مہ جبین
محفلین
سُونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو ! جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی ہے
آنکھ سے کاجل صاف چرالیں یاں وہ چور بلا کے ہیں
تیری گٹھری تاکی ہے اور تو نے نیند نکالی ہے
یہ جو تجھ کو بلاتا ہے یہ ٹھگ ہے مار ہی رکھے گا
ہائے مسافر دَم میں نہ آنا مت کیسی متوالی ہے
سونا پاس ہے سُونا بن ہے سَونا زہر ہے اٹھ پیارے
تُو کہتا ہے نیند ہے میٹھی تیری مت ہی نرالی ہے
جگنو چمکے پتا کھڑکے مجھ تنہا کا دل دھڑکے
ڈر سمجھائے کوئی پون ہے یا اگیا بیتالی ہے
پاؤں اٹھا اور ٹھوکر کھائی کچھ سنبھلا پھر اوندھے منہ
مینھ نے پھسلن کردی ہے اور دُھر تک کھائی نالی ہے
ساتھی ساتھی کہہ کے پکاروں ساتھی ہو تو جواب آئے
پھر جھنجھلا کے سر دے پٹکوں چل رے مولیٰ والی ہے
تم تو چاند عرب کے ہو تم تو عجم کے سورج ہو
دیکھو مجھ بے کس پر شب نے کیسی آفت ڈالی ہے
شہد دکھائے زہر پلائے قاتل ڈائن شوہر کش
اِس مردار پہ کیا للچایا دنیا دیکھی بھالی ہے
وہ تو نہایت سستا سودا بیچ رہے ہیں جنت کا
ہم مفلس کیا مول چکائیں اپنا ہاتھ ہی خالی ہے
مولیٰ تیرے عفو و کرم ہوں میرے گواہ صفائی کے
ورنہ رضا سے چور پہ تیری ڈگری تو اقبالی ہے
اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃاللہ علیہ