سوچتا ہوں
سوچتا ہوں محبّت سے کنارا کر لوں
دل کو بیگانہ ترغیب و تمنّا کر لوں
سوچتا ہوں کے محبّت ہے جنونِ رسوا
چند بیکار سے بیہودہ خیالوں کا ہجوم
ایک آزاد کو پابند بنانے کی ہوس
ایک بیگانے کے اپنانے کی سی موہوم
سوچتا ہوں کے محبّت ہے سرور و مستی !
اس کی تنویر سے روشن ہے فضائے ہستی
سوچتا ہوں کے محبّت ہے بشر کی فطرت
اس کا مٹ جانا مٹا دینا بہت مشکل ہے
سوچتا ہوں کے محبّت سے ہے تابندہ حیات
اب یہ شمع بُجھا دینا بہت مشکل ہے
سوچتا ہوں کے محبّت پہ کڑی شرطیں ہیں
اس تمدّن میں مسرّت پر کڑی شرطیں ہیں
سوچتا ہوں کے محبّت ہے ایک افسردہ سی لاش
چادرِ عزت و ناموس میں کفنائی ہوئی
دورِ سرمایہ کی روندی ہوئی رسوا ہستی
درگہِ مذہب و اخلاق سے ٹھکرائی ہوئی
سوچتا ہوں کے بشر اور محبّت کا جنوں
ایسے بوسیدہ تمدّن میں ہے اک کارِ زموں
سوچتا ہوں کے محبّت نہ بچے گی زندہ
پیش ازاں وقت کہ سڑ جائے یہ گلتی ہوئی لاش
یہی بہتر ہے کہ بیگانہءِ اُلفت ہوکر !
اپنے سینوں میں کروں جذبہِ نفرت کی تلاش
سوچتا ہوں محبّت سے کنارا کر لوں
دل کو بیگانہ ترغیب و تمنّا کر لوں
ساحر لدھیانوی