" سوشل میڈیا اور الحاد ".

" سوشل میڈیا اور الحاد ".
مارک الیوٹ زکربرگ Mark Elliot Zuckerberg سنہ ١٩٨٤ وہائیٹ پلینز نیویورک میں ڈینٹسٹ اڈورڈ زکربرگ اور سائیکی ایٹرسٹ کیرن کیمپنر کے گھر پیدا ہونے والا بچہ .
کسے معلوم تھا کہ یہ بچہ مستقبل میں سوشل میڈیا کی دنیا میں ایک انقلاب بپا کر دے گا
{51.4 billion USD}
کے اثاثوں کا مالک مارک ذکر برگ، دنیا کا معروف ترین سافٹویر ڈیولپر پیدائشی طور پر ایک یہودی خانوادے سے تعلق رکھتا ہے
{bar mitzvah}
کے مذہبی عمل سے گزارنے والے نوجوان نے جب شعور سنبھالا تو خود کو " لا مذھب " کہلوانا پسند کیا .
{the initiation ceremony of a Jewish boy who has reached the age of 13 and is regarded as ready to observe religious precepts and eligible to take part in public worship}
گو کہ جب بھی کبھی بنی اسرائیلیوں نے اپنی نسبت کسی مذھب فکر یا عقیدے ہی جانب موڑی ہے اس میں دھوکہ ہی ہوا ہے چاہے سینٹ پال کا قبول مسیحیت ہو یا عبدللہ ابن سبا کا قبول اسلام یا پھر زکربرگ کا
" مذھب لادینیت " کا قبول کرنا .
عجیب لطیفہ یہ ہے کہ موصوف آجکل بدھ مت کی جانب راغب دکھائی دیتے ہیں حضرت فرماتے ہیں کہ
{Zuckerberg is visiting Asia to promote Facebook — though the network is blocked in China. Zuckerberg’s wife, Priscilla Chan, is Buddhist. In his post, Zuckerberg wrote that he offered a prayer for his wife at the pagoda, and said that he’s interested in learning more about Buddhism.}
ویسے بیگم کے خوف سے خود کو بدھسٹ کہلوانا بھی کوئی برا سودا نہیں ہے گھر کا اور ذہن کا سکون آخر کسے درکار نہیں .
اگر غور کیا جائے تو مذھب بدھ ازم بھی لادینیت سے اتنا دور نہیں کیونکہ اس مذھب میں تصور خدا موجود نہیں ہے اور اس کی تعلیمات دراصل بودھ کی تعلیمات ہیں ناکہ وحی الہی .
سابقہ یہودی موجودہ " لادین " اور مائل بہ بودھ ازم مارک ذکر برگ کے سوشل میڈیا جن " کتاب رخ " {facebook} پر کس انداز میں لادینیت کو پروموٹ کیا جاتا ہے اسکی مثال ریبیکا سواستیو {Rebecca Savastio} کے کالم .
" Social Media Growing Atheism by the Millions "
http://guardianlv.com/2013/10/social-media-growing-atheism-by-the-millions/

میں ملتی ہے اپنے کالم میں موصوفہ ایک جگہ لکھتی ہیں .
" Even more notable than the jump in atheism is the increase in people who say they simply don’t adhere to any religion. A recent PEW study found that 20% of Americans now say they are “unaffiliated” with any specific faith or set of religious practices. 20% of Americans is a huge number: over 63 million people. Out of that number, roughly one third are atheist or agnostic. That’s over 21 million non-believing “heathens.”
Such a large number has undoubtedly been helped along by social media, especially Facebook. A search of the words “atheist,” “agnostic,” “skeptic,” “God” and “secular,” reveals close to 100 atheistic Facebook pages ranging in membership from a few thousand to a quarter million people. "
ذیل میں کچھ معروف سوشل میڈیا گروپس کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جنکا مقصود الحاد و دہریت کو پھیلانا ہے ،
1. The ExposingReligion Network
https://www.facebook.com/Top10AtheistPages/

2. We Fucking Love Atheism
https://www.facebook.com/WFLAtheism

3. Religion Poisons Everything
http://www.facebook.com/GodIsNotGreat

4. Atheist Republic
https://www.facebook.com/AtheistRepublic

5. Hammer the Gods
https://www.facebook.com/HammerTheGods

6. The Thinking Atheist
http://www.facebook.com/pages/The-Thinking-Atheist/302201620116

7. United Atheists of America
http://www.facebook.com/WEAREUAA

8. Working class atheists
http://www.facebook.com/workingclassatheists

9. The Atheist's Bible Commentary
http://www.facebook.com/TABCP

10. Atheism
http://www.facebook.com/AtheismFTW

ان تمام الحادی پیجز کے صارفین کی تعداد لاکھوں میں ہے اور خاص طور پر انکا ٹارگیٹ نوجوان طبقہ ہے کہ جسے یہ دین سے برگشتہ کر کے لا دین بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں .
دوسری جانب اردو بولنے والے طبقے کیلئے زبان و بیان اور ادب کی آڑ میں متعدد ایسے گروپس تشکیل دیے گئے کہ جنکا مقصود پردوں میں لپٹ کر لا دینیت کی ترویج تھا .
رفیع رضا صاحب ایک جانے مانے ادیب ہیں کہ جو طویل عرصے سے الحاد و دہریت کیلیے کام کر رہے ہیں لوگ انکی ادبی حیثیت سے متاثر ہوکر انکی جانب متوجہ ہوتے ہیں اور انکے لادینیت کا زہر لے اٹھتے ہیں .
http://www.rafiraza.com/

فری تھنکرز کے نام سے طویل عرصے تک ان صاحب کی زیر نگرانی ایک گروپ چلایا جاتا رہا کہ جسے دل آزار مواد کی وجہ سے متعدد بار رپورٹ بھی کیا گیا لیکن کہ مختلف نام بدل بدل کر سامنے آتے رہے .
ایک دوسرے صاحب کہ جو خود کو علامہ ایاز نظامی کہتے ہیں اور بقول انکے یہ سابقہ عالم دین اور موجودہ ملحد ہیں سوشل میڈیا اور خاص کر کتاب رخ پر انتہائی متحرک ہیں انکی برقی صفحہ " جرت تحقیق " کے نام سے زہر اگلتا ہے .
https://realisticapproach.org/author/nizami/

قریب کے دنوں میں ایک خاتون نسیم کوثر صاحبہ کا غلغلہ بھی اٹھا تھا کہ جنہوں نبی کریم صل علیہ وسلم کی شان میں کھلی گستاخی کی اور اسکیلئے اسی میڈیم کو استعمال کیا .
دوسری جانب بڑی دیر کے بعد جدید تعلیم یافتہ طبقہ اس جانب متوجہ ہوا کہ اس الحادی فکر اور گروہ کا تعاقب کیا جائے
ایک گروپ
" آپریشن ارتقاء فہم و دانش " کے نام سے متحرک ہے کہ جسکے ایک لاکھ
https://www.facebook.com/groups/oifd1/?fref=nf

صارفین ہیں تو دوسری جانب ایک برقی صفحہ " الحاد جدید کا علمی محکمہ "
http://ilhaad.com/2014/11/imam-ghazali/

کے نام سے مصروف عمل ہے .
محترم دوست جناب زوہیب زیبی صاحب اپنے مضمون
" سوشل میڈیا پر الحاد کے خلاف گزرے پانچ سال "
میں لکھتے ہیں
" ان فتنہ پرور لوگوں کے بدنیت ہونے کی تیسری علامت ان کا خود کو سابق مسلمان کہہ کر عام مسلمانوں کو دھوکا دینا ہے۔ یہ مسلمانوں والے نام کی آئی ڈی بناتے، جب اعتراض ہوتا کہ’’ آپ لوگ غیر مسلم ہو کر مسلمان کیوں بن رہے ہیں؟‘‘ تو ان کا جواب ہوتا کہ ’’ہم پیدائشی مسلمان ہیں، البتہ بعد میں تحقیق کرکے اسلام کو غلط پایا اور پھر اسلام و خدا کو چھوڑ دیا‘‘۔ لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں سے آٹے میں نمک کے برابر بھی ایسے لوگ نہیں ہوں گے جو حقیقتاً پیدائشی مسلمان تو دور کی بات ہے، کبھی مسلمان بھی رہے ہوں۔ وگرنہ ہم نے تو یہی دیکھا کہ جب کبھی ایسے پیدائشی مسلمانوں سے بطور امتحان چھوٹے موٹے اسلامی سوال کیے جاتے تو یہ لوگ جواب دینے میں ہمیشہ نہ صرف ناکام رہے بلکہ بہانے بھی بنائے کہ ہم کوئی بہت اچھے مسلمان نہیں تھے وغیرہ۔ مثلاً ایک فیس بکی ملحد سے پوچھا کہ ’’تہجد کی کتنی رکعات ہوتی ہیں؟‘‘ تو جواب ملا ’’ہمارے تو کبھی فرائض بھی پورے نہیں ہوئے، تہجد کا کیا معلوم!‘‘ ایک سے انتہائی بچگانہ سوال پوچھا کہ ’’ قرآن کی کتنی منزلیں ہیں؟‘‘ تو جواب دیا ’’میں بہت زیادہ باعلم مسلمان نہیں تھا، میں کیا جانوں‘‘۔ ذرا غور تو کیجیے کہ جو شخص ’’اپنی تحقیق‘‘ کے مطابق قرآن میں عربی کی غلطیاں اور سائنسی خامیاں بیان کر رہا ہے، وہ یہ نہیں جانتا کہ قرآن میں منزلیں کتنی ہوتی ہیں۔ ایک صاحب نے تو حد ہی کردی، نام تھا ان کا ’یزید حسین‘۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ حافظ قرآن تھے اور تراویح بھی پڑھاتے رہے ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ اگر تراویح کی ایک رکعت نکل جائے تو اسے کیسے پورا کرتے ہیں؟ تو موصوف کا انتہائی مضحکہ خیز جواب تھا ’’چونکہ اسلام چھوڑے کئی سال ہوگئے ہیں، اس لیے اب میں بھول چکا ہوں‘‘۔ کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ ایک شخص انڈیا کا پیدائشی مسلمان ہو کر انڈیا میں ہی درس نظامی یعنی 8 سالہ عالم دین کورس کرنے کا مدعی ہو لیکن اسے اردو زبان نہ آئے؟ جبکہ اس کی آئی ڈی کا نام تھا ’’منصور حلّاج‘‘۔ جب مکمل تحقیق کے بعد اسلام چھوڑا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ انتہائی سادہ و بچگانہ اسلامی باتیں بھی نہ جانتے ہوں " ؟.
گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ مسّلہ انتہائی گھمبیرتا اختیار کرتا جا رہا ہے
" Attacks by Islamic extremists in Bangladesh "
کے نام سے تلاش کیجئے سنہ ٢٠١٣ سے صرف بنگلہ دیش میں متعدد سوشل میڈیا لادینوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جسکی تفصیل اس وکیپیڈیا کالم میں پڑھی جا سکتی ہے .
https://en.wikipedia.org/wiki/Attacks_by_Islamic_extremists_in_Bangladesh

انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا روایتی دینی طبقہ کہ جو اب انتہائی بڑی تعداد میں سوشل میڈیا پر موجود ہے اس طوفان کے آگے پل باندھنے سے قاصر تو کجا اس میدان سے بھی ناواقف ہے .
مدارس میں تقابل ادیان کے نام پر " مسالک کا تقابل "
اور رد عقائد باطلہ کے نام پر " مخالف مسلک کے اعتقادات کا رد "
تک محدود مواد پڑھایا جاتا ہے .
مسیحیت یا ہندو مت کے تقابل سے متلعق مواد شاید جدید جامعات میں ضرور میسر آ خالص دینی جماعت میں شاید چند ایک میں ہی اس سے متعلق مواد موجود ہو .
دوسری جانب الحاد کے حوالے سے ہمارا دامن بلکل خالی ہے اور سوشل میڈیا خاص کر فیس بک پر ہونے والا کام خالص ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے کہ جو پختہ دینی مراجع سے اتنے ہی دور ہیں کہ جتنے خالص دینی طبقات جدید مراجع سے ہیں اگر اس اہم ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کام نہ کیا گیا تو کل ہمارا وہی حال ہوگا کہ جسکی جانب شاعر نے کیا خوب اشارہ کیا ہے .
اٹھو ، وگرنہ حشر بپا ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
حسیب احمد حسیب
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
حسیب بھائی آپ نے بہت اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔ فی الوقت صرف دس منٹ کی مہلت ہے ۔ اس پر مزیدگفتگو بشرطِ فرصت قرض رہی ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مختلف گروہوں , اداروں, حکومتوں کی طرف سے سوشل میڈیا کو کسی معاشرہ میں فکری و نظریاتی تبدیلی لانے یا فرقہ وارانہ فساد برپا کرنے یا لسانی تعصب کو اجاگر کرنےکے لیے استعمال کیا جاتا ہے.
سوشل میڈیا ایک پروپگنڈا ٹول ہے جس پر موجود اسلام مخالف پراپگنڈا مواد کا تجزیہ کرنے اور موثر جواب تیار کرنے والے افراد لائق تحسین ہیں.
اللہ تعالی امت مسلمہ کو ایک اور نیک بنائے.آمین.
 
بہت اعلیٰ۔
طالبان انتہا پسندی کے بعد اب ہمیں لبرل اور الحادی انتہا پسندی کا سامنا ہے۔ ان سے جنگ بیانیے کی ہے اور ہمیں ان سے لڑنا ہے:)
 
حسیب احمد حسیب
آپ کا منتخب کردہ موضوع اہم ہے، لیکن جس طرح آپ نے اندھا دھند تیر چلائے ہیں، اس سے اتنا افسوس ہوا کہ لاگن ہی ہونا پڑا۔
پہلے تو میں یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ الحاد پر گفتگو سے قبل تمہید میں آپ نے مارک زکربرگ کو کیوں رگڑ دیا۔ اس بیچارے کا کیا قصور اگر اس کے پلیٹ فارم کو الحاد پھیلانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ کیوں کہ دوسری طرف آپ خود یہ تمنا رکھتے ہیں کہ اسی پلیٹ فارم پر دینی جماعتیں ردِّ الحاد بھی کریں یعنی اپنے اپنے مذہب یا دین کی تبلیغ کریں۔ کیا آپ نے کبھی کسی ملحد کو مارک زکربرگ پر اس لیے غصہ ہوتے ہوئے دیکھا کہ مذہبی لوگ اپنے عقائد کی ترویج کے لیے فیس بک کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ اور پھر یونہی آپ نے بدھ مت کو بھی الحاد اور لادینیت میں گھسیٹ لیا۔
دوسری بات یہ کہ آپ نے اپنے تئیں جو بچگانہ سوالات ملحدین سے پوچھے اور جواب نہ ملنے پر ان کی سابقہ مسلمانی پر شک کیا، تو بھائی، یہی سوالات ذرا عام مسلمان سے پوچھ کر بھی دیکھ لیں کہ قرآن میں کتنی منزلیں یا کتنی سورتیں ہیں، تروایح کی رکعت قضا ہونے کی بات تو چھوڑیے، تراویح کی رکعات کی تعداد ہی پوچھ لیجیے، اور تہجد کی رکعات کو بھول کر بقیہ پانچ نمازوں کی رکعات کی بابت دریافت کرلیجیے۔ شاید آپ کو ان کے مسلمان ہونے پر بھی شکوک و شبہات لاحق ہوجائیں۔ اس لیے، اگر آپ نے ’’واقعی‘‘ یہ سوالات ملحدین سے کیے تھے اور اگر ’’واقعی‘‘ انھوں نے ایسے ہی جوابات دیے تو بھی یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ کبھی مسلمان نہیں رہے تھے۔
اور جہاں تک بات ہے نوجوان طبقے کو ٹارگٹ کرکے دین سے برگشتہ کرنے اور لادین بنانے کی کوشش کرنے کی تو میرا نہیں خیال کہ ایسے معاملات میں ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ آپ اگر مذہبی سوچ کے حامل ہوں اور مجھے مذہب کی طرف راغب کرنا چاہیں تو سوچا جاسکتا ہے کہ آپ اپنے عقائد کے مطابق اپنے اخروی فائدے کے لیے مجھے اچھائی کی طرف بلا رہے ہیں؛ لیکن اگر ایک شخص ملحد ہو تو بھلا اسے آپ کو ملحد کرکے کیا ملے گا؟ نہ دنیوی فائدے کا امکان نہ اخروی فائدے کی آس۔ بات صرف تبلیغ کی ہے۔ آپ جو بات درست سمجھتے ہیں، اس کی تبلیغ کرتے ہیں؛ انھیں جو بات درست لگتی ہے، وہ اس کی تبلیغ کرتے ہیں۔
اختلافِ رائے پر معذرت۔
 
حسیب احمد حسیب
آپ کا منتخب کردہ موضوع اہم ہے، لیکن جس طرح آپ نے اندھا دھند تیر چلائے ہیں، اس سے اتنا افسوس ہوا کہ لاگن ہی ہونا پڑا۔
پہلے تو میں یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ الحاد پر گفتگو سے قبل تمہید میں آپ نے مارک زکربرگ کو کیوں رگڑ دیا۔ اس بیچارے کا کیا قصور اگر اس کے پلیٹ فارم کو الحاد پھیلانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ کیوں کہ دوسری طرف آپ خود یہ تمنا رکھتے ہیں کہ اسی پلیٹ فارم پر دینی جماعتیں ردِّ الحاد بھی کریں یعنی اپنے اپنے مذہب یا دین کی تبلیغ کریں۔ کیا آپ نے کبھی کسی ملحد کو مارک زکربرگ پر اس لیے غصہ ہوتے ہوئے دیکھا کہ مذہبی لوگ اپنے عقائد کی ترویج کے لیے فیس بک کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ اور پھر یونہی آپ نے بدھ مت کو بھی الحاد اور لادینیت میں گھسیٹ لیا۔
دوسری بات یہ کہ آپ نے اپنے تئیں جو بچگانہ سوالات ملحدین سے پوچھے اور جواب نہ ملنے پر ان کی سابقہ مسلمانی پر شک کیا، تو بھائی، یہی سوالات ذرا عام مسلمان سے پوچھ کر بھی دیکھ لیں کہ قرآن میں کتنی منزلیں یا کتنی سورتیں ہیں، تروایح کی رکعت قضا ہونے کی بات تو چھوڑیے، تراویح کی رکعات کی تعداد ہی پوچھ لیجیے، اور تہجد کی رکعات کو بھول کر بقیہ پانچ نمازوں کی رکعات کی بابت دریافت کرلیجیے۔ شاید آپ کو ان کے مسلمان ہونے پر بھی شکوک و شبہات لاحق ہوجائیں۔ اس لیے، اگر آپ نے ’’واقعی‘‘ یہ سوالات ملحدین سے کیے تھے اور اگر ’’واقعی‘‘ انھوں نے ایسے ہی جوابات دیے تو بھی یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ کبھی مسلمان نہیں رہے تھے۔
اور جہاں تک بات ہے نوجوان طبقے کو ٹارگٹ کرکے دین سے برگشتہ کرنے اور لادین بنانے کی کوشش کرنے کی تو میرا نہیں خیال کہ ایسے معاملات میں ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ آپ اگر مذہبی سوچ کے حامل ہوں اور مجھے مذہب کی طرف راغب کرنا چاہیں تو سوچا جاسکتا ہے کہ آپ اپنے عقائد کے مطابق اپنے اخروی فائدے کے لیے مجھے اچھائی کی طرف بلا رہے ہیں؛ لیکن اگر ایک شخص ملحد ہو تو بھلا اسے آپ کو ملحد کرکے کیا ملے گا؟ نہ دنیوی فائدے کا امکان نہ اخروی فائدے کی آس۔ بات صرف تبلیغ کی ہے۔ آپ جو بات درست سمجھتے ہیں، اس کی تبلیغ کرتے ہیں؛ انھیں جو بات درست لگتی ہے، وہ اس کی تبلیغ کرتے ہیں۔
اختلافِ رائے پر معذرت۔


انتہائی نوازش کہ آپ نے اس مضمون کو رد عمل کے لائق سمجھا یہاں اگر چند باتوں کی وضاحت کردی جائے تو مدعا سمجھنے میں آسانی ہوگی .

پہلی بات تو یہ کہ آپ نے فرمایا جناب آپ نے مارک زگربرگ کو تمہید میں کیوں نشانہ بنایا تو جناب من میرے خیال میں سوشل میڈیا کا یہ مخصوص فورم کہ جسے فیس بک کے نام سے جانا جاتا ہے اپنے خالق کے فلسفے کے مطابق مذھب کی نسبت ایک مخصوص تعصب رکھتا ہے خاص طور پر بلاس فیمی سے متعلق جس انداز میں فیس بک نے بلاسفیمسٹ کو بڑھاوا دیا ہے اس سے انکار کیا جانا ممکن ہی نہیں ہے .

دوسری جانب مارک زگر برگ جو دراصل ایک یہودی خانوادے سے منسلک ہیں پہلے خود کو لادین ثابت کرتے ہیں اور بعد میں بودھ ازم کا چولا پہننے کی کوشش فرماتے ہیں مقصود بودھ مت کی جانب اشارہ نہیں بلکہ موصوف کی منافقت کو واضح کرنا ہے .

دوسری جانب جہاں تک ان ملحدین کا تعلق ہے کہ جنکی فکری اٹھان لادینیت کے سائے میں ہوئی ہے ہمیں انسے کوئی اخلاقی مسلہ نہیں گو کہ وہ ہمارے فکری مخالف ضرور ہیں لیکن وہ لوگ کہ جو اسلام کی آڑ میں الحاد کی بات کرتے ہیں اور جنکا واحد مقصود مسلمانوں کے علمی و فکری اثاثوں کو نشانہ بنانا ہے ہمیں ان سے ضرور مسلہ ہے اور رہے گا .

باقی یہ حقیقت ہے کہ نوجوان اور پڑھے لکھے طبقے کو باقاعدہ ٹارگیٹ کرکے الحاد کی جانب راغب کیا جا رہا ہے اور اس کا انکار دراصل حقائق کا انکار ہے اور پھر یہاں صرف علمی سوالات نہیں اٹھائے جاتے بلکہ تضحیک اور طنز کے جوہر آزمائے جاتے ہیں اسلامی مقدسات کے خلاف دریدہ دھنی انکا شیوہ ہے اگر اسی چیز کو دلیل اور علمی رویہ کہا جاتا ہے تو بلکل ہم اس علمی رویہ سے نا بلد ہیں .
 

زیک

مسافر
دوسری جانب مارک زگر برگ جو دراصل ایک یہودی خانوادے سے منسلک ہیں پہلے خود کو لادین ثابت کرتے ہیں اور بعد میں بودھ ازم کا چولا پہننے کی کوشش فرماتے ہیں مقصود بودھ مت کی جانب اشارہ نہیں بلکہ موصوف کی منافقت کو واضح کرنا ہے
یہ منافقت کیسے ہوئی؟
 

ابن عثمان

محفلین
اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے ۔ آپ کی فکر اچھی ہے ۔ میں اپنے کچھ بے ترتیب خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں ۔۔جو آپ کے خیالات کے خلاف بالکل نہیں ۔۔۔بس کچھ اور رخ بیان کرنا ہے ۔
اس میں کچھ اور پہلو بھی ہیں ۔۔۔
اس میں اصل ٹارگٹ یہ الحاد والے ہیں تو اس سے بھی بڑھ کر اس پر توجہ بھی تو ہونی چاہیے کہ وہ جو وجوہات ہیں کہ ہمارے لوگ بے دینی کا شکار ہو رہے ہیں ۔
ہمارے نسبتاََ مشہور اور جدید مدارس کے طلبا اور بعض علما بھی سوشل میڈیا کی طرف راغب ہوتے ہیں تو پھر ظاہر ہے اس کے لئے ایک مخصوص وقت دینا پڑتا ہے ۔۔اور آج کل دے بھی رہے ہیں ۔۔نتیجتاََ وہ ایمان و اعمال کا موجب بننے والے افعال سے اتنا اتنا دور ہو جاتے ہیں ۔
جیسے طلبا ای بکس کے ذریعے دینی علم میں آسانی کا فائدہ تو لے رہے ہیں ۔ لیکن آداب کے ساتھ بیٹھ کر ۔نیک صحبت میں ۔۔۔کتاب سے مذکورہ مقام پڑھنا کم ہو گیا ۔
الحاد اور بے دینی سے بچنے کے لئے ضروری چیز ایمان و اعمال ۔۔۔ہمارے دینی افعال ہی تو ہیں ۔ اس کے لئے دینی صحبت یا کسی درجہ کی بھی مشقت سے کسی صاحب علم و نظر کو اختلاف نہیں ہو سکتا ۔اب وہ بھی ہم کوشش کر کے آنلائن ہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ہمارے طلبا اور کئ بڑے علما کی مسکراتی تصاویر کے ساتھ ان کے فیس بک ، ٹوٹر اکاونٹ ، موجود ہیں ۔۔عرب تو اس معاملے میں بہت آگے ہیں ۔
کیا ہم الحاد کا مقابلہ ان کے ہتھیار کو ہی ہاتھ میں لے کر کریں گے ۔؟ یا اپنے ایمان و اعمال و دعوت و ارشاد کی محنت کی اصل شکل سے ۔
بلاشبہ آج کل انٹر نیٹ بھی اس کا ایک جز ہے لیکن کسی آرگنائزیشن کو اپنے چند افراد کو مخصوص کر کے ہی اس نالی میں اتارا جا سکتا ہے ۔ نہ کہ سب کو ترغیب دی جائے ۔۔۔
وہ اتر تے ہیں ۔۔۔اور کچھ مثبت کرتے ہیں تو اس نالی کی گندگی کااثر اس سے زیادہ وصول کرتے ہیں ۔
اصل الحاد کا مقابلہ تو دینی تحریکیں ہی کر رہی ہیں ایمان و اعمال کی جدو جہد کر کے مثلاََ دعوت و تبلیغ والے حضرات ، یا تنظیم اسلامی یا ڈاکٹر ذاکر نائیک ۔۔۔وغیرہ کئی حضرات۔۔۔
ان میں موخر الذکر واحد وہ ہیں جو میڈیا کے کچھ ہتھیار سے کچھ لیس بھی ہیں ۔ لیکن بے دین میڈیا اور سوشل میڈیا بھی کی کثرت کے مقابلے میں عدد کے حساب سے بہت ہی تھوڑا ہے ۔​
 

حماد علی

محفلین
اللہ آپ کو جزائے خیر دے حضرت !
کل فیس بک پر ایک پیج پر نگاہ پڑی جس کا نام "بھینسا" تھا ۔ پچھلے دنوں کچھ چرچے سنے تھے اس نام کے دین کی تضحیک کرنے کی وجہ سے، اس لیے اس پیج کو کھولا کے دیکھیں تو بھلا کیا ہے اس میں؟ اللہ معاف کرے کوئ کم عقل انسان دیکھے اس پیج کو تو آنکھ بند کرکے ان کے الفاظ پر یقین کرلے، لیکن میں تھوڑا ڈھیٹ قسم کا انسان ہوں اور الحمدللہ اللہ نے کچھ تھوڑی سی سمجھ بھی عطا کر دی ہے اس لیے میں نے اپنے دماغ میں یہ بات بٹھا لی کے حماد دینِ اسلام کو نہیں تجھے برا بھلا بول رہے ہیں اس لیے ان کی کسی بھی عقلی دلیل پر یقین نہ کرنا چاہے جتنا بھی درست لگے۔
اف توبہ ایسی ایسی بےہودہ بکواسات کی میں یہاں لکھ نہیں سکتا ، میں کوئ بہت اچھا مسلمان نہیں ہوں گناہوں کی آلودگی میں لپٹا ہوا اور بڑا ہی حقیر انسان ہوں اللہ ہدایت عطا فرمائے! ایک مسلمان ہوں اس لیے غصہ تو بہت آیا پر چپ چاپ اس پیج سے واپس آ گیا اپنی کم علمی کی وجہ سے دلائل کے ساتھ بحث تو کر نہیں سکتا تھا اس لیے باقی لوگوں کی طرح گالی دینے کے بجائے خاماش رہا۔ اللہ سے دعا ہے کے ہمارا خاتمہ ایمان پر کرے ۔ آمین!
 
اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے ۔ آپ کی فکر اچھی ہے ۔ میں اپنے کچھ بے ترتیب خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں ۔۔جو آپ کے خیالات کے خلاف بالکل نہیں ۔۔۔بس کچھ اور رخ بیان کرنا ہے ۔
اس میں کچھ اور پہلو بھی ہیں ۔۔۔
اس میں اصل ٹارگٹ یہ الحاد والے ہیں تو اس سے بھی بڑھ کر اس پر توجہ بھی تو ہونی چاہیے کہ وہ جو وجوہات ہیں کہ ہمارے لوگ بے دینی کا شکار ہو رہے ہیں ۔
ہمارے نسبتاََ مشہور اور جدید مدارس کے طلبا اور بعض علما بھی سوشل میڈیا کی طرف راغب ہوتے ہیں تو پھر ظاہر ہے اس کے لئے ایک مخصوص وقت دینا پڑتا ہے ۔۔اور آج کل دے بھی رہے ہیں ۔۔نتیجتاََ وہ ایمان و اعمال کا موجب بننے والے افعال سے اتنا اتنا دور ہو جاتے ہیں ۔
جیسے طلبا ای بکس کے ذریعے دینی علم میں آسانی کا فائدہ تو لے رہے ہیں ۔ لیکن آداب کے ساتھ بیٹھ کر ۔نیک صحبت میں ۔۔۔کتاب سے مذکورہ مقام پڑھنا کم ہو گیا ۔
الحاد اور بے دینی سے بچنے کے لئے ضروری چیز ایمان و اعمال ۔۔۔ہمارے دینی افعال ہی تو ہیں ۔ اس کے لئے دینی صحبت یا کسی درجہ کی بھی مشقت سے کسی صاحب علم و نظر کو اختلاف نہیں ہو سکتا ۔اب وہ بھی ہم کوشش کر کے آنلائن ہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ہمارے طلبا اور کئ بڑے علما کی مسکراتی تصاویر کے ساتھ ان کے فیس بک ، ٹوٹر اکاونٹ ، موجود ہیں ۔۔عرب تو اس معاملے میں بہت آگے ہیں ۔
کیا ہم الحاد کا مقابلہ ان کے ہتھیار کو ہی ہاتھ میں لے کر کریں گے ۔؟ یا اپنے ایمان و اعمال و دعوت و ارشاد کی محنت کی اصل شکل سے ۔
بلاشبہ آج کل انٹر نیٹ بھی اس کا ایک جز ہے لیکن کسی آرگنائزیشن کو اپنے چند افراد کو مخصوص کر کے ہی اس نالی میں اتارا جا سکتا ہے ۔ نہ کہ سب کو ترغیب دی جائے ۔۔۔
وہ اتر تے ہیں ۔۔۔اور کچھ مثبت کرتے ہیں تو اس نالی کی گندگی کااثر اس سے زیادہ وصول کرتے ہیں ۔
اصل الحاد کا مقابلہ تو دینی تحریکیں ہی کر رہی ہیں ایمان و اعمال کی جدو جہد کر کے مثلاََ دعوت و تبلیغ والے حضرات ، یا تنظیم اسلامی یا ڈاکٹر ذاکر نائیک ۔۔۔وغیرہ کئی حضرات۔۔۔
ان میں موخر الذکر واحد وہ ہیں جو میڈیا کے کچھ ہتھیار سے کچھ لیس بھی ہیں ۔ لیکن بے دین میڈیا اور سوشل میڈیا بھی کی کثرت کے مقابلے میں عدد کے حساب سے بہت ہی تھوڑا ہے ۔​

درست فرمایا محترم
 
تمام مذاہب کو الحاد کی طرف سے ایک چیلنج کا سامنا ہے۔ عیسائیت اس مشکل سے پہلے سے نبرد آزما ہے، لہذا وقت کے ساتھ انہوں نے اپنا جوابی بیانیہ تیار کیا ہے۔ مسلمان فی الحال دھونس دھمکی اور لعن طعن سے کام چلا رہے ہیں۔ جو چند ایک فکری بنیادوں پہ الحاد کا جواب دینے کی کوشش میں مصروف ہیں ان کو روایتی علما کی طرف سے نفرین کا سامنا ہے اور ان کو خود جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ منطق، فلسفہ، لسانیات اور جدید علوم وغیرہ جن کا علم دلائل اور اشکال کو جواب دینے کیلئے ضروری ہے، ان سے ویسے ہی ہمیں خدا واسطے کا بیر ہے۔ اور اگر کوئی اس کا بیڑا بھی اٹھاتا ہے تو مدرسے کے علما شد و مد سے اس کی مخالفت اور فتوی جاری کر دیتے ہیں۔
نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے
 
Top