خرم شہزاد خرم
لائبریرین
ہر انسان کے سوچنے کا انداز دوسرے انسان سے بہت مختلف ہوتا ہے کچھ لوگ ہر بات کو مثبت سوچ سے سوچتے ہیں اور کچھ لوگ ہر اچھی بات کو بھی منفی سوچ سے سوچتے ہیں۔ ایک بچی کی ایک تحریر میں میں نے ایک بات پڑھی جس نے مجھے بہت متاثر کیا (دشمن کی فوج کا حملہ تو روکا جا سکتا ہیں لیکن انسان کی سوچ کا حملہ روکنا بہت مشکل ہے) مثال کے طور پر
آج ہی میرے آفس کے ایک دوست نے بہت کمال کا کام کیا تو میں نے ان کو کہا یار آپ تو شیر بندے ہو کیا کمال کیا ہے تو کہنے لگے ارے بھائی شیر تو خونخوار جانور ہے آپ مجھے ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔ آپ سب ہی جانتے ہونگے کے میں نے شیر بہادر کے معنی میں لیا تھا لیکن ان کی سوچ میری سوچ سے کتنی مختلف ہے۔
انسان جو بھی کام کرئے جیسا بھی کرے اس کو اپنی سوچ اچھی رکھنی چاہیے جس سے دوسروں کو فائدہ ہو یا نا ہو لیکن خود کو بہت فائدہ ہو گا جیسے
حضور (ص) کے دور میں حج کے دنوں میں ایک صحابی (ر) نے ایک جگہ پر قلعے گاڑ دیے لیکن دوسرے صحابی(ر) نے وہاں سے ان قلعوں کو نکال دیا اس پر پہلے والے صحابی حضور(ص) کی خدمت میں پیش ہوئے اور شکایت لگائی حضور(ص) نے دونوں کی بات کو سنا پہلے صحابی(ر) نے کہا میں نے اس لیے قلعے لگائے تھے کے جو مسلمان حج کے لیے آئے گے وہ اپنے جانور یہاں پر بندھ دے ۔ دوسرے صحابی (ر) کہا میں نے اس لے نکال دیے تھے کے حج کے دنوں میں مسلمانوں کا رش زیادہ ہو گا یہ نا ہو کے کوئی ان قلعوں سے ٹکرا کر گیر جائے اور زخمی ہو جائے اس پر حضور (ص) نے فرمایا آپ دونوں کی نیت اچھی تھی اس لے دونوں کو ثواب ملے گا اس لے ہمیں بھی یہی سوچ کر کام کرنا چاہے
آج ہی میرے آفس کے ایک دوست نے بہت کمال کا کام کیا تو میں نے ان کو کہا یار آپ تو شیر بندے ہو کیا کمال کیا ہے تو کہنے لگے ارے بھائی شیر تو خونخوار جانور ہے آپ مجھے ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔ آپ سب ہی جانتے ہونگے کے میں نے شیر بہادر کے معنی میں لیا تھا لیکن ان کی سوچ میری سوچ سے کتنی مختلف ہے۔
انسان جو بھی کام کرئے جیسا بھی کرے اس کو اپنی سوچ اچھی رکھنی چاہیے جس سے دوسروں کو فائدہ ہو یا نا ہو لیکن خود کو بہت فائدہ ہو گا جیسے
حضور (ص) کے دور میں حج کے دنوں میں ایک صحابی (ر) نے ایک جگہ پر قلعے گاڑ دیے لیکن دوسرے صحابی(ر) نے وہاں سے ان قلعوں کو نکال دیا اس پر پہلے والے صحابی حضور(ص) کی خدمت میں پیش ہوئے اور شکایت لگائی حضور(ص) نے دونوں کی بات کو سنا پہلے صحابی(ر) نے کہا میں نے اس لیے قلعے لگائے تھے کے جو مسلمان حج کے لیے آئے گے وہ اپنے جانور یہاں پر بندھ دے ۔ دوسرے صحابی (ر) کہا میں نے اس لے نکال دیے تھے کے حج کے دنوں میں مسلمانوں کا رش زیادہ ہو گا یہ نا ہو کے کوئی ان قلعوں سے ٹکرا کر گیر جائے اور زخمی ہو جائے اس پر حضور (ص) نے فرمایا آپ دونوں کی نیت اچھی تھی اس لے دونوں کو ثواب ملے گا اس لے ہمیں بھی یہی سوچ کر کام کرنا چاہے