سونم کپور کی فلم ”نیرجا“ کی پاکستان میں نمائش پر پابندی

یاز

محفلین
بھارتی فلم ”تیرے بن لادن“ سنہ 2010 میں اسی وجہ سے بین کی گئی تھی کہ اس میں اسامہ بن لادن کو مبینہ طور پر پاکستان میں موجود بتلایاگیا تھا اور اسکی پیروڈی بنائی گئی تھی۔ اور اگلے ہی سال موصوف پاکستان میں امریکیوں کے ہاتھوں "شہید" ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
المیہ عظیم یہ ہے کہ پوری دنیا میں ایک مخلوق ایسی بھی ہے جو ابھی بھی یقین رکھتی ہے کہ اسامہ بن لادن نام کی چیز کا وجود ہی نہیں تھا، یا وہ ایبٹ آباد میں موجود نہیں تھا۔ یہ سب پاکستان کو بدنام کرنے کی یہودی و ہندو و فلاں فلاں لابی کی سازشیں ہیں۔

لال مسجد والے مولوی کو بھی نہیں؟
دہشت گردوں کا سب سے بڑا ہمدرد تو پاکستان کا وزیر داخلہ ہے جو اپنے ہی شہراسلام آباد میں موجود طالبان کے ہمنوا لال مسجد مُلاء ٹولے کیخلاف کوئی کاروائی نہیں کر سکتا۔

وزیرِ داخلہ کا کیا قصور ہے جناب۔ اس کے تو اپنے پر جلتے ہیں اس ضمن میں۔

پاکستانی آئین میں 1956 میں پہلی بار بذریعہ قرارداد مقاصد اسلام داخل کیا گیا تھا۔ پھر 1974 میں اینٹی قادیانی قوانین کے ساتھ مزید اسلام نافظ کیا گیا۔ 1979 میں حدود آرڈیننس اور1984 میں اینٹی قادیانی آرڈیننس 20 کے ذریعہ شریعت کے نفاذ کو یقینی بنایا گیا۔
لیکن مولویوں کیلئے یہ سب کافی نہیں تھا۔ 2009 میں پاکستانی حکومت نے مالاکنڈ ڈیوژن میں نفاذ شریعت محمدی اور طالبان جنگجوؤں کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے نظام عدل ریگولوشن نافظ کر دیا۔ اب یہی نظام مولوی حضرات بالخصوص لال مسجد والےپورے پاکستان میں نافظ کر نا چاہتے ہیں۔

1956 سے بھی کہیں پہلے 1949 میں ہی پاکستان کو قرادادِ مقاصد کا تڑکا لگا دیا گیا تھا، تا کہ نوزائیدہ ریاست کو اس کی راہ سے ہٹانے میں زیادہ تاخیر نہ ہو۔ مزید بدبختی یہ کہ ہمیں اس بدبختی کا احساس آج بھی نہیں۔ قراردادِ مقاصد کے لانے والے آج بھی ہمارے "ہیروز" کہلاتے ہیں۔
ویسے مجھے اسلامی نظام اور اسلامی بینکاری کی اصطلاحات آج تک ہضم نہیں ہوئیں۔ (اس کے علاوہ ایک اور ٹرمنالوجی اسلامک شہد ہے،جو جا بجا بِکتاپھرتا ہے۔ یہ بھی ہضم نہیں ہوا)۔
 
آخری تدوین:
اسلامی بنکاری اور اسلامی نظام دونوں کے دونوں ملاء ٹولے کی ذاتی خواہشات کی پیرو اور تکمیل کی مہم کا نام ہے۔

اگر اسلامی بناکاری نظام ( جی جان بوجھ کر لکھا ہے بنا کاری نظام) کی جگہ درست اسلامی ٹیکسیشن کا نظام لایا جائے تو 20 فی صد ٹیکس ، کسی بھی بڑھوتری پر لازم ۔۔ اس سے تو سارے زمینداروں کے کالے پیسے پر حرف آتا ہے تو پھر ایسا ہو ہی کیسے سکتا ہے۔ اس کے لئے ملاء ٹولہ اسلامی بنا کاری نظام کا نعرہ لگاتا ہے۔

اور اسلامی نظام کی آڑ میں یہ سب ملاء ٹولے فرد واحد کی حکومت چاہتے ہیں کہ بامی مشورے سے فیصلے کی حکومت میں ان کی دال نہیں گلتی ۔۔۔ اس لئے جمہوریت کو اسلامی نہیں مانتے
 
مولویوں کو گالیاں دینے سے کچھ حاصل نہیں
لال مسجد والے مولوی کو بھی نہیں؟
(بسم اللہ الرحمٰن الرحیم)
زبان کا بے ہودہ اور غلط استعمال گالی کہلاتا ہے ۔ اسلام میں بد زبانی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ لیکن ہمارے سماج ( Society) میں اس کا استعمال ایسے ہے جیسے لوگوں نے فحش گوئی میں پی ایچ ڈی ( Ph.D) کی ہو ۔ کچھ افراد طیش میں آکر خود کو گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں ۔ زبان درازی بہت ہی بری عادت ہے اور اکثر ، لڑائی کا باعث بنتی ہے جبکہ اسلام نے ہمیں اچھی بات کہنے اور ناجائز گفتگو نہ کرنے کا حکم دیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے تو معبودانِ باطلہ کو بھی گالی دینے سے منع فرمایا ہے ۔ الرحمن فرماتے ہیں : ’’ اور وہ ( مشرکین ) اللہ کو چھوڑ کر جنھیں پکارتے ہیں ، تم انھیں گالی نہ دو ، پھر وہ بھی جہالت میں حد سے گزرتے ہوئے اللہ کو گالی دیں گے ‘‘ ، ( الانعام : ۱۰۸ ) ۔ لیکن کچھ بد بخت اﷲ پاک کو گالیاں دینے سے نہیں گھبراتے ۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہؓ روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ ابن آدم مجھے گالی دیتا ہے حالانکہ اسے زیبا نہیں کہ مجھے گالی دے ۔ اور میری تکذیب کرتا ہے حالانکہ اسے لائق نہیں ( کہ میری تکذیب کرے ) ‘‘ ۔ اس کا مجھے گالی دینا تو اس کا یہ کہنا ہے کہ : ’’ میری اولاد ہے ‘‘ ۔ اور اس کا میری تکذیب کرنا اس کا یہ کہنا ہے کہ : ’’ اللہ تعالیٰ دوبارہ مجھے زندہ نہیں کرے گا جس طرح اس نے مجھے پہلے پیدا کیا تھا ‘‘ ، ( بخاری : ۳۱۹۳ ) ۔ اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، الرحمن فرماتے ہیں کہ : ’’ ابن آدم ! مجھے تکلیف پہنچاتا ہے ۔ وہ زمانے کو برا بھلا کہتا ہے ، حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں ۔ میرے ہی ہاتھ میں تمام معاملات ہیں ۔ رات اور دن کو میں ہی پھیرتا ہوں ‘‘ ، ( بخاری : ۲۶ ۴۸ ) ۔ جھوٹے خداوں کا انکار ضروری ہے اور انہیں گالی دینا ٹھیک نہیں ۔
شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے جو اسے گمراہ کرنے کے لیے متعدد جال بچھاتا ہے ، لیکن ابلیس کو بھی گالی دینا جائز نہیں ۔ ہاں ! اس سے اﷲ کی پناہ مانگنی چاہیے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : ’’ اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اﷲ کی پناہ طلب کرو ۔ یقیناًوہ بہت ہی سننے والا جاننے والا ہے ‘‘ ، ( حم السجدۃ : ۳۶ ) ۔
ہنسی آتی ہے مجھے حضرت انسان پر کار بد تو خود کرے ، لعنت کرے شیطان پر
رسول اﷲ ﷺ نے بد کلامی کرنے والے کو آگا ہ فرمادیا ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ مسلمان کو گالی دینا فسق ( گناہ ) ہے اور اس کو قتل کرنا کفر ہے ‘‘ ، ( بخاری : ۶۰۴۴ ) ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’ چار باتیں ایسی ہیں کہ وہ جس کے اندر ہوں وہ خالص منافق ہے یا چار خصلتوں میں سے اگر ایک خصلت بھی ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ اس سے باز آ جائے ، جب بات کرے تو جھوٹ بولے ۔ جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے ۔ جب معاہدہ کرے تو بے وفائی کرے ۔ اور جب کسی سے جھگڑا کرے تو بد زبانی کرے ‘‘ ، ( بخاری : ۲۴۵۹ ) ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ سید المرسلین ﷺ نے فرمایا : ’’ آدمی کا اپنے والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ‘‘ ۔ (صحابہؓ ) کہنے لگے : ’’ اے اللہ کے رسول ﷺ ! کیا کوئی آدمی اپنے والدین کو گالی دیتا ہے ؟ ‘‘ فرمایا : ’’ ہاں ! انسان کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے ۔ جب یہ کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے ‘‘ ، ( مسلم : ۲۶۳ ) ۔ ہمیں گالی گلوچ کی بجائے سنتِ نبوی ﷺ کو عام کرنا چاہیے ۔
گالی گلوچ کا ماحول اس قدر گرم ہے کہ اخلاقیات کا جنازہ نکلا ہوا ہے ۔ جاہل تو جاہل ! پڑھے لکھے بھی بد کلامی کے بغیر بات کرنا بے لطف سمجھتے ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھی جنہیں کلمہ تو شاید ( Probably ) نہ آتا ہو لیکن گالیوں میں بیچلر ( Bachelor) کیا ہوتا ہے ۔ اس میں بچوں کا بھی کوئی کمال نہیں یہ سب والدین کی محنت کا ثمر ہے ۔ بچارے ! والدین کی بھی مجبوری ہے ، اگر بد زبانی نہ کریں تو شیطان ناراض ہو جائے گا ۔ میرے بھائیوں ! ایک طرف شیطان ہے اور دوسری طرف رحمن ۔ ابلیس کہتا ہے : ’’ گالیاں دو ! ‘‘ اور اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اچھی بات کرو ‘‘ ۔ آپ کس کو راضی کرنا چاہتے ہیں ؟​
1947 میں پاکستانی اقلیتیں کل آبادی کا 23 فیصد تھیں۔ آج 3 فیصد ہیں۔ ماشاءاللہ۔
شیطان اور اس کے حواریوں کی کوششوں کے باوجود اللہ تعالیٰ حق کو ہی غالب کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:"وقل جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا
اور فرما دیجئے: حق آگیا اور باطل بھاگ گیا، بیشک باطل نے زائل و نابود ہی ہو جانا ہے۔"
 

arifkarim

معطل
المیہ عظیم یہ ہے کہ پوری دنیا میں ایک مخلوق ایسی بھی ہے جو ابھی بھی یقین رکھتی ہے کہ اسامہ بن لادن نام کی چیز کا وجود ہی نہیں تھا، یا وہ ایبٹ آباد میں موجود نہیں تھا۔ یہ سب پاکستان کو بدنام کرنے کی یہودی و ہندو و فلاں فلاں لابی کی سازشیں ہیں۔
جب جنات، ہمزاد،مؤکلات وغیرہ پر یقین کرنا معمول کی بات ہے تو یہ اسامہ کس کھیت کی مولی ہے۔

ویسے مجھے اسلامی نظام اور اسلامی بینکاری کی اصطلاحات آج تک ہضم نہیں ہوئیں۔ (اس کے علاوہ ایک اور ٹرمنالوجی اسلامک شہد ہے،جو جا بجا بِکتاپھرتا ہے۔ یہ بھی ہضم نہیں ہوا)۔
اسلامی موسیقی، اسلامی سنگیت وغیرہ بھی ہضم نہیں ہونا۔

اسلامی بنکاری اور اسلامی نظام دونوں کے دونوں ملاء ٹولے کی ذاتی خواہشات کی پیرو اور تکمیل کی مہم کا نام ہے۔
پاکستان میں یہ سب کچھ ضیاء کے دور میں آزمایا جا چکا ہے اور نتائج صفر۔

اور اسلامی نظام کی آڑ میں یہ سب ملاء ٹولے فرد واحد کی حکومت چاہتے ہیں کہ بامی مشورے سے فیصلے کی حکومت میں ان کی دال نہیں گلتی ۔۔۔ اس لئے جمہوریت کو اسلامی نہیں مانتے
اسلامی نظریاتی کونسل میں مچنے والے حالیہ دنگل کے بعد اس نام نہاد جمہوری کونسل کی اصلیت بھی کھل کر عوام کے سامنے آگئی تھی۔

شیطان اور اس کے حواریوں کی کوششوں کے باوجود اللہ تعالیٰ حق کو ہی غالب کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:"وقل جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا
یہ کیسا حق ہے جو اقلیتوں کی آبادی ہی ختم کر دیتا ہے۔
 

زیک

مسافر
بحث کچھ عجب رخ جا رہی ہے۔ یہ فلموں کا زمرہ ہے لہذا فلم ہی کے حوالے سے بات ہو تو اچھا ہے۔ پاکستان کے تمام مسائل اس لڑی میں حل نہیں ہو سکتے۔
 
زیک درست کہتا ہے۔ یہ فلم کچھ ایسی تھی اور پھر اس پر پابندی کا نتیجہ یہ نکلا کہ طرح طرح کے تار و ستار بجنے لگے ۔ واپس فلمی دنیا میں چلتے ہیں ۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top