ساحر سوچتا ہوں ۔۔۔

ظفری

لائبریرین

سوچتا ہوں

سوچتا ہوں محبّت سے کنارا کر لوں
دل کو بیگانہ ترغیب و تمنّا کر لوں

سوچتا ہوں کے محبّت ہے جنونِ رسوا
چند بیکار سے بیہودہ خیالوں کا ہجوم
ایک آزاد کو پابند بنانے کی ہوس
ایک بیگانے کے اپنانے کی سی موہوم

سوچتا ہوں کے محبّت ہے سرور و مستی !
اس کی تنویر سے روشن ہے فضائے ہستی

سوچتا ہوں کے محبّت ہے بشر کی فطرت
اس کا مٹ جانا مٹا دینا بہت مشکل ہے
سوچتا ہوں کے محبّت سے ہے تابندہ حیات
اب یہ شمع بُجھا دینا بہت مشکل ہے

سوچتا ہوں کے محبّت پہ کڑی شرطیں ہیں
اس تمدّن میں مسرّت پر کڑی شرطیں ہیں

سوچتا ہوں کے محبّت ہے ایک افسردہ سی لاش
چادرِ عزت و ناموس میں کفنائی ہوئی
دورِ سرمایہ کی روندی ہوئی رسوا ہستی
درگہِ مذہب و اخلاق سے ٹھکرائی ہوئی

سوچتا ہوں کے بشر اور محبّت کا جنوں
ایسے بوسیدہ تمدّن میں ہے اک کارِ زموں

سوچتا ہوں کے محبّت نہ بچے گی زندہ
پیش ازاں وقت کہ سڑ جائے یہ گلتی ہوئی لاش
یہی بہتر ہے کہ بیگانہءِ اُلفت ہوکر !
اپنے سینوں میں کروں جذبہِ نفرت کی تلاش

سوچتا ہوں محبّت سے کنارا کر لوں
دل کو بیگانہ ترغیب و تمنّا کر لوں



ساحر لدھیانوی​
 

پاکستانی

محفلین
بے سود ہے اب کوئی تقاضا اسے کہنا
مل جائے کسی موڑ پہ تنہا اسے کہنا
کل رات بھی لہرائے تھے خوابوں کے پھریرے
آیا اسی عالم میں سویرا اسے کہنا
سب چن لئے موتی مری آنکھوں سے کسی نے
خالی ہے صدب اب لب دریا اسے کہنا
رستہ تیرا تکتے ہوئے پتھرا گئیں آنکھیں
کیا بھول گیا مرا گھر ۔۔۔۔۔۔ اسے کہنا
مقصود ہو جب شہرت جلوہ کی نمائش
ہو گا مری وحشت کا تماشا اسے کہنا
محروم نہ کر اپنی عنایات سے ورنہ
ہے جادہ کعبہ میں کلیسا اسے کہنا
ٕیادوں کے جزیرے میں اگر آگ نہ بھرکی
ناچے گی نہ احساس کی رادھا اسے کہنا
گرنے لگی اس حال میں مٹی بھی چھتوں سے
گھر میں ہے ابابیلوں کا ڈیرہ اسے کہنا
آغاز سے انجام بیاں ہو گیا صابر
اب لب پر نہیں عرضِ تمنا اسے کہنا

‘ریت کی چادر‘ صابر جالندھری
 

فرحت کیانی

لائبریرین
سوچتا ہُوں!!!

سوچتا ہوں محبّت سے کنارا کر لوں
دل کو بیگانہ ترغیب و تمنّا کر لوں

سوچتا ہوں کہ محبّت ہے جنونِ رسوا
چند بیکار سے بیہودہ خیالوں کا ہجوم
ایک آزاد کو پابند بنانے کی ہوس
ایک بیگانے کے اپنانے کی سعیء موہوم

سوچتا ہوں کہ محبّت ہے سرور و مستی !
اس کی تنویر سے روشن ہے فضائے ہستی

سوچتا ہوں کہ محبّت ہے بشر کی فطرت
اس کا مٹ جانا مٹا دینا بہت مشکل ہے
سوچتا ہوں کہ محبّت سے ہے تابندہ حیات
اب یہ شمع بُجھا دینا بہت مشکل ہے

سوچتا ہوں کہ محبّت پہ کڑی شرطیں ہیں
اس تمدّن میں مسرّت پر کڑی شرطیں ہیں

سوچتا ہوں کہ محبّت ہے ایک افسردہ سی لاش
چادرِ عزت و ناموس میں کفنائی ہوئی
دورِ سرمایہ کی روندی ہوئی رسوا ہستی
درگہِ مذہب و اخلاق سے ٹھکرائی ہوئی

سوچتا ہوں کہ بشر اور محبّت کا جنوں
ایسے بوسیدہ تمدّن میں ہے اک کارِ زموں

سوچتا ہوں کہ محبّت نہ بچے گی زندہ
پیش ازاں وقت کہ سڑ جائے یہ گلتی ہوئی لاش
یہی بہتر ہے کہ بیگانہءِ اُلفت ہوکر !
اپنے سینوں میں کروں جذبہِ نفرت کی تلاش

سوچتا ہوں محبّت سے کنارا کر لوں
دل کو بیگانہ ترغیب و تمنّا کر لوں
 

شمشاد

لائبریرین
0008.gif
 

علمدار

محفلین
جناب مجھے نہیں معلوم- اب تو مجھے یہ لگ رہا ہے امجد اسلام امجد نہ ہوں :)
فرحت کیانی خود بتا دیں تو بہت اچھا ہو گا-
 

فرحت کیانی

لائبریرین
آپ سب کی پسندیدگی کا بہت شکریہ :) اورجیسا کہ محب نے کنفرم کر دیا کہ شاعر کام نام ساحر لدھیانوی ہی ہے۔ویسے میں نے موضوع کی تفصیل میں نام لکھا تو تھا لیکن شاید کسی نے غور نہیں کیا :)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم فرحت، بہترین انتخاب !

ایک مصرعہ نہیں سمجھ میں آیا، آغاز سے پانچویں سطر ؟؟
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
معذرت فرحت، غلطی ہوئی اس کے بعد والی سطر یعنی چھٹی سطر

اس کی املا یہی ہے ؟

ایک بیگانے کے اپنانے کی سی موہوم
 

تیشہ

محفلین
فرحت ! کدھر تک پہنچ چکیں ہیں ؟ :)

کوئی اتا پتا نہیں ۔ :? آکسفورڈ پہنچ گئیں ہیں کہ ابھی وہی ہیں ۔ ؟
 

تیشہ

محفلین
سوچتا ہُوں!!!

فرحت کیانی نے کہا:
سوچتا ہوں محبّت سے کنارا کر لوں
دل کو بیگانہ ترغیب و تمنّا کر لوں

سوچتا ہوں کہ محبّت ہے جنونِ رسوا
چند بیکار سے بیہودہ خیالوں کا ہجوم
ایک آزاد کو پابند بنانے کی ہوس
ایک بیگانے کے اپنانے کی سعیء موہوم

سوچتا ہوں کہ محبّت ہے سرور و مستی !
اس کی تنویر سے روشن ہے فضائے ہستی

سوچتا ہوں کہ محبّت ہے بشر کی فطرت
اس کا مٹ جانا مٹا دینا بہت مشکل ہے
سوچتا ہوں کہ محبّت سے ہے تابندہ حیات
اب یہ شمع بُجھا دینا بہت مشکل ہے

سوچتا ہوں کہ محبّت پہ کڑی شرطیں ہیں
اس تمدّن میں مسرّت پر کڑی شرطیں ہیں

سوچتا ہوں کہ محبّت ہے ایک افسردہ سی لاش
چادرِ عزت و ناموس میں کفنائی ہوئی
دورِ سرمایہ کی روندی ہوئی رسوا ہستی
درگہِ مذہب و اخلاق سے ٹھکرائی ہوئی

سوچتا ہوں کہ بشر اور محبّت کا جنوں
ایسے بوسیدہ تمدّن میں ہے اک کارِ زموں

سوچتا ہوں کہ محبّت نہ بچے گی زندہ
پیش ازاں وقت کہ سڑ جائے یہ گلتی ہوئی لاش
یہی بہتر ہے کہ بیگانہءِ اُلفت ہوکر !
اپنے سینوں میں کروں جذبہِ نفرت کی تلاش

سوچتا ہوں محبّت سے کنارا کر لوں
دل کو بیگانہ ترغیب و تمنّا کر لوں


نائس ، ،
 
Top