مہوش علی
لائبریرین
میں کوئی تبصرہ نہیں کر رہی، مگر اس آرٹیکل کو پڑھیں۔
نوبل انعام یافتہ ناول نگار جارج آرویل اپنے شہرہ آفاق ناول ’اینیمل فارم‘ کے بارے میں خود لکھتے ہیں کہ اگرچہ ان کی اس تحریر کا اطلاق روس پر ہوتا ہے لیکن اس کا اطلاق کہیں بڑے پیمانے پر بھی کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے درست ہی کہا تھا، کیوں کہ پاکستان سمیت کم و بیش تمام ہی پسماندہ اور ترقی پذیر ریاستوں کے حالات اور انہیں چلانے والوں کے کردار اس ناول کے کرداروں سے ملتے جلتے نظر آتے ہیں۔
جارج آرویل کا یہ ناول اب سے پیسنٹھ برس قبل شائع ہوا تھا۔
ناول کا ایک کردار ’سکیولر‘ خاص طور پر دلچسپ اور معنی خیز ہے۔ اس کردار کا کام حکمرانوں کے کاموں کی وضاحت، تشہیر اور حکومت کی منشا کے مطابق عوام کواطلاعات فراہم کرنا ہے۔
اردو میں اس شہرہ آفاق ناول کا ترجمہ جانورستان کے نام سے بھی کیا گیا ہے۔
کہانی کے مطابق جب ’اینیمل فارم‘ یا مویشی خانہ سے جانور انسانوں کو بے دخل کر کے اپنا راج قائم کرتے ہیں تو اقتدار سوّروں پر مشتمل ایک نئے بالادست طبقے کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔اسی بالادست طبقے کا ایک چرب زبان رکن ’سیکولر‘ ہے جو نئے آقاؤں کےلیے وہی کام کرتا ہے جو کسی مملکت میں عمومی طور پر وزارتِ اطلاعات کے حصے میں آتا ہے۔
’سیکولر‘ اپنے نئے آقا کی ناانصافی اور ظلم پر مبنی ہر اقدام کو جھوٹ اور دھوکے کا سہارا لے کر عوام کے سامنے اچھے کاموں کے طور پر پیش کرتا ہے کیونکہ اُس کے بارے میں عمومی رائے تھی کہ وہ ’سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ‘ بنا کر پیش کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
‘اینیمل فارم‘میں انقلاب کے بعد گایوں سے دوہا جانے والا دودھ اور درختوں سے گرنے والے سیب جب عام جانوروں کی امیدوں اور توقع کے برعکس صرف بالادست طبقے یعنی سوّروں کے کھانے کے لیے مختص کر لیے جاتے ہیں تو جانوروں میں بے چینی پیدا ہوتی ہے اور ’سیکولر‘ کو وضاحت کے لیے بھیجا جاتا ہے ۔
’سیکولر‘ جا کر تمام جانوروں کو بتایا کہ چونکہ سوّر دماغی کام کرتے ہیں اس لیے یہ خوراک ان کے لیے ضروری ہے تا کہ وہ باقی تمام جانوروں کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچ سکیں اور انہیں انسانوں کی دوبارہ بالا دستی سے محفوظ رکھ سکیں۔
اس طرح ’سیکولر‘ نے یہ باور کرایا کہ دودھ اور سیب کا سوّروں کی خوراک بننے کا اصل فائدہ عام جانوروں کو ہی ہوگا۔
’اینیمل فارم‘ میں حکمران سوّر نپولین اپنے دیرینہ ساتھی اور اقتدار کی منتقلی کے بعد اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والے سوّر سنوبال کو ملک سے بھگا دینے کے بعد اسی کا بنایا ہوا ’ونڈ مل‘ کا منصوبہ شروع کرنا چاہتا ہے، حالانکہ پہلے سنوبال کو غلط ثابت کرنے کے لیے وہ اس منصوبے پر عملاً پیشاب کرچکا ہوتا ہے۔
’اینیمل فارم‘ کی کہانی میں نپولین کی اس قلابازی پر ’سکیولر‘ یہ کہہ کر پردہ ڈالتا ہے کہ دراصل ونڈ مل کا منصوبہ نیپولین ہی کا تھا لیکن چونکہ سنوبال جیسے فارم دشمن سے چھٹکارا پانا ضروری تھا اس لیے اس سے اس منصوبے کی مخالفت کی گئی تھی۔ سکیولر نے اسے بھی اپنے آقا نپولین ہی کی ایک حکمت عملی قرار ددیتا ہے۔
انقلاب کے وقت سنوبال نے انسانوں سے جنگ میں بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کیا تھا اور اسے ہیرو درجہ اول کا خطاب دیا گیا تھا۔ لیکن سنوبال کو خونخوار کتوں کی مدد سے بھگانے کے بعد اس کی بہادری کو سکیولر ایک سازشی تھیوری کے طور پر پیش کرتا ہے اورکہتا ہے کہ وہ انسانوں کا ایجنٹ تھا اور اس نے جانوروں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے جنگ میں شجاعت کا کھیل رچایا تھا۔
اس کے اس بیان پر جب ایک سادہ لوح اور جفاکش محنتی گھوڑا ’باکسر‘ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ سنوبال تو اس وقت زخمی ہوگیا تھا تو جواب ملتا ہے کہ اس کا زخمی ہونا بھی کھیل کا حصہ تھا۔
ناول میں حکمرانوں کی تبدیلی کے بعد مویشی باڑے میں ہونے والے ہر غلط کام کا ذمہ دار مفرور سنوبال قرار دیا جاتا ہے جن میں ونڈ مل کی تباہی سے لے کر گایوں کے خواب میں آ کر ان کا دودھ دھو لینے تک کا الزام بھی شامل ہوتے ہیں۔
’اینیمل فارم‘میں جو سات اصول، جنہیں تمثیلی طور پر آئین کے طور پر پیش کیاجاتا ہے، وہ بتدریج کمال ہنرمندی سے تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس اصول کو کہ تمام جانور برابر ہیں، ترمیم کر کے اس طرح کردیا جاتا ہے کہ ’تمام جانور برابر ہیں لیکن چند جانور دوسروں سے زیادہ برابر ہیں‘۔
اسی طرح یہ اصول میں کہ ’ کوئی جانور دوسرے جانورکو ہلاک نہیں کرے گا‘ میں ایک لفظ ’بلا جواز‘ کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔
اسی طرح عام جانور دیکھتے ہیں کہ سوّروں نے بستروں پر سونا شروع کر دیا ہے تو وہ حیران ہوتے ہیں اور اس بارے میں بنیادی اصول پڑھنے کے لیے جاتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ اس اصول کو کہ ’کوئی جانور بستر پر نہیں سوئے گا‘ ترمیم کر کے ’کوئی جانور بستر پر چادر بچھا کر نہیں سوئے گا‘ کر دیا جا تا ہے۔
اشاعت کے پچاس برس بعد ڈبلیو ایچ سمتھ اور پینگوئن بکس کا سنیچری ایوارڈ پانے والے ناول ’اینیمل فارم‘ کے مصنف نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ ضروری نہیں کہ حکمرانوں کی تبدیلی سے عوام کے حالات میں بہتری آئے بلکہ حالات پہلے سے بھی خراب ہوسکتے ہیں۔
خود جارج آرویل اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ پرتشدد سازش پر مبنی انقلاب جس کی قیادت اقتدار کے بھوکے کر رہے ہوں اس سے صرف آقاؤں کی تبدیلی ہی ممکن ہے۔
بشکریہ بی بی سی
نوبل انعام یافتہ ناول نگار جارج آرویل اپنے شہرہ آفاق ناول ’اینیمل فارم‘ کے بارے میں خود لکھتے ہیں کہ اگرچہ ان کی اس تحریر کا اطلاق روس پر ہوتا ہے لیکن اس کا اطلاق کہیں بڑے پیمانے پر بھی کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے درست ہی کہا تھا، کیوں کہ پاکستان سمیت کم و بیش تمام ہی پسماندہ اور ترقی پذیر ریاستوں کے حالات اور انہیں چلانے والوں کے کردار اس ناول کے کرداروں سے ملتے جلتے نظر آتے ہیں۔
جارج آرویل کا یہ ناول اب سے پیسنٹھ برس قبل شائع ہوا تھا۔
ناول کا ایک کردار ’سکیولر‘ خاص طور پر دلچسپ اور معنی خیز ہے۔ اس کردار کا کام حکمرانوں کے کاموں کی وضاحت، تشہیر اور حکومت کی منشا کے مطابق عوام کواطلاعات فراہم کرنا ہے۔
اردو میں اس شہرہ آفاق ناول کا ترجمہ جانورستان کے نام سے بھی کیا گیا ہے۔
کہانی کے مطابق جب ’اینیمل فارم‘ یا مویشی خانہ سے جانور انسانوں کو بے دخل کر کے اپنا راج قائم کرتے ہیں تو اقتدار سوّروں پر مشتمل ایک نئے بالادست طبقے کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔اسی بالادست طبقے کا ایک چرب زبان رکن ’سیکولر‘ ہے جو نئے آقاؤں کےلیے وہی کام کرتا ہے جو کسی مملکت میں عمومی طور پر وزارتِ اطلاعات کے حصے میں آتا ہے۔
’سیکولر‘ اپنے نئے آقا کی ناانصافی اور ظلم پر مبنی ہر اقدام کو جھوٹ اور دھوکے کا سہارا لے کر عوام کے سامنے اچھے کاموں کے طور پر پیش کرتا ہے کیونکہ اُس کے بارے میں عمومی رائے تھی کہ وہ ’سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ‘ بنا کر پیش کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
‘اینیمل فارم‘میں انقلاب کے بعد گایوں سے دوہا جانے والا دودھ اور درختوں سے گرنے والے سیب جب عام جانوروں کی امیدوں اور توقع کے برعکس صرف بالادست طبقے یعنی سوّروں کے کھانے کے لیے مختص کر لیے جاتے ہیں تو جانوروں میں بے چینی پیدا ہوتی ہے اور ’سیکولر‘ کو وضاحت کے لیے بھیجا جاتا ہے ۔
’سیکولر‘ جا کر تمام جانوروں کو بتایا کہ چونکہ سوّر دماغی کام کرتے ہیں اس لیے یہ خوراک ان کے لیے ضروری ہے تا کہ وہ باقی تمام جانوروں کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچ سکیں اور انہیں انسانوں کی دوبارہ بالا دستی سے محفوظ رکھ سکیں۔
اس طرح ’سیکولر‘ نے یہ باور کرایا کہ دودھ اور سیب کا سوّروں کی خوراک بننے کا اصل فائدہ عام جانوروں کو ہی ہوگا۔
’اینیمل فارم‘ میں حکمران سوّر نپولین اپنے دیرینہ ساتھی اور اقتدار کی منتقلی کے بعد اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والے سوّر سنوبال کو ملک سے بھگا دینے کے بعد اسی کا بنایا ہوا ’ونڈ مل‘ کا منصوبہ شروع کرنا چاہتا ہے، حالانکہ پہلے سنوبال کو غلط ثابت کرنے کے لیے وہ اس منصوبے پر عملاً پیشاب کرچکا ہوتا ہے۔
’اینیمل فارم‘ کی کہانی میں نپولین کی اس قلابازی پر ’سکیولر‘ یہ کہہ کر پردہ ڈالتا ہے کہ دراصل ونڈ مل کا منصوبہ نیپولین ہی کا تھا لیکن چونکہ سنوبال جیسے فارم دشمن سے چھٹکارا پانا ضروری تھا اس لیے اس سے اس منصوبے کی مخالفت کی گئی تھی۔ سکیولر نے اسے بھی اپنے آقا نپولین ہی کی ایک حکمت عملی قرار ددیتا ہے۔
انقلاب کے وقت سنوبال نے انسانوں سے جنگ میں بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کیا تھا اور اسے ہیرو درجہ اول کا خطاب دیا گیا تھا۔ لیکن سنوبال کو خونخوار کتوں کی مدد سے بھگانے کے بعد اس کی بہادری کو سکیولر ایک سازشی تھیوری کے طور پر پیش کرتا ہے اورکہتا ہے کہ وہ انسانوں کا ایجنٹ تھا اور اس نے جانوروں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے جنگ میں شجاعت کا کھیل رچایا تھا۔
اس کے اس بیان پر جب ایک سادہ لوح اور جفاکش محنتی گھوڑا ’باکسر‘ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ سنوبال تو اس وقت زخمی ہوگیا تھا تو جواب ملتا ہے کہ اس کا زخمی ہونا بھی کھیل کا حصہ تھا۔
ناول میں حکمرانوں کی تبدیلی کے بعد مویشی باڑے میں ہونے والے ہر غلط کام کا ذمہ دار مفرور سنوبال قرار دیا جاتا ہے جن میں ونڈ مل کی تباہی سے لے کر گایوں کے خواب میں آ کر ان کا دودھ دھو لینے تک کا الزام بھی شامل ہوتے ہیں۔
’اینیمل فارم‘میں جو سات اصول، جنہیں تمثیلی طور پر آئین کے طور پر پیش کیاجاتا ہے، وہ بتدریج کمال ہنرمندی سے تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس اصول کو کہ تمام جانور برابر ہیں، ترمیم کر کے اس طرح کردیا جاتا ہے کہ ’تمام جانور برابر ہیں لیکن چند جانور دوسروں سے زیادہ برابر ہیں‘۔
اسی طرح یہ اصول میں کہ ’ کوئی جانور دوسرے جانورکو ہلاک نہیں کرے گا‘ میں ایک لفظ ’بلا جواز‘ کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔
اسی طرح عام جانور دیکھتے ہیں کہ سوّروں نے بستروں پر سونا شروع کر دیا ہے تو وہ حیران ہوتے ہیں اور اس بارے میں بنیادی اصول پڑھنے کے لیے جاتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ اس اصول کو کہ ’کوئی جانور بستر پر نہیں سوئے گا‘ ترمیم کر کے ’کوئی جانور بستر پر چادر بچھا کر نہیں سوئے گا‘ کر دیا جا تا ہے۔
اشاعت کے پچاس برس بعد ڈبلیو ایچ سمتھ اور پینگوئن بکس کا سنیچری ایوارڈ پانے والے ناول ’اینیمل فارم‘ کے مصنف نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ ضروری نہیں کہ حکمرانوں کی تبدیلی سے عوام کے حالات میں بہتری آئے بلکہ حالات پہلے سے بھی خراب ہوسکتے ہیں۔
خود جارج آرویل اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ پرتشدد سازش پر مبنی انقلاب جس کی قیادت اقتدار کے بھوکے کر رہے ہوں اس سے صرف آقاؤں کی تبدیلی ہی ممکن ہے۔
بشکریہ بی بی سی