طارق شاہ
محفلین
غزلِ
کبھی اپنے عشق پہ تبصرے، کبھی تذکرے رُخِ یار کے
یونہی بِیت جائیں گے یہ بھی دن، جو خِزاں کے ہیں نہ بہار کے
یہ طلِسمِ حُسنِ خیال ہے، کہ فریب فصلِ بہار کے
کوئی جیسے پُھولوں کی آڑ میں ابھی چُھپ گیا ہے پُکار کے
سِیو چاکِ دامن و آستیں، کہ وہ سرگراں نہ ہوں پھر کہِیں
یہی رُت ہے عِشرتِ دِید کی، یہی دِن ہیں آمدِ یار کے
ابھی اور ماتمِ رنگ و بُو کہ چمَن کو ہے طَلَبِ نمُو
تِرے اشک ہوں کہ مِرا لہُو، یہ امِیں ہیں فصلِ بہار کے
سُرُور بارہ بنکوی
کبھی اپنے عشق پہ تبصرے، کبھی تذکرے رُخِ یار کے
یونہی بِیت جائیں گے یہ بھی دن، جو خِزاں کے ہیں نہ بہار کے
یہ طلِسمِ حُسنِ خیال ہے، کہ فریب فصلِ بہار کے
کوئی جیسے پُھولوں کی آڑ میں ابھی چُھپ گیا ہے پُکار کے
سِیو چاکِ دامن و آستیں، کہ وہ سرگراں نہ ہوں پھر کہِیں
یہی رُت ہے عِشرتِ دِید کی، یہی دِن ہیں آمدِ یار کے
ابھی اور ماتمِ رنگ و بُو کہ چمَن کو ہے طَلَبِ نمُو
تِرے اشک ہوں کہ مِرا لہُو، یہ امِیں ہیں فصلِ بہار کے
سُرُور بارہ بنکوی
آخری تدوین: