محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
سُنتے ہیں کہ مِل جاتی ہے ہر چیز دُعا سے
اِک روز تمہیں مانگ کے دیکھیں گے خُدا سے
جب کُچھ نہ مِلا ہاتھ دُعاؤں کو اُٹھا کر
پِھر ہاتھ اُٹھانے ہی پڑے ہم کو دُعا سے
دُنیا بھی مِلی ہے غمِ دُنیا بھی مِلا ہے
وہ کیوں نہیں مِلتا جِسے مانگا تھا خُدا سے
تُم سامنے بیٹھے ہو تو ہے کیف کی بارش
وہ دِن بھی تھے جب آگ برستی تھی گھٹا سے
اے دِل تُو اُنہیں دیکھ کے کُچھ ایسے تڑپنا
آ جائے ہنسی اُن کو جو بیٹھے ہیں خفا سے
آئینے میں وہ اپنی ادا دیکھ رہے ہیں
مر جائے کہ جی جائے کوئی اُن کی بَلا سے
کلام : رعنا اکبرآبادی
اِک روز تمہیں مانگ کے دیکھیں گے خُدا سے
جب کُچھ نہ مِلا ہاتھ دُعاؤں کو اُٹھا کر
پِھر ہاتھ اُٹھانے ہی پڑے ہم کو دُعا سے
دُنیا بھی مِلی ہے غمِ دُنیا بھی مِلا ہے
وہ کیوں نہیں مِلتا جِسے مانگا تھا خُدا سے
تُم سامنے بیٹھے ہو تو ہے کیف کی بارش
وہ دِن بھی تھے جب آگ برستی تھی گھٹا سے
اے دِل تُو اُنہیں دیکھ کے کُچھ ایسے تڑپنا
آ جائے ہنسی اُن کو جو بیٹھے ہیں خفا سے
آئینے میں وہ اپنی ادا دیکھ رہے ہیں
مر جائے کہ جی جائے کوئی اُن کی بَلا سے
کلام : رعنا اکبرآبادی