سياسي اور مغرور چيف جسٹس

qaral

محفلین
ہمت علی جب کوئی شخص ایک لیٍڈر بنتاہے تواس کی نجی زندگی کا ہر پہلو عوام کے سامنے کھلنا لازمی ہوتاھے امریکہ اور برطانیہ میں تو لوگ تیس تیس سال

کے پرانے سیکنڈل کےمنظر عام پر آنے سے پورا کیرئیر ہار دیتے ہیں( پھر اس کی شادی بھی عام شادی نہیں تھی) عام شادی ناکام ہو تو بڑی بات بھی نہیں ھوتی ویسے

بھی میں نے ان کی شادی کے متعلق تو کچھ کہا بھی نھیں( اھم بات یہ ہے کہ وہ اب طویل عرصہ سیاست میں گزارچکے ہیں اور اب منچھے ہوئے پارلیمنٹیرین سمچھے جاتے ہیں۔) اتنا زیادہ عرصہ سیاست میں گزارنے کے بعد بھی وہ ون مین شو ہیں یعنی ان کے جوڑ کا

ان کی پارٹی میں کوئی نھیں وہ کسی مظبوط بندے کو اپنی پارٹی میں شامل نہیں کرتے تا کہ جو چا ہے کر سکیں ( نہ صرف یہ کہ وہ ہمارے دل کی اواز پارلیمنٹ میں اٹھاتے ہیں) یہ تو ہر کوئی کرتا ہے جب وہ اپوزیشن میں ہو.(شوکت خانم اسپتال ، کالح) پھر تو ایدھی کو وزیر اعظم ھونا چاہیئے.

عمران کا ماضی اسے پلے بوائے ژابت کرتا ھے اور لآکھوں لوگوں میں کوئی ایک بندہ خود کو بدلتا ھے اور عمران وہ بندہ نھیں پہلے وہ لڑکیوں سے کھیلتا تھا یب آپ

جیسے بیوقوفوں سے کھیل رہا ہے( فطرت نمی تبدیل شود) انسانی فطرت کھبی تبدیل نھیں ھوتی
 

مہوش علی

لائبریرین
چیف جسٹس کے مغرور سیاسی شخصیت کے متعلق جو باتیں قیصرانی بھائی نے بہت پہلے کہیں تھیں، اب میڈیا بھی آہستہ آہستہ انہیں سامنے لانے لگا ہے۔

آج کے جنگ اخبار میں نذیر ناجی کا کالم


میں نہیں مانتا ,,,,سویرے سویرے…نذیر ناجی

آج کے اخبارات دیکھ کر یوں لگا، جیسے کسی نے پاکستان اس کے اداروں اور معزز شخصیات کو بدنام کرنے کے لئے جعلی ایڈیشن چھاپ دیئے ہیں۔ جو خبر بھی پڑھتا، اس پر یقین نہیں آرہا تھا۔ مثلاً خبر تھی کہ وفاقی وزیر قانون جناب وصی ظفر نے پارلیمینٹ کے باہر احتجاج کرتے صحافیوں کے قریب آکراپنی گاڑی کے شیشے اتارے اور انہیں فحش اشارے کئے۔ بعد میں اپوزیشن کے اراکین نے باہر آکر بتایا کہ وزیر قانون نے ایوان کے اندر صحافیوں کو غنڈے اور بدمعاش کہا۔ ایک اور خبر کے مطابق اعتزاز احسن نے حکومت پر الزام لگایا کہ اس کی طرف سے ریفرنس کیس میں جو بیان حلفی داخل کئے گئے، ان میں جعل سازی کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ انکشافات صدر کے چیف آف اسٹاف اور ڈی جی ایم آئی کی طرف سے حلفی بیانات میں کئے گئے۔ جن میں چیف جسٹس پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے صدر کے ساتھ ملاقات کے لئے خود اصرار کیا جبکہ چیف جسٹس کے وکلاء کا موقف یہ رہا ہے کہ انہیں آرمی ہاؤس میں طلب کیا گیا تھا۔ حلفی بیانات سے یہ بھی واضح ہوا کہ چیف جسٹس نے صدر کے ساتھ اپنی ملاقات آرمی ہاؤس میں ظاہر کی تھی جبکہ حلفی بیانات کے مطابق یہ ملاقات صدر کے کیمپ آفس میں ہوئی۔ صدر کے چیف آف اسٹاف کے بیان میں چیف جسٹس آف پاکستان کے بیان کردہ واقعات میں سے بیشتر کو غلط قرار دیا گیا ہے اور اس کے بعد اسلامی جمہوریہ ٴ پاکستان کے منصف اعلیٰ کے ذاتی کردار کے حوالے سے جو باتیں سامنے لائی گئی ہیں، ان پر تو بالکل یقین نہیں آتا۔ مثلاً یہ کہ انہوں نے کراچی میں ایک ایسا پلاٹ حاصل کیا، جسے اپنے نام الاٹ کرانے کے وہ اہل نہیں تھے۔ اس سے پہلے اسلام آباد میں بھی وہ ایک پلاٹ الاٹ کرا چکے تھے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کار نمبر CIA-9ہونڈاا کارڈ میں ڈالے گئے پٹرول کے کلیم بھیج کر لاکھوں روپے وصول کئے۔ انہوں نے یہ وصولی ان رسیدوں کی بنیاد پر کی، جو سمنگلی روڈ کوئٹہ پر عبد اللہ اینڈ سنز کے شیل پمپ کی جانب سے جاری کی گئیں۔ اگلا جملہ پڑھتے ہوئے خوف آگیا۔ لکھنے کو دل نہیں چاہتا۔ چونکہ یہ سپریم کورٹ کاریکارڈبن چکا ہے، اس لئے دل پر پتھر رکھ کر چیف جسٹس آف پاکستان پرلگایا گیا یہ الزام نقل کرنے پر مجبور ہوں کہ ”یہ تمام رسیدیں جعلی ہیں کیونکہ اس عرصے کے دوران یہ پٹرول پمپ صرف ڈیزل فروخت کرتا تھا، نہ کہ پٹرول۔ یہ رقم چیف جسٹس آف پاکستان نے جعلی رسیدوں کی بنیاد پر وصول کی۔ کار نمبر CIA-9ہونڈا اکارڈ دراصل کوئٹہ میں نہیں، بلکہ اسلام آباد میں چیف جسٹس آف پاکستان کی فیملی کار کے طور پر زیر استعمال تھی۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار، جو خود سرکاری ملازم ہیں اور ایک ہونڈا اکارڈ کار نمبر CIA-2لاہورمیں استعمال کر رہے تھے۔اس گاڑی کے لئے بھی پٹرول کی رقم سپریم کورٹ کی جانب سے ادا کی جا رہی تھی۔ ڈاکٹر ارسلان کوئنز روڈ لاہور میں واقع کالٹیکس پٹرول پمپ سے سپریم کورٹ کے کوپن پر پٹرول حاصل کرتے رہے۔ یقین نہیں آرہا کہ پاکستان میں ہائیکورٹ کے ججوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک ہو سکتا ہے، جو بیان حلفی میں بتایا گیا؟ اس کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان نے لاہور ہائیکورٹ کے شیخ اختر شبیر اور جسٹس عبدالرشید کو زبانی حکم دیا کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ تک عدالت میں نہ آئیں۔ جسٹس شیخ عبد الرشید اس پر عمل کرتے ہوئے اپنی ریٹائرمنٹ تک دفتر نہیں آئے۔ ایک اورالزام کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان نے ہائیکورٹ کے بہت سے ججوں کے خلاف بلا امتیاز کردار کشی کی مہم شروع کی۔ چیف جسٹس آف پاکستان لاہور ہائیکورٹ، سندھ ہائیکورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کے بہت سے ججوں کے خلاف غلط طرز عمل کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی شروع کرنا چاہتے تھے۔ تاہم وفاق کو ان سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ ججوں کی تقرری کے معاملے میں بھی پاکستانی عدلیہ میں جن واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا، وہ بھی حیرت انگیز ہیں۔ الزام ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان آئینی مشیروں کی سفارشات سے قطع نظر اپنی پسند کے ججوں کے تقرر پر اصرار کرتے۔ جس سے ایک تعطل پیدا ہوگیا اور پنجاب اور بلوچستان ہائی کورٹس میں بہت سی پوسٹیں خالی رہ گئیں اور ان عدالتوں کے کام میں حرج ہوا۔ اس کی وجہ سے لاہور ہائیکورٹ میں 17اور بلوچستان میں 3ججوں کی کمی ہے۔ اس الزام کے برعکس چیف جسٹس آف پاکستان کے وکلاء کا موقف ہے کہ وہ جلد انصاف فراہم کرنے کے حامی ہیں جبکہ ہائی کورٹوں میں ججوں کی بیس اسامیاں محض ذاتی وجوہ کی بنا پر خالی رکھنے کا الزام اگر درست ہے تومندرجہ بالا دعویٰ محل نظر ہوجاتا ہے۔ اسی طرح یہ الزام بھی انصاف کی جلد فراہمی کے دعوے سے مطابقت نہیں رکھتا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ہائیکورٹ کے جج جسٹس نسیم سکندر پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنی نامزدگی واپس لیں جبکہ فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ان کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری ہو چکا تھا۔ نتیجے میں فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس کا عہدہ کافی عرصے تک خالی رہا۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس جناب جسٹس حاذق الخیری کے تقرر کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے ان پر اپنی پسند کے ججوں کے تقرر کے لئے دباؤ ڈالا۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس نے یہ ماننے سے انکارکردیا اور مستعفی ہونے کی دھمکی دی۔ اس طرح چیف جسٹس آپ پاکستان نے ایک تعطل پیدا کیا، جس کے نتیجے میں وفاقی شریعت عدالت کئی ماہ تک نامکمل رہی۔ لاہور، سندھ اور پشاور ہائیکورٹ کے جن ججوں کے خلاف چیف جسٹس آف پاکستان سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کرناچاہتے تھے اورحکومت کے پاس ان ججوں کے خلاف کچھ نہیں تھا، ان کے نام یہ ہیں۔ مسٹر جسٹس عبدالشکور پراچہ، مسٹر جسٹس شبر رضارضوی، مسٹر جسٹس اختر شبیر، مسٹر جسٹس شیخ عبد الرشید، مسٹر جسٹس سرمد جلال عثمانی، مسٹر جسٹس شیر عالم، مسٹر جسٹس عارف حسین خلجی، مسٹر جسٹس امیر ہانی مسلم، مسٹر جسٹس افضل سومرو، مسٹر جسٹس شاہجہان خان، مسٹر جسٹس اعجاز الحسن خان اور مسٹر جسٹس جہانزیب رحیم۔ عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کے ججوں کے کوڈ آف کنڈکٹ میں واضح طور سے درج ہے کہ وہ بلا جواز سماجی سرگرمیوں سے اجتناب کریں گے اور سرکاری حکام سے میل جول نہیں بڑھائیں گے لیکن گزشتہ روز جو بیانات حلفی سپریم کورٹ میں داخل کئے گئے ، ان کی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اعلیٰ سرکاری حکام سے رابطوں اور میل جول کا شوق رکھتے تھے۔ وہ آئی بی کے سربراہ سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ ایم آئی کے چیف سے ملتے رہے۔ حد یہ کہ چیف آف آرمی اسٹاف اور صدر پاکستان کے ساتھ بھی ان کی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ عدالت عظمیٰ میں انصاف کے وہ کون سے تقاضے تھے، جن کی بنا پر چیف جسٹس آف پاکستان کویہ رابطے رکھنا پڑے ؟ اس پردونوں طرف کے وکلاء میں دلائل کا تبادلہ ہونے کا امکان ہے۔ صدر کے ساتھ ہونے والی کل ملاقاتوں میں سے مسٹر جسٹس افتخار چوہدری نے دوملاقاتیں بطورجج اور آٹھ ملاقاتیں چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت میں کیں۔ ان ملاقاتوں کی تفصیل بھی دی گئی ہے، جو 7اکتوبر 2004ء سے 9مارچ 2007ء کے درمیانی عرصے میں کی گئیں۔ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے کی دو ملاقاتوں میں کیا باتیں ہوئیں؟ اس پر بھی عدالت عظمیٰ میں بات ہونے کا امکان ہے اور اگر بات ہوئی تو ایسے انکشافات ہوسکتے ہیں، جن کے تصور ہی سے ڈر لگتا ہے۔ اسی لئے مجھے آج کے اخبارات جعلی معلوم ہوئے اوراس میں شائع ہونے والے انکشافات کو پڑھ کر کہا کہ ”میں نہیں مانتا“۔ (جاری ہے



\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

تو اب بلی (بلیاں) تھیلے سے باہر آ رہی ہیں۔ آگے دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ہمت علی برادر،

آپکے لنک کا مجھے موجودہ بحث سے براہ راست تعلق نظر نہیں آیا اس لیے میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر رہی۔

ساجد بھائی،

ان سب آسمانی صحیفوں کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ تو اب عدالت پر چھوڑتے ہیں، مگر اتنا ضرور ہے کہ اس سے قبل یکطرفہ طور پر فریق مخالف کا موقف جانے بغیر حکومت کو مطعون صرف چیف جسٹس صاحب کے آسمانی صحیفے کی بنیاد پر کیا جا رہا تھا۔

بہرحال یہ بات بالکل درست ہے کہ اب بلیاں تھیلے سے باہر آ رہی ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
خلق خدا کی آواز کو نقارہ خدا سمجھنے کا جس نے بھی یہ اصول وضع کیا ہے میں اُس سے کبھی متفق نہیں رہی۔ ورنہ خلق خدا نے تو بینظیر کو دو دفعہ منتخب کیا اور نواز شریف کو بھی اور آپکے موجودہ چہیتے عمران خان کو کچھ الیکشنز میں شاید ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔

اور عمران خان کی آج آپ لوگ اتنی حمایت میں بول رہے ہیں، مگر کبھی آپ نے گہرائی سے عمران خان کی شخصیت کے متعلق سوچا ہے؟

آج عمران خان مذھبی عناصر سے فلرٹ کر رہے ہیں (بلکہ اس سے زیادہ فلرٹ انہوں نے کسی اور سیاسی جماعت سے نہیں کیا)، مگر کیا آپ یقین رکھتے ہیں کہ عمران خان حکومت میں آنے کے بعد میڈیا میں جو گلیمر آیا ہوا ہے اُس کو بند کر کے بالکل صحیح جگہ پر لے آئیں گے؟

کیا عمران خان نے آج تک میڈیا کے اس گلیمر کے خلاف کوئی آواز اٹھائی ہے؟

اور اگر عمران میڈیا کے بے حیائی پر کوئی احتجاج نہیں کر رہے تو کیا کل آپ لوگ عمران خان کے پیچھے ہاتھ دھو کر نہیں پڑے ہوئے ہوں گے؟

تو فی الحال عمران اور میڈیا کے حوالے سے صرف یہ ایک سوال آپ لوگوں کی خدمت میں کہ آپکے اس چہیتے لیڈر نے ابتک میڈیا کی بے حیائی کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کیا اور سڑکوں پر کیوں نہیں نکلے؟
 
مہوش علی نے کہا:
چیف جسٹس کے مغرور سیاسی شخصیت کے متعلق جو باتیں قیصرانی بھائی نے بہت پہلے کہیں تھیں، اب میڈیا بھی آہستہ آہستہ انہیں سامنے لانے لگا ہے۔

آج کے جنگ اخبار میں نذیر ناجی کا کالم


میں نہیں مانتا ,,,,سویرے سویرے…نذیر ناجی

آج کے اخبارات دیکھ کر یوں لگا، جیسے کسی نے پاکستان اس کے اداروں اور معزز شخصیات کو بدنام کرنے کے لئے جعلی ایڈیشن چھاپ دیئے ہیں۔ جو خبر بھی پڑھتا، اس پر یقین نہیں آرہا تھا۔ مثلاً خبر تھی کہ وفاقی وزیر قانون جناب وصی ظفر نے پارلیمینٹ کے باہر احتجاج کرتے صحافیوں کے قریب آکراپنی گاڑی کے شیشے اتارے اور انہیں فحش اشارے کئے۔ بعد میں اپوزیشن کے اراکین نے باہر آکر بتایا کہ وزیر قانون نے ایوان کے اندر صحافیوں کو غنڈے اور بدمعاش کہا۔ ایک اور خبر کے مطابق اعتزاز احسن نے حکومت پر الزام لگایا کہ اس کی طرف سے ریفرنس کیس میں جو بیان حلفی داخل کئے گئے، ان میں جعل سازی کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ انکشافات صدر کے چیف آف اسٹاف اور ڈی جی ایم آئی کی طرف سے حلفی بیانات میں کئے گئے۔ جن میں چیف جسٹس پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے صدر کے ساتھ ملاقات کے لئے خود اصرار کیا جبکہ چیف جسٹس کے وکلاء کا موقف یہ رہا ہے کہ انہیں آرمی ہاؤس میں طلب کیا گیا تھا۔ حلفی بیانات سے یہ بھی واضح ہوا کہ چیف جسٹس نے صدر کے ساتھ اپنی ملاقات آرمی ہاؤس میں ظاہر کی تھی جبکہ حلفی بیانات کے مطابق یہ ملاقات صدر کے کیمپ آفس میں ہوئی۔ صدر کے چیف آف اسٹاف کے بیان میں چیف جسٹس آف پاکستان کے بیان کردہ واقعات میں سے بیشتر کو غلط قرار دیا گیا ہے اور اس کے بعد اسلامی جمہوریہ ٴ پاکستان کے منصف اعلیٰ کے ذاتی کردار کے حوالے سے جو باتیں سامنے لائی گئی ہیں، ان پر تو بالکل یقین نہیں آتا۔ مثلاً یہ کہ انہوں نے کراچی میں ایک ایسا پلاٹ حاصل کیا، جسے اپنے نام الاٹ کرانے کے وہ اہل نہیں تھے۔ اس سے پہلے اسلام آباد میں بھی وہ ایک پلاٹ الاٹ کرا چکے تھے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کار نمبر CIA-9ہونڈاا کارڈ میں ڈالے گئے پٹرول کے کلیم بھیج کر لاکھوں روپے وصول کئے۔ انہوں نے یہ وصولی ان رسیدوں کی بنیاد پر کی، جو سمنگلی روڈ کوئٹہ پر عبد اللہ اینڈ سنز کے شیل پمپ کی جانب سے جاری کی گئیں۔ اگلا جملہ پڑھتے ہوئے خوف آگیا۔ لکھنے کو دل نہیں چاہتا۔ چونکہ یہ سپریم کورٹ کاریکارڈبن چکا ہے، اس لئے دل پر پتھر رکھ کر چیف جسٹس آف پاکستان پرلگایا گیا یہ الزام نقل کرنے پر مجبور ہوں کہ ”یہ تمام رسیدیں جعلی ہیں کیونکہ اس عرصے کے دوران یہ پٹرول پمپ صرف ڈیزل فروخت کرتا تھا، نہ کہ پٹرول۔ یہ رقم چیف جسٹس آف پاکستان نے جعلی رسیدوں کی بنیاد پر وصول کی۔ کار نمبر CIA-9ہونڈا اکارڈ دراصل کوئٹہ میں نہیں، بلکہ اسلام آباد میں چیف جسٹس آف پاکستان کی فیملی کار کے طور پر زیر استعمال تھی۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار، جو خود سرکاری ملازم ہیں اور ایک ہونڈا اکارڈ کار نمبر CIA-2لاہورمیں استعمال کر رہے تھے۔اس گاڑی کے لئے بھی پٹرول کی رقم سپریم کورٹ کی جانب سے ادا کی جا رہی تھی۔ ڈاکٹر ارسلان کوئنز روڈ لاہور میں واقع کالٹیکس پٹرول پمپ سے سپریم کورٹ کے کوپن پر پٹرول حاصل کرتے رہے۔ یقین نہیں آرہا کہ پاکستان میں ہائیکورٹ کے ججوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک ہو سکتا ہے، جو بیان حلفی میں بتایا گیا؟ اس کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان نے لاہور ہائیکورٹ کے شیخ اختر شبیر اور جسٹس عبدالرشید کو زبانی حکم دیا کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ تک عدالت میں نہ آئیں۔ جسٹس شیخ عبد الرشید اس پر عمل کرتے ہوئے اپنی ریٹائرمنٹ تک دفتر نہیں آئے۔ ایک اورالزام کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان نے ہائیکورٹ کے بہت سے ججوں کے خلاف بلا امتیاز کردار کشی کی مہم شروع کی۔ چیف جسٹس آف پاکستان لاہور ہائیکورٹ، سندھ ہائیکورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کے بہت سے ججوں کے خلاف غلط طرز عمل کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی شروع کرنا چاہتے تھے۔ تاہم وفاق کو ان سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ ججوں کی تقرری کے معاملے میں بھی پاکستانی عدلیہ میں جن واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا، وہ بھی حیرت انگیز ہیں۔ الزام ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان آئینی مشیروں کی سفارشات سے قطع نظر اپنی پسند کے ججوں کے تقرر پر اصرار کرتے۔ جس سے ایک تعطل پیدا ہوگیا اور پنجاب اور بلوچستان ہائی کورٹس میں بہت سی پوسٹیں خالی رہ گئیں اور ان عدالتوں کے کام میں حرج ہوا۔ اس کی وجہ سے لاہور ہائیکورٹ میں 17اور بلوچستان میں 3ججوں کی کمی ہے۔ اس الزام کے برعکس چیف جسٹس آف پاکستان کے وکلاء کا موقف ہے کہ وہ جلد انصاف فراہم کرنے کے حامی ہیں جبکہ ہائی کورٹوں میں ججوں کی بیس اسامیاں محض ذاتی وجوہ کی بنا پر خالی رکھنے کا الزام اگر درست ہے تومندرجہ بالا دعویٰ محل نظر ہوجاتا ہے۔ اسی طرح یہ الزام بھی انصاف کی جلد فراہمی کے دعوے سے مطابقت نہیں رکھتا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ہائیکورٹ کے جج جسٹس نسیم سکندر پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنی نامزدگی واپس لیں جبکہ فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ان کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری ہو چکا تھا۔ نتیجے میں فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس کا عہدہ کافی عرصے تک خالی رہا۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس جناب جسٹس حاذق الخیری کے تقرر کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے ان پر اپنی پسند کے ججوں کے تقرر کے لئے دباؤ ڈالا۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس نے یہ ماننے سے انکارکردیا اور مستعفی ہونے کی دھمکی دی۔ اس طرح چیف جسٹس آپ پاکستان نے ایک تعطل پیدا کیا، جس کے نتیجے میں وفاقی شریعت عدالت کئی ماہ تک نامکمل رہی۔ لاہور، سندھ اور پشاور ہائیکورٹ کے جن ججوں کے خلاف چیف جسٹس آف پاکستان سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کرناچاہتے تھے اورحکومت کے پاس ان ججوں کے خلاف کچھ نہیں تھا، ان کے نام یہ ہیں۔ مسٹر جسٹس عبدالشکور پراچہ، مسٹر جسٹس شبر رضارضوی، مسٹر جسٹس اختر شبیر، مسٹر جسٹس شیخ عبد الرشید، مسٹر جسٹس سرمد جلال عثمانی، مسٹر جسٹس شیر عالم، مسٹر جسٹس عارف حسین خلجی، مسٹر جسٹس امیر ہانی مسلم، مسٹر جسٹس افضل سومرو، مسٹر جسٹس شاہجہان خان، مسٹر جسٹس اعجاز الحسن خان اور مسٹر جسٹس جہانزیب رحیم۔ عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کے ججوں کے کوڈ آف کنڈکٹ میں واضح طور سے درج ہے کہ وہ بلا جواز سماجی سرگرمیوں سے اجتناب کریں گے اور سرکاری حکام سے میل جول نہیں بڑھائیں گے لیکن گزشتہ روز جو بیانات حلفی سپریم کورٹ میں داخل کئے گئے ، ان کی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اعلیٰ سرکاری حکام سے رابطوں اور میل جول کا شوق رکھتے تھے۔ وہ آئی بی کے سربراہ سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ ایم آئی کے چیف سے ملتے رہے۔ حد یہ کہ چیف آف آرمی اسٹاف اور صدر پاکستان کے ساتھ بھی ان کی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ عدالت عظمیٰ میں انصاف کے وہ کون سے تقاضے تھے، جن کی بنا پر چیف جسٹس آف پاکستان کویہ رابطے رکھنا پڑے ؟ اس پردونوں طرف کے وکلاء میں دلائل کا تبادلہ ہونے کا امکان ہے۔ صدر کے ساتھ ہونے والی کل ملاقاتوں میں سے مسٹر جسٹس افتخار چوہدری نے دوملاقاتیں بطورجج اور آٹھ ملاقاتیں چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت میں کیں۔ ان ملاقاتوں کی تفصیل بھی دی گئی ہے، جو 7اکتوبر 2004ء سے 9مارچ 2007ء کے درمیانی عرصے میں کی گئیں۔ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے کی دو ملاقاتوں میں کیا باتیں ہوئیں؟ اس پر بھی عدالت عظمیٰ میں بات ہونے کا امکان ہے اور اگر بات ہوئی تو ایسے انکشافات ہوسکتے ہیں، جن کے تصور ہی سے ڈر لگتا ہے۔ اسی لئے مجھے آج کے اخبارات جعلی معلوم ہوئے اوراس میں شائع ہونے والے انکشافات کو پڑھ کر کہا کہ ”میں نہیں مانتا“۔ (جاری ہے



\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

تو اب بلی (بلیاں) تھیلے سے باہر آ رہی ہیں۔ آگے دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔

مہوش،

میڈیا پہلے بھی حکومت کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو سامنے لاتا رہا ہے اور آئیندہ بھی لاتا رہے گا البتہ شاید آپ کو اب میڈیا کی غیر جانبداری کا کچھ یقین آجائے۔ چیف جسٹس کے خلاف جو ریفرنس دائر ہے اس میں ان الزامات کا عشر عشیر بھی نہیں ہے، یہ دوسرا ریفرنس تیار کرنے کی تیاری ہے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ یہ جوابی حلفیہ نامہ ہونا تھا صدر صاحب کی طرف سے مگر حلفیہ نامے آئے ہیں اوروں کی طرف سے اور چیف جسٹس کے حلفیہ نامے کا جواب دینے کی بجائے الزامات کی ایک پنڈولہ بکس کھول کر رکھ دیا ہے جس میں ایسے ایسے مضحکہ خیز الزامات ہیں کہ پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے خلافت راشدہ کا دور ہو اور ذرا ذرا سی شے کا کڑا حساب چل رہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر صاحب نے ٹی وی پر تو بہت سے بیانات دیے مگر حلف نامہ جمع نہیں کروایا۔

اب آگے دیکھیے کیا کیا سامنے آتا ہے؟ لطف تب آئے گا جب ان سربراہان کے اختیارات کے تجاوزات کی خبریں بھی سامنے آئیں گی اور اربوں کے سیکرٹ فنڈ جو حکومت چلانے اور بچانے کے لیے بے دریغ استعمال ہوتے ہیں سامنے آئیں۔
 
مہوش علی نے کہا:
خلق خدا کی آواز کو نقارہ خدا سمجھنے کا جس نے بھی یہ اصول وضع کیا ہے میں اُس سے کبھی متفق نہیں رہی۔ ورنہ خلق خدا نے تو بینظیر کو دو دفعہ منتخب کیا اور نواز شریف کو بھی اور آپکے موجودہ چہیتے عمران خان کو کچھ الیکشنز میں شاید ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔

اور عمران خان کی آج آپ لوگ اتنی حمایت میں بول رہے ہیں، مگر کبھی آپ نے گہرائی سے عمران خان کی شخصیت کے متعلق سوچا ہے؟

آج عمران خان مذھبی عناصر سے فلرٹ کر رہے ہیں (بلکہ اس سے زیادہ فلرٹ انہوں نے کسی اور سیاسی جماعت سے نہیں کیا)، مگر کیا آپ یقین رکھتے ہیں کہ عمران خان حکومت میں آنے کے بعد میڈیا میں جو گلیمر آیا ہوا ہے اُس کو بند کر کے بالکل صحیح جگہ پر لے آئیں گے؟

کیا عمران خان نے آج تک میڈیا کے اس گلیمر کے خلاف کوئی آواز اٹھائی ہے؟

اور اگر عمران میڈیا کے بے حیائی پر کوئی احتجاج نہیں کر رہے تو کیا کل آپ لوگ عمران خان کے پیچھے ہاتھ دھو کر نہیں پڑے ہوئے ہوں گے؟

تو فی الحال عمران اور میڈیا کے حوالے سے صرف یہ ایک سوال آپ لوگوں کی خدمت میں کہ آپکے اس چہیتے لیڈر نے ابتک میڈیا کی بے حیائی کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کیا اور سڑکوں پر کیوں نہیں نکلے؟

پہلی بات تو یہ کہ عمران کو چہیتا نہیں سمجھتے ہاں کچھ باتیں اس نے اصولی کی ہیں اور اس پر قائم بھی رہا مگر اس سے اس کی شخصی کمزوریاں ختم نہیں ہوتی امید کی جا سکتی ہے کہ ختم ہو جائیں۔

عمران خان پر آپ کی یہ تنقید اب بھی درست ہے اور آئیندہ اگر عمران اس کے خلاف بات نہ کرے توبھی صحیح رہے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران کی طرف سے میڈیا پر اس حوالے سے تنقید کم ہی ہے اور مستقبل میں بھی خاص امید نہیں۔

عمران کا منشور انصاف کی فراہمی اور کرپشن کا خاتمہ ہے جبتک وہ اس پر قائم رہتا ہے نظریاتی طور پر اس کی حمایت جاری رہے گی مگر اگر اس سے ہٹتا ہے تو ہمارے لیے وہ کوئی آسمانی خلیفہ نہیں ہے اس کی مخالفت اتنی ہی شدومد سے ہوگی جتنی مشرف کی ہورہی ہے۔

حکمرانوں پر ان کے غلط اقدامات پر تنقید کرنا اور ان کا احتساب کرنا عوام کا فرض ہے اور اگر وہ یہ نہ کریں تو وہ اپنے فرض سے غفلت برتیں گے اور اس کا نتیجہ ایک بری حکومت کی صورت میں ان کے گلے کا طوق بن جائے گا جیسا کہ ماضی میں بنتا آیا ہے۔

مشرف اس وقت انتہائی اہم موڑ پر ہیں وہ عدلیہ کو آزاد کرکے قانون کی حکمرانی قائم کر سکتے ہیں ، قوم چیف جسٹس کو چھوڑ کر مشرف کی پیروکار ہو جائے گی مگر اگر ہوس اقتدار میں مشرف آگے ہی بڑھتے رہے تو پھر عزت کی توقع نہ رکھیں اور نہ نیک نامی کی۔
 
Top