یوسف-2
محفلین
میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ انسانوں پر ذاتی تبصرے کا حق ہمیں کس نے دیا ہے ۔ خواہ وہ انسان کوئی بہت بری شہرت کا حامل سیاست دان ہو؟ مجھے اس سچ کے اظہار کے لیے معاف فرمائیے کہ سیاست دان بھی انسان ہوتے ہیں۔
(×) بُرے کو بُرا کہنے کا حق ؟ بُرے انسانوں کی ذات پر، اُس کی بُرائی کے حوالہ سے تبصرہ کرنے کا حق؟ اگر مراد یہی حق ہے تو یہ حق دنیا کا ہر ”نظام“ (بشمول اسلام) عطا کرتا ہے۔
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیے گئے تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے : مسلمان کی جان، مال، عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے سوائے اسلام کے حق کے ۔
(×) اور کیا اسلام کا یہ ”حق“ نہیں ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود اسلامی تعلیمات کا کھلم کھلا مذاق اڑائے (وعیدے کوئی قرآن حدیث نہیں ہوتے کہ انہیں توڑا نہ جاسکے) ، اسلامی ریاست کے سربراہ یا اہم حکومتی مناصب پر پہنچ کرغیر اسلامی کلچر کو ملک بھر میں فروغ دے تب بھی ایسے فرد کو ایکسپوز نہ کیا جائے۔ دستیاب وسائل (میڈیا، سوشیل میڈیا وغیرہ) کو استعمال کرتے ہوئے اُس کے ”ذاتی عیوب“ سے عوام کو آگاہ نہ کیا جائے تاکہ مومنین کی اکثریت ایک ہی سوراخ سے نہ ڈسی جائے۔ کیا یہ میڈیا پرسنز اور سوشیل میڈیا یوزر کا فرض نہیں ہے؟
کیا کسی انسان کے بری شہرت کا حامل ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس کی عزت ہم پر حلال ہو گئی ہے ؟ کوئی عورت خواہ شو بز سے تعلق رکھتی ہے اور کتنی ہی بری شہرت رکھتی ہے پھر بھی میرے لیے یہ کیسے جائز ہے کہ اس کے متعلق بلاثبوت کوئی بات کر دوں؟ ہمیں کیسے یقین ہے کہ ہم جو جی میں آئے اس کے بارے میں کہہ ڈالیں ، ہم سے کوئی حساب نہ ہو گا؟
(×) یہاں تو مجھے منٹو عصمت اینڈ کمپنی کی تحریروں کا ”عکس“ نظر آرہا ہے۔ اس گروپ کے قلمکاروں نے ساری عمر یہی تو کیا ہے کہ معاشرے کے گندے کرداروں (شرابی، زانی، طوائف اینڈ کمپنی) کواپنی تحریروں کے ذریعہ ”خوشنما، باکردار اور ایک اچھا انسان“ دکھلایا اور مذہبی کرداروں (مولوی، مؤذن وغیرہ) کی انفرادی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے انہیں معاشرے میں رُسوا کر نے کا بٰرا اُٹھایا۔ کوٹھے پر مجرا (وغیرہ) کرکے اور شوبز میں اپنی نسوانیت کو بیچ کرپیسے کمانے والیوں میں بھلا کیا فرق ہے۔ بلکہ مؤخرالزکر تو اس اعتبار سے ”بدتر“ ہے کہ وہ اپنے ”کاروباری امور“ کو وسیع پیمانے پر ہر خاص و عام کے گھروں کے اندر تک انجام دینے کی ”طاقت“ رکھتی ہے، بےکردار یا بد کردار ریاستی حکمرانوں کی پشت پناہی سے۔ کیا میں اس ”طبقہ بدتر“ کو ایکسپوز کرنے کے لئے بھی کسی ”ثبوت“ کا انتطار کروں؟
یہ ہے شو بز کی عورت
یوں لگتا ہے کہ سوشل میڈیا پر سیاست دان ، ایکٹر ، کھلاڑی، علماء، مشہور یا غیر معروف انسانوں کے متعلق ہم سب کچھ بلا ثبوت کہنے کی آزادی رکھتے ہیں ۔ اور اگر سیاست دان عورت ہو تو ۔۔۔ ہمیں زیادہ چٹ پٹی باتیں کرنے کا موقع مل جاتا ہے، جب مقدس مشرق کے سپوتوں کو ہرجملے میں ذومعنی مضمون سوجھ رہے ہوں تو روکھی سوکھی اخلاقیات کہاں یاد آتی ہیں ؟
یہاں ایک اور سچ کی جانب توجہ مبذول کرانے کی خواہش ہے کہ عورت بھی ۔۔۔ انسان ہے ۔ نہ کم تر ، نہ بر تر ، صرف انسان ۔ بعض سطحی قلم کاروں کا اسے ہمیشہ ایک ہی زاوئیے سے دیکھنا کسی شدید مرض کی علامت تو ہو سکتا ہے کوئی قابل فخر بات نہیں ۔
(×) لگتا ہے کہ آپ میڈیا کے کردار ہی سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔ میڈیا کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ محض ”واقعات“ کو رپورٹ کرے یا اپنے قارئین و ناظرین کو تفریح فراہم کرے۔ بلکہ میڈیا کا ”اصل کام“ یہ ہے کہ وہ ہر ”پبلک فیگر“ کے ہر ”مشتبہ حرکات و سکنات“ پر نظر رکھے اور عوام کو اس سے آگاہ کرے تاکہ عوام اُن کے ”شر“ سے محفوظ رہ سکیں۔ اگر کوئی رپورٹر کسی کی عزت غلط طور پر اچھالتا ہے تو اُس فرد کا یہ حق ہے کہ وہ اس رپورٹر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے اور اسے قرار واقعی سزا دلوائے تاکہ میڈیا میں موجود کالی بھیڑوں کا قلع قمع ہوسکے۔ مثلا" ایک نیو ایئر کی شب کراچی کے ایک پوش علاقے کے ایک فلیٹ سے اہل محلہ کی شکایت پر ایک مشہور گلوکار اور اس کے ساتھی کال گرلز اور شراب کے ساتھ گرفتار ہوتے ہیں۔ اب یہاں نہ تو اہل محلہ کے پاس کوئی ”ثبوت“ تھا کہ وہ اس گلوکار کے خلاف پولس کو رپورٹ کرتے اور نہ ہی اس خبر کو شائع کرنے والے ہر رپورٹر کے پاس اس ”جرم “ کا کوئی ”ثبوت“ تھا۔ تو کیا یہ خبر میڈیا مین شائع و نشر نہ کی جاتی۔ کالمسٹ اس خبر پر کالم، تجزیے اور شذرات نہ لکھتے اور سب کے سب ”ثبوت“ کے منتظر رہتے؟؟؟
مجھے افسوس ہے کہ صحافت کے ساتھ ساتھ سماجی ویب سائٹس کے آئینے میں ہمارے اخلاقی چہرے کا کوئی اتنا اچھا عکس نہیں بن رہا ۔ میں اپنے سماج کی اخلاقی بدصورتی سے نظر چرا کر جاؤں تو جاؤں کہاں ؟ مجھے اپنے لوگوں میں رہنا اچھا لگتا ہے لیکن جب ایسی باتیں ہوتی ہیں تو مجھے دکھ ہوتا ہے ۔ کیا ہم آج اس مسئلے پر اپنے منصفانہ محاسبے کا آغاز کر کے کسی مفید نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں؟
(×) ناطقہ سر بہ گریباں ہے، اسے کیا کہئے۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ کسی شدید مخمصہ کا شکار ہیں۔ یا تو آپ کو سماج میں موجود اخلاقی بدصورتی کی شدت کا اندازہ نہیں ہے یا آپ اسے کوئی ”معمولی بات“ سمجھ رہی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ اخلاقی بدصورتی کے اس سمندر میں کسی ایسے ”اخلاقی شِپ“ پر رہتی ہوں، جہاں سے ”باہر کی گندگی“ نمایان طور پر نظر نہ آتی ہواور ایسے میں جب آپ کے ”اخلاقی شِپ“ کے اندر میڈیا و سوشیل میڈا کے ذریعہ باہر کی رام کہانی سننے کو ملے تو آپ میڈیا کے آئینہ کو ہی قصور وار قرار دینے لگیں۔ میڈیا کے ”طریقہ رپورٹنگ “ پرتو اعتراض کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ کہنا کہ ”میرے سماج“ کی اخلاقی بدصورتی کا میڈیا کوئی اچھا عکس پیش نہیں کر رہا۔ معاشرتی برائیون کو ”نظر انداز“ کرنا کوئی مستحسن فعل نہیں ہے۔ ہم اگر بزور قوت اس کے خلاف عمل کرنے کے افضل ترین مقام پر فائز نہیں ہوسکتے تو کم از کم بُرے کو بُرا تو کہنے کی جرات کریں۔ اللہ ہم سب کو امر بالمعروف کے ساتھ ساتھ نہی عن المنکر کی بھی توفیق دے آمین۔
(×) بُرے کو بُرا کہنے کا حق ؟ بُرے انسانوں کی ذات پر، اُس کی بُرائی کے حوالہ سے تبصرہ کرنے کا حق؟ اگر مراد یہی حق ہے تو یہ حق دنیا کا ہر ”نظام“ (بشمول اسلام) عطا کرتا ہے۔
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیے گئے تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے : مسلمان کی جان، مال، عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے سوائے اسلام کے حق کے ۔
(×) اور کیا اسلام کا یہ ”حق“ نہیں ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود اسلامی تعلیمات کا کھلم کھلا مذاق اڑائے (وعیدے کوئی قرآن حدیث نہیں ہوتے کہ انہیں توڑا نہ جاسکے) ، اسلامی ریاست کے سربراہ یا اہم حکومتی مناصب پر پہنچ کرغیر اسلامی کلچر کو ملک بھر میں فروغ دے تب بھی ایسے فرد کو ایکسپوز نہ کیا جائے۔ دستیاب وسائل (میڈیا، سوشیل میڈیا وغیرہ) کو استعمال کرتے ہوئے اُس کے ”ذاتی عیوب“ سے عوام کو آگاہ نہ کیا جائے تاکہ مومنین کی اکثریت ایک ہی سوراخ سے نہ ڈسی جائے۔ کیا یہ میڈیا پرسنز اور سوشیل میڈیا یوزر کا فرض نہیں ہے؟
کیا کسی انسان کے بری شہرت کا حامل ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس کی عزت ہم پر حلال ہو گئی ہے ؟ کوئی عورت خواہ شو بز سے تعلق رکھتی ہے اور کتنی ہی بری شہرت رکھتی ہے پھر بھی میرے لیے یہ کیسے جائز ہے کہ اس کے متعلق بلاثبوت کوئی بات کر دوں؟ ہمیں کیسے یقین ہے کہ ہم جو جی میں آئے اس کے بارے میں کہہ ڈالیں ، ہم سے کوئی حساب نہ ہو گا؟
(×) یہاں تو مجھے منٹو عصمت اینڈ کمپنی کی تحریروں کا ”عکس“ نظر آرہا ہے۔ اس گروپ کے قلمکاروں نے ساری عمر یہی تو کیا ہے کہ معاشرے کے گندے کرداروں (شرابی، زانی، طوائف اینڈ کمپنی) کواپنی تحریروں کے ذریعہ ”خوشنما، باکردار اور ایک اچھا انسان“ دکھلایا اور مذہبی کرداروں (مولوی، مؤذن وغیرہ) کی انفرادی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے انہیں معاشرے میں رُسوا کر نے کا بٰرا اُٹھایا۔ کوٹھے پر مجرا (وغیرہ) کرکے اور شوبز میں اپنی نسوانیت کو بیچ کرپیسے کمانے والیوں میں بھلا کیا فرق ہے۔ بلکہ مؤخرالزکر تو اس اعتبار سے ”بدتر“ ہے کہ وہ اپنے ”کاروباری امور“ کو وسیع پیمانے پر ہر خاص و عام کے گھروں کے اندر تک انجام دینے کی ”طاقت“ رکھتی ہے، بےکردار یا بد کردار ریاستی حکمرانوں کی پشت پناہی سے۔ کیا میں اس ”طبقہ بدتر“ کو ایکسپوز کرنے کے لئے بھی کسی ”ثبوت“ کا انتطار کروں؟
یہ ہے شو بز کی عورت
یوں لگتا ہے کہ سوشل میڈیا پر سیاست دان ، ایکٹر ، کھلاڑی، علماء، مشہور یا غیر معروف انسانوں کے متعلق ہم سب کچھ بلا ثبوت کہنے کی آزادی رکھتے ہیں ۔ اور اگر سیاست دان عورت ہو تو ۔۔۔ ہمیں زیادہ چٹ پٹی باتیں کرنے کا موقع مل جاتا ہے، جب مقدس مشرق کے سپوتوں کو ہرجملے میں ذومعنی مضمون سوجھ رہے ہوں تو روکھی سوکھی اخلاقیات کہاں یاد آتی ہیں ؟
یہاں ایک اور سچ کی جانب توجہ مبذول کرانے کی خواہش ہے کہ عورت بھی ۔۔۔ انسان ہے ۔ نہ کم تر ، نہ بر تر ، صرف انسان ۔ بعض سطحی قلم کاروں کا اسے ہمیشہ ایک ہی زاوئیے سے دیکھنا کسی شدید مرض کی علامت تو ہو سکتا ہے کوئی قابل فخر بات نہیں ۔
(×) لگتا ہے کہ آپ میڈیا کے کردار ہی سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔ میڈیا کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ محض ”واقعات“ کو رپورٹ کرے یا اپنے قارئین و ناظرین کو تفریح فراہم کرے۔ بلکہ میڈیا کا ”اصل کام“ یہ ہے کہ وہ ہر ”پبلک فیگر“ کے ہر ”مشتبہ حرکات و سکنات“ پر نظر رکھے اور عوام کو اس سے آگاہ کرے تاکہ عوام اُن کے ”شر“ سے محفوظ رہ سکیں۔ اگر کوئی رپورٹر کسی کی عزت غلط طور پر اچھالتا ہے تو اُس فرد کا یہ حق ہے کہ وہ اس رپورٹر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے اور اسے قرار واقعی سزا دلوائے تاکہ میڈیا میں موجود کالی بھیڑوں کا قلع قمع ہوسکے۔ مثلا" ایک نیو ایئر کی شب کراچی کے ایک پوش علاقے کے ایک فلیٹ سے اہل محلہ کی شکایت پر ایک مشہور گلوکار اور اس کے ساتھی کال گرلز اور شراب کے ساتھ گرفتار ہوتے ہیں۔ اب یہاں نہ تو اہل محلہ کے پاس کوئی ”ثبوت“ تھا کہ وہ اس گلوکار کے خلاف پولس کو رپورٹ کرتے اور نہ ہی اس خبر کو شائع کرنے والے ہر رپورٹر کے پاس اس ”جرم “ کا کوئی ”ثبوت“ تھا۔ تو کیا یہ خبر میڈیا مین شائع و نشر نہ کی جاتی۔ کالمسٹ اس خبر پر کالم، تجزیے اور شذرات نہ لکھتے اور سب کے سب ”ثبوت“ کے منتظر رہتے؟؟؟
مجھے افسوس ہے کہ صحافت کے ساتھ ساتھ سماجی ویب سائٹس کے آئینے میں ہمارے اخلاقی چہرے کا کوئی اتنا اچھا عکس نہیں بن رہا ۔ میں اپنے سماج کی اخلاقی بدصورتی سے نظر چرا کر جاؤں تو جاؤں کہاں ؟ مجھے اپنے لوگوں میں رہنا اچھا لگتا ہے لیکن جب ایسی باتیں ہوتی ہیں تو مجھے دکھ ہوتا ہے ۔ کیا ہم آج اس مسئلے پر اپنے منصفانہ محاسبے کا آغاز کر کے کسی مفید نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں؟
(×) ناطقہ سر بہ گریباں ہے، اسے کیا کہئے۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ کسی شدید مخمصہ کا شکار ہیں۔ یا تو آپ کو سماج میں موجود اخلاقی بدصورتی کی شدت کا اندازہ نہیں ہے یا آپ اسے کوئی ”معمولی بات“ سمجھ رہی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ اخلاقی بدصورتی کے اس سمندر میں کسی ایسے ”اخلاقی شِپ“ پر رہتی ہوں، جہاں سے ”باہر کی گندگی“ نمایان طور پر نظر نہ آتی ہواور ایسے میں جب آپ کے ”اخلاقی شِپ“ کے اندر میڈیا و سوشیل میڈا کے ذریعہ باہر کی رام کہانی سننے کو ملے تو آپ میڈیا کے آئینہ کو ہی قصور وار قرار دینے لگیں۔ میڈیا کے ”طریقہ رپورٹنگ “ پرتو اعتراض کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ کہنا کہ ”میرے سماج“ کی اخلاقی بدصورتی کا میڈیا کوئی اچھا عکس پیش نہیں کر رہا۔ معاشرتی برائیون کو ”نظر انداز“ کرنا کوئی مستحسن فعل نہیں ہے۔ ہم اگر بزور قوت اس کے خلاف عمل کرنے کے افضل ترین مقام پر فائز نہیں ہوسکتے تو کم از کم بُرے کو بُرا تو کہنے کی جرات کریں۔ اللہ ہم سب کو امر بالمعروف کے ساتھ ساتھ نہی عن المنکر کی بھی توفیق دے آمین۔