اگر مکروہ وقت مثلاً زوال یا عصر کے بعد سورج گرہن ظاہر ہو تو ان اوقات میں نماز کسوف نہیں پڑھی جائے گی؛ بلکہ لوگوں کو دعا واستغفار میں مشغول ہونے کا حکم دیا جائے گا۔(3)

٭…اگر سورج گرہن کے درمیان اُفق پر بادل چھاجائے تو کیا کریں؟: اگر سورج گرہن کے وقت اُفق پر بادل یا گرد وغبار آجائے جس سے سورج گرہن کا مشاہدہ نہ ہوسکے تب بھی نماز کسوف پڑھی جائے گی۔(4)

٭…نماز کسوف میں اذان واقامت نہیں ہے: نماز کسوف کے لئے باقاعدہ اذان اور تکبیر نہیں کہی جائے گی؛ البتہ لوگوں کو جمع کرنے کے لئے اعلان کرایا جائے گا۔(5)

٭…نماز کسوف میں قرأت جہری ہوگی یا سری؟: امام ابوحنیفہؒ کی رائے یہ ہے کہ نماز کسوف میں امام آہستہ قرأت کرے گا لیکن امام ابویوسفؒ جہری قرأت کے قائل ہیں، اس لئے اگر مقتدیوں کو اکتاہٹ سے بچانے کی غرض سے نماز کسوف میں جہری قرأت کی جائے تو اس میں حرج نہیں۔(6)

٭…نماز کسوف میں قرأت، رکوع اور سجدہ میں تطویل افضل ہے: نماز کسوف میں امام کو چاہئے کہ لمبی قرأت کرے، مثلاً سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران پڑھے، اسی مناسبت سے رکوع اور سجدہ وغیرہ بھی طویل کرے، جیساکہ احادیث سے نبی اکرم ﷺ کا عمل ثابت ہے۔(7)

جب تک گرہن باقی رہے نماز اور دعا میں مشغول رہنا مستحب ہے: بہتر ہے کہ اتنی لمبی نماز ہو کہ گرہن کا پورا وقت نماز ہی میں صرف ہوجائے؛ لیکن اگر یہ نہ ہوسکے تو نماز کے بعد دعاؤں میں مشغول رہنا مستحب ہے؛ تاآں کہ گرہن کا اثر بالکل ختم ہوجائے اور اس وقت امام اگر چاہے تو لوگوں کی طرف رخ کرکے جہری دعا بھی کراسکتا ہے۔(8)

عورتیں نماز کسوف اکیلے پڑھیں گی: سورج گرہن ہونے کے وقت عورتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں نماز، دعا وعبادت میں مشغول رہیں جماعت میں نہ شریک ہوں۔(9)

نوٹ: بعض علاقوں میں سورج گرہن کے اوقات میں مختلف توہم پرستانہ اعمال کیے جاتے ہیں، آپ کے مسائل اور ان کے حل جلد آٹھ میں ہے:

سوال:ہمارے معاشرے میں یہ بات بہت مشہور ہے اور اکثر لوگ اسے صحیح سمجھتے ہیں کہ جب چاند کو گرہن لگتا ہے یا سورج کو گرہن لگتا ہے تو حاملہ عورت یا اس کا خاوند (اس دن یا رات کو جب سورج یا چاند کو گرہن لگتا ہے) آرام کے سوا کوئی کام بھی نہ کریں، مثلاً: اگر خاوند دن کو لکڑیاں کاٹے یا رات کو وہ اُلٹا سو جائے تو جب بچہ پیدا ہوگا تو اس کے جسم کا کوئی نہ کوئی حصہ کٹا ہوا ہوگا یا وہ لنگڑا ہوگا یا اس کا ہاتھ نہیں ہوگا، وغیرہ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا جواب عنایت فرمائیں اور یہ بھی بتائیں کہ اس دن یا رات کو کیا کرنا چاہئے؟

ج…:حدیث میں اس موقع پر صدقہ و خیرات، توبہ و اِستغفار، نماز اور دُعا کا حکم ہے، دُوسری باتوں کا ذکر نہیں، اس لئے ان کو شرعی چیز سمجھ کر نہ کیا جائے۔ چاند گرہن اور سورج گرہن کو حدیث میں قدرتِ خداوندی کے ایسے نشان فرمایا گیا ہے، جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرانا چاہتے ہیں اور اس موقع پر نماز، صدقہ خیرات اور توبہ و اِستغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ باقی سوال میں جس رسم کا تذکرہ ہے اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ہمارے خیال میں یہ توہم پرستی ہے جو ہندو معاشرے سے ہمارے یہاں منتقل ہوئی ہے، والله اعلم!

طالبِ دعا: محمد بشارت نواز


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)...یصلی بالناس من یملک إقامۃ الجمعۃ بیان للمستحب (درمختار) أی قولہ یصلی بالناس بیان للمستحب وہو فعلہا بالجماعۃ: أی إذا وجد إمام الجمعۃ وإلا فلا تستحب الجماعۃ بل تصلی فرادیٰ۔ (شامی بیروت ۳؍۶۲، درمختار مع الشامي زکریا ۳؍۶۷)
(2)...عند الکسوف فلو انجلت لم تصل بعدہ وإذا انجلیٰ بعضہا جاز ابتداء الصلاۃ الخ۔ (شامی بیروت ۳؍۶۲) في غیر وقت مکروہ۔ (شامي زکریا ۳؍۶۷)
(3)...فی غیر وقت مکروہ لأن النوافل لا تصلیٰ فی الأوقات المنہی عن الصلاۃ فیہا وہٰذہ نافلۃ الخ، عن الملتقط إذا انکسفت بعد العصر أو نصف النہار دعوا ولم یصلو (شامی بیروت ۳؍۶۲، زکریا ۳؍۶۷)
(4)...وإن سترہا سحاب أوحائل صلیٰ لأن الأصل بقاء ہ۔ (شامی بیروت ۳؍۶۲، زکریا ۳؍۶۷)
(5)...بلا أذان ولا إقامۃ الخ۔ وینادیٰ الصلاۃ جامعۃ لیجتمعوا۔ (درمختار بیروت ۳؍۶۲-۶۳، زکریا ۳؍۶۷-۶۸)
(6)...ولا جہر، وقال ابو یوسفؒ: یجہر وعن محمدؒ روایتان۔ (شامی بیروت ۳؍۶۳، زکریا ۳؍۶۷)
(7)...ویطیل فیہا الرکوع والسجود والقراء ۃ والأدعیۃ والأذکار۔ (درمختار) فیقرأ أي فی الرکعتین مثل البقرۃ واٰل عمران کما فی التحفۃ، والإطلاق دال علی أنہ یقرأ ما أحب فی سائر الصلاۃ کما فی المحیط۔ (شامی بیروت ۳؍۶۳، زکریا ۳؍۶۸)
(8)... ثم یدعو بعدہا جالساً مستقبل القبلۃ أو قائماً مستقبل الناس والقوم یؤمنون حتی تنجلی الشمس کلہا۔ (درمختار) والحق أن السنۃ التطویل والمندوب مجرد استیعاب الوقت أی بالصلاۃ والدعاء۔ (شامی بیروت ۳؍۶۴، زکریا ۳؍۶۸)
(9)...والنساء یصلینہا فرادیٰ۔ (شامی بیروت ۳؍۶۴، زکریا ۳؍۶۹)
 

شمشاد خان

محفلین
نماز کسوف دو رکوع کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔ یعنی کہ امام ایک رکوع کرئے پھر کھڑا ہو کر دوبارہ قرات کرے پھر رکوع کرے اور پھر سجدے میں جائے، اسی طرح دوسری رکعت میں بھی کیا جائے گا۔
 
Top