حسان خان
لائبریرین
سوزشِ عشق سے بے تاب رہا کرتا ہوں
آدمی ہو کے میں سیماب رہا کرتا ہوں
بے قراری ہے مری شدتِ گریہ میں وہی
آب میں ماہیِ بے آب رہا کرتا ہوں
ضعفِ پیری سے گریباں میں نہیں سر میرا
صرفِ سجدہ تہِ محراب رہا کرتا ہوں
تاج سے مجھ کو نہ مطلب ہے نہ کجکول سے کام
تارکِ عالمِ اسباب رہا کرتا ہوں
کجکول = کشکول
ہے کسی کے رخِ پرنور کا اُس پر جو گماں
محوِ نظارۂ مہتاب رہا کرتا ہوں
گرد پھرتا ہوں کسی قلزمِ خوبی کے مدام
دور میں صورتِ گرداب رہا کرتا ہوں
ذبح ہو جانے کا یہ شوق ہے فرقت میں مجھے
واردِ مسلخِ قصاب رہا کرتا ہوں
مسلخ = مذبح، ذبح خانہ، جانوروں کی کھال اتارے جانے کی جگہ
تیرے دانتوں کے مضامیں کی ہے ہر وقت تلاش
طالبِ گوہرِ نایاب رہا کرتا ہوں
ہے سفر میں خبرِ اہلِ وطن کا جو خیال
خواستگارِ خطِ احباب رہا کرتا ہوں
چاہتا ہوں کہ تری نرگسِ میگوں دیکھوں
طالبِ جامِ مئے ناب رہا کرتا ہوں
واسطی فاتحِ خیبر کا جو ہوں دل سے غلام
فوجِ اعدا پہ ظفر یاب رہا کرتا ہوں
(مولوی سید فضلِ رسول خان بہادر واسطی)