سُورج کو چراغ ۔۔ علامہ اقبال (فکر و فن) کی تفہیم

مفسر کی ضرورت تو بہرحال رہے گی نہ استادِ محترم کہ بندہ نا چیز کو تو اقبال کو پڑھتے ہوئے نہ جانے کتنی دفعہ لغت کی ورق گردانی کرنی پڑتی ہے تو شعر کا مدعا پانے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہوں گے اسکا اندازہ آپ خود ہی لگا سکتے ہیں اور اس میں بھی غلطی کا امکان بہر طور پھر بھی باقی رہتا ہے


’’ائے ہئے، بوا! کیا یاد دلا دیا ری! موجو کے چچا کو اللہ بخشے پاپڑ بیلنے کا بڑا تجربہ تھا۔ بل یوں کہو کہ تجربہ بھی کیا چسکا تھا۔ بالی عمریا میں ابا میاں کے ہاں چلے آئے، جو پاپڑ کی بھٹی چلاتے تھے۔ بھتیجے کو پاپڑ بیلنا سکھا دیا؛ اور جب اوپر سے بلاوا آیا تب تک موجو کے چچا پاپڑ کی بھٹی پر بھی اور ابا میاں کی چلبلی پر بھی قبضہ جما چکے تھے۔ اری میں ہی تو ہوں وہ چلبلی؛ کیا دیدے پھاڑ پھاڑ کے دیکھتی ہو بوا! موجو کے چچا یوں ہی تو مجھ پر ہزار جان سے فدا نہیں ہو گئے تھے! جب تک وہ زندہ تھے، میں جانو! جوان جہان رہی۔ وہ تو ان کی ناوقت موت نے نچوڑ کے رکھ دیا ہے! بھری جوانی میں رانڈ ہوئی ہوں، لوگوں کا کیا ہے وہ تو کہتے رہتے ہیں کلموہے کہ شبراتن جب رانڈ ہوئی ساٹھ کے پیٹے میں تھی۔ اے لو، اور سنو! ائے ہئے بوا، میں بھی کیا روگ کا رونا لے بیٹھی۔ تمہارا خدا جانے، جب میں بہار پر تھی تو موجو کے چچا نے مجھے بہت رجھایا بہت رجھایا، پر تو جانے شبراتن مچھلی کی طرح ہر بار اس کے ہاتھ کے نیچے سے پھسل گئی۔ ہئے! کیا کیا پاپڑ بیلے انہوں نے مجھے ۔۔ ۔۔ اری بے شرم اب کیا سب کچھ اگلواؤ گی؟ رہنے بھی دو بوا، مجھے لاج آتی ہے، ہاں! بہت مزہ آتا تھا جب وہ دن بھر بھٹی پہ پاپڑ بیلا کرتے اور شام کو مجھے تپانے کو۔ تم ہی کہو بوا! ارے ناری چاہے اندر سے پاپڑ کی بھٹی کی طرح دہک رہی ہو، باہر کو ہوا لگنے دیتی ہے؟ پر یہ جو نگوڑی آنکھیں ہیں اور گال ہیں نا، یہ سارے تاپ کا حال کھول دیتے ہیں۔ وہ تو، اللہ بھلا کرے ابا میاں کا کہ ایک دن مولوی کریمل کو بلا لائے کہ حضرت دو بول پڑھ دیجئے۔ نہیں تو پتہ نہیں ۔۔ ۔۔ ارے جاؤ بوا، کسی بے شرمی سے دیکھ رہی ہو میری طرف!‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فی البدیہہ شگفتہ نگاری
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فی البدیہہ شگفتہ نگاری
کیا خوب شگفتہ نگاری فرمائی استادِ محترم یعنی ہمارے پاپڑ بیلنے والے محاورے کے استعمال نے آپ کے قلم کو جنبش پر مجبور کیا یا یوں کہنا چاہیے آپ کی انگلیوں کو مجبور کیا کمال لکھا حضور مزہ آ گیا پڑھ کے
 
استاد محترم اقبال کی اس نظم کی مختصر تشریح فرما دیجئے اور آخری مصرع میں اگر کسی طرف اشارہ ہے تو وہ بھی اگر قابل بیان ہو تو فرما دیں
اساتذہ

مقصد ہو اگر تربیت لعل بدخشاں
بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پر تو
دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا مدرسہ ، کیا مدرسے والوں کی تگ و دو!
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو
 
اساتذہ

مقصد ہو اگر تربیت لعل بدخشاں
بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پر تو

دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا مدرسہ ، کیا مدرسے والوں کی تگ و دو!

کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو

(ضربِ کلیم)

استاد کا مقام کیا ہے اور اس کی ذمہ داری کیا ہے؟ جن کی اپنی فکر سنی سنائی اور غیروں کی نقل پر مبنی ہو، وہ دوسروں کو کیا سکھائے گا؟
(میں اس کو مانگے کی عینک کہا کرتا ہوں)۔
بھٹکا ہوا خورشید وہی تو ہے جس سے دوسرے روشنی لیتے ہوں اور وہ خود اپنے محور پر نہ ہو۔ (باطل بھی اور پیروانِ باطل بھی)۔

اس کے آگے پیچھے کی نظمیں بھی دیکھئے۔ ضربِ کلیم میں اقبال نے ایک خاص طریقہ یہ اپنایا ہے کہ ملتے جلتے موضوعات پر یا ایک موضوع پر اپنی چھوٹی چھوٹی نظموں کو یک جا لکھ دیا ہے۔
 
اس فقیر کی پنجابی شاعری پر مشتمل کتاب "پنڈا پیر دھروئی جاندے"۔
کتاب کا ایک شعبہ ہے "تیرے گوڈے مڈھ سمندر" اس میں علامہ اقبال کی کچھ فارسی شاعری کا پنجابی شعر میں ترجمہ کرنے کی کوشش شامل ہے۔
وہی سورج کو چراغ دکھانے والی بات۔ بہر کیف، جو کچھ بھی ہے؛ تھوڑا تھوڑا کر کے پیش کرتا ہوں۔


شذرہ: کتاب کی طباعت و اشاعت اپریل 2015 میں متوقع ہے۔
 
علامہ اقبال (پیامِ مشرق)

سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمی از حجاز آید کہ ناید
سر آمد روزگارِ این فقیری
دگر دانائے راز آید کہ ناید

ترجمہ از محمد یعقوب آسی

پرتن تاناں، وچھڑ گئیاں جو سازوں آوازوں
ٹھنڈی واء دا کوئی بلا آوے سمت حجازوں
ایس فقیر دے ساہواں دی تند لگدا اے ٹُٹی ٹُٹی
ابھرے پھر کوئی بھید کہانی ہور کسے دے سازوں
۱۴؍ نومبر ۲۰۱۳ء


"پِنڈا پَیر دھرُوئی جاندے" : ص 63
 
پرتن تاناں، وچھڑ گئیاں جو سازوں آوازوں
ٹھنڈی واء دا کوئی بلا آوے سمت حجازوں
ایس فقیر دے ساہواں دی تند لگدا اے ٹُٹی ٹُٹی
ابھرے پھر کوئی بھید کہانی ہور کسے دے سازوں
استادِ محترم کیا کہنے کیا ہی خوب ترجمہ فرمایا آپ نے اور وہ بھی پنجابی میں مزہ آ گیا کہ ہم جیسے جو فارسی نہیں سمجھتے ان کے لئے تو آپ جیسوں کا ہونا غنیمت ہے۔ اور اسی فراق مدینہ کی عکاسی کرتے پنجابی اشعار اس بندے کو بھی یاد آ گئے
جند مکدی مکدی مک چلی اجے مکیاں یار جدائیاں نئیں
بیٹھے ہاں وچ اڈیکا ں دے سوہنے دیا ں چٹھیاں آئیاں نئیں
آ مکدی گل مکا لئیے جیویں مندا ای یار منا لئیے
جگ نال نبھاؤن دا کی فائدہ جے سوہنے نال نبھائیاں نئیں
 
علامہ اقبال (پیامِ مشرق)
شبی زار نالید ابرِ بہار
کاین زندگی گریۂ پیہم است
درخشید برقِ سبک سیر و گفت
خطا کردۂٖ خندۂ یک دم است
ندانم بہ گلشن کہ برد این خبر
سخن ہای میانِ گل و شبنم است
***​

ترجمہ از محمد یعقوب آسی

رات بہار دا بدل بک بک رویا
آکھیس نت دا رونا میرا ہونا
تیز ترکھی بجلی لشکی، بولی
اک پل دا ایہ ہاسا، میرے سوہنا
خبرے کس نے باغے گل پُجائی
پھل تریل نے ونڈیا ہسنا رونا​

۱۶؍ نومبر ۲۰۱۳ء​


"پِنڈا پَیر دھرُوئی جاندے" : ص 64
 
علامہ اقبال (پیامِ مشرق)
ترجمہ از محمد یعقوب آسی
رات بہار دا بدل بک بک رویا
آکھیس نت دا رونا میرا ہونا
تیز ترکھی بجلی لشکی، بولی
اک پل دا ایہ ہاسا، میرے سوہنا
خبرے کس نے باغے گل پُجائی
پھل تریل نے ونڈیا ہسنا رونا
واہ واہ استادِ محترم کیا کہنے بدل بک بک رویا اور پھل تریل نے ونڈیا ہسنا رونا بہت اعلی
 
علامہ اقبال ۔۔۔ پیامِ مشرق

تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہای من پذیر
گر تو می بینی حسابم ناگزیر
از نگاہِ مصطفٰی ﷺ پنہان بگیر
***

ترجمہ از محمد یعقوب آسیؔ

سب دے بے پروا سائیاں میں منگتا تیرے در دا
حشر دیہاڑے یا ستارا رکھیں میرا پردہ
جے کر تیری حکمت آکھے جوکھے بِناں نہ سردا
تے پھر جھاکا رکھیں قائم اس سوہنے سروَر ﷺ دا
۱۷؍ نومبر ۲۰۱۳ء
 
آخری تدوین:
تے پھر جھاکا رکھیں قائم اس سوہنے سروَر ﷺ دا
مجھے یہ اشعار بہت پسند ہیں اقبال کے اور کیا خوب ترجمہ فرمایاآپ نے عاشقوں کے اپنے انداز ہوتے ہیں ایک شعر ہے کہ
چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں، یاں اس کے خلاف
تیرے دامن میں چھپے چور انوکھا تیرا ﷺ
 
Top