سُرُوربارہ بنکوی " اے جُنوں کچھ تو کھُلے آخر میں کِس منزل میں ہُوں "

طارق شاہ

محفلین
غزل
سُرُوربارہ بنکوی
اے جُنوں کچھ تو کھُلے آخر میں کِس منزل میں ہُوں
ہُوں جوارِ یار میں، یا کوچۂ قاتل میں ہُوں
پابجولاں اپنے شانے پر لِئے، اپنی صلیب
میں سفیرِحق ہوں لیکن نرغۂ باطل میں ہُوں
جشن فردا کے تصوّر سے لہو گردِش میں ہے
حال میں ہوں، اور زندہ اپنے مستقبل میں ہُوں
دم بَخُود ہُوں اب سرِ مقتل یہ منظر دیکھ کر!
میں کہ خود مقتول ہوں لیکن صفِ قاتل میں ہُوں
اک زمانہ ہوگیا بچھڑے ہوئے جس سے سُرُور
آج اُس کے سامنے ہوں اور بھری محفل میں ہُوں
سُرُوربارہ بنکوی
 

سید زبیر

محفلین
واہ ۔ طارق شاہ صاحب ۔ ۔ بہت اعلیٰ کلام پیش کیا ہے ۔
پابجولاں اپنے شانے پر لِئے، اپنی صلیب
میں سفیرِحق ہوں لیکن نرغہ باطل میں ہُوں
 

طارق شاہ

محفلین
واہ ۔ طارق شاہ صاحب ۔ ۔ بہت اعلیٰ کلام پیش کیا ہے ۔
پابجولاں اپنے شانے پر لِئے، اپنی صلیب
میں سفیرِحق ہوں لیکن نرغہ باطل میں ہُوں
سید صاحب!
سُرُور صاحب کی غزل انتخاب کرنے پر آپکی داد و ستائش دلی خوشی کا باعث ہوا
اس اظہارِ خیال اور پذیرائی کے لئے دلی تشکّر !
بہت خوش رہیں
 
Top