سر جی اسے مشروط نہ کریں بیمار تو نبی کریم کی ذات بھی ہوئی ہے جو کہ خود ناطق قرآن ہیں ۔۔۔اگر ایسا ہی ہوتا تو کوئی پختہ ایمان والا حافظ کبھی بیمار نہ پڑتا!
افسوس کہ جو کتاب، انسان کو انسانیت سکھانے، فلاحی معاشرہ قائم کرنے، بہتر دنیا اور آخرت بنانے کے سبق دیتی ہے اس کو دم درود اور جھاڑ پھونک کے لیے رکھ لیا ہے!
یہ چند مثالیں نہیں ہیں. دو تین میں نے پیش کی مزید پیش کرتی ہوں ساتھ ساتھکسی بھی دوا کے اثرات کا جب جائزہ لیا جا رہا ہوتا ہے تو عام طور پر ساتھ میں placebo effect بھی چیک کیا جاتا ہے، یعنی کچھ مریضوں کو تو اصل دوا دی جاتی ہے اور کچھ مریضوں کو دوا کے نام پر کوئی بے ضرر سی چیز دی جاتی ہے مثال کے طور پر کیپسول میں آٹا بھر کر۔ حیرت انگیز طور پر ایسے مریضوں کی اچھی خاصی تعداد بھی شفا یاب ہو جاتی ہے یا مثبت اثرات دکھاتی ہے کہ جن کو دوا کے نام پر آٹا دیا گیا تھا۔ اس لیے چند ایسی مثالیں مل جانا جیسی کہ آپ ذکر کر رہی ہیں کوئی بڑی بات نہیں ہے!
معذرت کے ساتھ، ہر شخص کو اختلاف کا حق ہے، لیکن اختلاف رائے کی بنیاد پر کسی کی نیت اور ارادے کو طے نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔غیر متفق اور مضحکہ خیز ریٹنگ والے انٹلخچولز ہیں ان کی اسلام اور اسلامی تعلیمات پر عدم اعتماد اور مشکوک انداز فکر سے اکثریت بخوبی واقف ہے
اگر ہم اس واقعے کو بطور مثال لے لیں تو بھی میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس سے ایمانیات کا پہلو کس زاویے سے نکلتا ہے؟ امید ہے آپ کچھ رہنمائی فرمائیں گی۔خیبر کی فتح سے پہلے حضرت علی رضی تعالی عنہ کا آشوب چشم کیسے دور ہوا؟
اگر ہم اس واقعے کو بطور مثال لے لیں تو بھی میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس سے ایمانیات کا پہلو کس زاویے سے نکلتا ہے؟ امید ہے آپ کچھ رہنمائی فرمائیں گی۔
سر جی معذرت کی بات نہیں رہی بات اختلاف کی تو اپنا نقطہ نظر پیش کرے یہ کیا کے غیرمتفق غیر متفق کی ریٹنگ دی جائے رہی بات کسی کی نیت اور ارادے کو طے نہیں کرنا چاہیے اختلاف رائے کی بنیاد پر تو سب مذکورہ افراد کی نیت اور ارادے آپ کو جگہ جگہ یہاں بکھرے نظر آئینگے ۔۔ اب یہ دلوں کا بھید سب پر آشکار ہے ۔۔معذرت کے ساتھ، ہر شخص کو اختلاف کا حق ہے، لیکن اختلاف رائے کی بنیاد پر کسی کی نیت اور ارادے کو طے نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔
بٹیا یہ دل کی باتیں ہیں دل سے سمجھی جاتی ہیں نہ کہ فلسفے اور سانئس سے ہمارا تجربہ تو ہے قرآن کا پڑھنا،سننا اور سمجھ کے پڑھنا باعث شفاعت ہے۔۔۔۔آپ تو اپنا تجربہ بتائیے نا
آپ ہیں ہی پیاری پیاری
ماشاءاللہبٹیا یہ دل کی باتیں ہیں دل سے سمجھی جاتی ہیں نہ کہ فلسفے اور سانئس سے ہمارا تجربہ تو ہے قرآن کا پڑھنا،سننا اور سمجھ کے پڑھنا باعث شفاعت ہے۔۔۔۔
حضرتِ سیدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم رحمتِ عالم نورِ مجسم رسولِ محتشم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ معظم ہے جس شخص نے قرآن پاک سیکھا اور سکھایا اور جو قرآن پاک میں ہے اس پر عمل کیا، قرآن شریف اس کی شفاعت کرے گا، اور جنت میں لے جائے گا، ( تاریخ دمشق ابن عساکر ۳/ ۴۱ )
:ہمارے اسلاف کرام دن و رات قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول ہوتے تھے ، حتی کہ انہوں نی اپنی چال چلن اورگفتگو کو قرآن پاک کے مطابق کرلیا تھا، اور ان کا قرآن پاک کے ساتھ اندازمحبت بہت ہی نرالا تھا۔
مروی ہے کہ حضرت علی المرتضی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم گھوڑاکسنے سے پہلے قرآن پاک ختم فرمالیا کرتے تھے۔(مراۃ المناجیح ج ۳، ص ۲۸۵)
حضرت عکرمہ بن ابوجہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب قرآن پاک کھولتے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر غشی طاری ہوجاتی اور فرماتے یہ میرے رب کا کلام ہے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ص۶۳، ج ۱)
دلوں کی صفائی:حضور نبی رحمت شفیع امت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا، بے شک دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے عرض کی گئی یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہم اس کی
صفائی کس چیز سے ہوگی ارشاد فرمایا، تلاوتِ قرآن اور موت کو بکثرت یاد کرنے سے۔
بینائی قائم رکھنے کا نسخہ :حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جس نے ہمیشہ قرآن پاک کی دیکھ کر تلاوت کی جب تک
وہ دنیا میں رہے گااس کو اس کی نظر سے فائدہ دیا جائے گا۔(یعنی اس کی نطر سلامت رہے گی) (کنزالعمال جلد ۱، ص ۲۶۹، )
حافظہ مضبوط ہوتا ہے۔دلوں کو چین ملتا ہے۔گمشدہ چیز واپس ملتی ہے۔پڑھنے میں آسانی ہوتی ہے۔قرآن پاک کی تلاوت میں ہر مرض سے شفا ہے۔نوٹ:یاد رہے قرآن پاک کے اُخروی و دنیاوی فوائد اس وقت حاصل ہوں گے!!!!!!!!!!
ماشاءاللہ سے فہد بھائی آپ کافی فہم و فراست والے انسان ہو اور اوپر غیر متفق اور مضحکہ خیز ریٹنگ والے انٹلخچولز ہیں ان کی اسلام اور اسلامی تعلیمات پر عدم اعتماد اور مشکوک انداز فکر سے اکثریت بخوبی واقف ہے مگر آپ کا پورا واقعہ بیان کر کے آکر میں یہ سوال کے "حضور صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کے لعاب دہن کا سورہ رحمٰن کی تلاوت سے کیا تعلق بنتا ہے "
اس استفسار پر حیر ت ہوئی ۔۔۔بلکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ واقعہ ایمان میں اضافے کا سبب بنتا کہ جب کل ایمان کا آشوب چشم ایک لعاب سے کے ذریعے شفا پا سکتا ہے تو کلام اللہ کی تاثیر کتنی ہوگی مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی کھوکھلی تجزیاتی پیمانوں پر آیتوں کو پرکھنا ہے تو نتیجہ ایسا ہی نکلے گا ۔۔۔کتنے ہی واقعات بھرے پڑے ہیں توا ریخ میں ۔۔۔جناب عیسیٰ قم باذن اللہ کہہ کر مردوں کا زندہ کرنا - جناب موسیٰ کا عصا کے ذریعے دریائے نیل کا شگافتہ کرنا - جناب یونس کا مچھلی کے پیٹ میں اتنا عرصہ گذارنا - پہاڑ سے اونٹنی کا نکلنا - ان واقعات کی کوئی کیا ٹینجیبل دلیل دے گا ۔۔۔
سورہ الشعراکی آیت 80 کہتی ہے کہ”اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ (اللہ) مجھے شفا دیتا ہے اور قرآن میں ہم ایسی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہیں سورہ الفصلت کی آیت 44 کہتی ہے کہ "فرمادیجئے آپ کہ مومنوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے”
اب اس کو کیپسول ڈرپ اور میڈیسن کے تناظر میں دیکھینگے تو کہاں سمجھ پائینگے۔۔۔
حضرت علی علیہ السلام کی شان میں حضرت حسان رضی اللّہ عنہکے اشعار:خیبر کی فتح سے پہلے حضرت علی رضی تعالی عنہ کا آشوب چشم کیسے دور ہوا؟
اسطرز کے واقعات بیشمار ملیں گے
اس مراسلے کا میرے سوال سے کیا تعلق ہے؟ میں کنفیوز ہو گیا ہوں، کیا آپ کچھ سمجھا پائیں گی؟ قرانی آیات سے علاج ہمارے ایمان کا حصہ ہیں اس پر آپ نے حضور کے لعاب دہن والا واقعہ پیش کیا، تب بھی بات مجھ پہ واضح نہیں ہوئی کہ یہاں ایمانیات کا پہلو کہاں نکلتا ہے؟ پھر آپ نے اسے اس مراسلے میں دعا سے جوڑ دیا ہے۔ آپ کے ان دونوں مراسلوں میں ایمانیات کا پہلو میں سمجھ نہیں پایا۔ مجھے اپنے ایمانیات والے مراسلے اور دعا والے مراسلے میں کوئی ربط نظر نہیں رہا۔دعا
دعا
دعا
دعا ہمارے ایمان و یقین کا حصہ ہے
دعا جو دکھ دل سے نکلتی جب انسان کو رحمن سے جوڑتی ہے
انسان صحت یاب ہو جاتا ہے
پھر وہ عمل وہی کرتا جیسا کہ قران کریم کو عمل کے طریق پڑھنے کا حکم