محمد یعقوب آسی
محفلین
مفسر کی ضرورت تو بہرحال رہے گی نہ استادِ محترم کہ بندہ نا چیز کو تو اقبال کو پڑھتے ہوئے نہ جانے کتنی دفعہ لغت کی ورق گردانی کرنی پڑتی ہے تو شعر کا مدعا پانے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہوں گے اسکا اندازہ آپ خود ہی لگا سکتے ہیں اور اس میں بھی غلطی کا امکان بہر طور پھر بھی باقی رہتا ہے
’’ائے ہئے، بوا! کیا یاد دلا دیا ری! موجو کے چچا کو اللہ بخشے پاپڑ بیلنے کا بڑا تجربہ تھا۔ بل یوں کہو کہ تجربہ بھی کیا چسکا تھا۔ بالی عمریا میں ابا میاں کے ہاں چلے آئے، جو پاپڑ کی بھٹی چلاتے تھے۔ بھتیجے کو پاپڑ بیلنا سکھا دیا؛ اور جب اوپر سے بلاوا آیا تب تک موجو کے چچا پاپڑ کی بھٹی پر بھی اور ابا میاں کی چلبلی پر بھی قبضہ جما چکے تھے۔ اری میں ہی تو ہوں وہ چلبلی؛ کیا دیدے پھاڑ پھاڑ کے دیکھتی ہو بوا! موجو کے چچا یوں ہی تو مجھ پر ہزار جان سے فدا نہیں ہو گئے تھے! جب تک وہ زندہ تھے، میں جانو! جوان جہان رہی۔ وہ تو ان کی ناوقت موت نے نچوڑ کے رکھ دیا ہے! بھری جوانی میں رانڈ ہوئی ہوں، لوگوں کا کیا ہے وہ تو کہتے رہتے ہیں کلموہے کہ شبراتن جب رانڈ ہوئی ساٹھ کے پیٹے میں تھی۔ اے لو، اور سنو! ائے ہئے بوا، میں بھی کیا روگ کا رونا لے بیٹھی۔ تمہارا خدا جانے، جب میں بہار پر تھی تو موجو کے چچا نے مجھے بہت رجھایا بہت رجھایا، پر تو جانے شبراتن مچھلی کی طرح ہر بار اس کے ہاتھ کے نیچے سے پھسل گئی۔ ہئے! کیا کیا پاپڑ بیلے انہوں نے مجھے ۔۔ ۔۔ اری بے شرم اب کیا سب کچھ اگلواؤ گی؟ رہنے بھی دو بوا، مجھے لاج آتی ہے، ہاں! بہت مزہ آتا تھا جب وہ دن بھر بھٹی پہ پاپڑ بیلا کرتے اور شام کو مجھے تپانے کو۔ تم ہی کہو بوا! ارے ناری چاہے اندر سے پاپڑ کی بھٹی کی طرح دہک رہی ہو، باہر کو ہوا لگنے دیتی ہے؟ پر یہ جو نگوڑی آنکھیں ہیں اور گال ہیں نا، یہ سارے تاپ کا حال کھول دیتے ہیں۔ وہ تو، اللہ بھلا کرے ابا میاں کا کہ ایک دن مولوی کریمل کو بلا لائے کہ حضرت دو بول پڑھ دیجئے۔ نہیں تو پتہ نہیں ۔۔ ۔۔ ارے جاؤ بوا، کسی بے شرمی سے دیکھ رہی ہو میری طرف!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فی البدیہہ شگفتہ نگاری