سُچّا موتی

سُچا موتی
جامِ ہستی شاید کسی سے جا ٹکرایا تھا. محبت کی فقط ایک بوند ہی چھلکی تھی. اسی کی کھوج میں ساغر ساغر پر نظر رکھی, ساقی کے ہر پیمانے کو جانچا. ایک قطرے کے انجام کی فکر مستیِ ذات سے باہر لے آئی۔ عالمِ ہوش میں کیا کیا تماشا نہ دیکھا؛ اس بوند کی نمی کو کہاں کہاں محسوس نہ کیا. کبھی حصولِ چاہ کے لیے کی گئی مشقت سے تر ہوتی جبیں میں ... کبھی کسی دردمند کی آنکھ سے ڈھلکے ہوئے آنسوؤں کی جھلملاہٹ میں... محبت کی تمازت سے پگھلتے برفاب جذبوں کی آبشار میں ...چاہت کی اس پہلی بارش میں جو دل کی سوکھی زمین میں سوندھی مہک پیدا کر دے...ساحل کی ریت پر لکھی عبارت کو مٹاتی موجوں میں ...رسم و رواج پر قربان ہونے والوں کے لہو میں ...انا کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکراتے محبت کے دھاروں میں ...شبنم افشانی کرتی شبِ ہجر کی تراوٹ میں ...غمِ حیات کو بہا لے جانے والے چاہت کےمنہ زور سیلاب میں ...اور کبھی خوفِ خدا کے نتیجے میں امڈ آنے والے عرقِ انفعال میں...
محبت کا وہ قطرہ ڈھونڈنے نکلے تو جا بجا ڈھونڈا، گمان و قیاس کی سرحدوں پر در بدر پھرے. کبھی سراب پرآب کا گمان ہوا اور کبھی دشتِ وحشت چھان مارا مگر تلاش نامکمل رہی. برسوں کی مسافت کے بعد تھک ہار کر سفینہِ حیات کو بحرِ عشقِ الہی میں اتار دیا۔ باقی ماندہ جامِ ہستی کو رائیگانی سے بچانے کے لئے جو اسے اِس ساگر میں انڈیلنا چاہا تو اس کی تہہ میں چھپی کسی اور کی ذات کی سیپ ہاتھ آن لگی. جو کھولا تو مدتوں سے اس میں بند محبت کی وہی گم گشتہ بوند گہر ہو چکی تھی .
بہت خوب، بہت اچھا لکھا ہے ، پسندیدہ،
عبدالقیوم چوہدری بھائی ، ایک نظر فرمائیں، ہے کچھ مماثلت ؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ غالباََ پنجاب میں ہی بولا جاتا ہے، اردو میں تو نہیں سنا ، ظہیراحمدظہیر فاتح مزمل شیخ بسمل

نذیر بھائی آپ کے سوال کا جواب تو فاتح اور محمد وارث صاحبان نے دیدیا ہے ۔ یقینا کوئی خاص وجہ ہی ہوگی کہ لا المی صاحبہ نے اس تحریر کا عنوان سچا موتی کے بجائے سُچا موتی رکھا ہے ۔ ویسے سچی مچی بات یہ کہ تحریر یا انشائیہ میری سمجھ میں نہین آیا ۔ :):):)
 

ابن توقیر

محفلین
نہایت عمدہ لکھا ہے بہن۔
کئی بار پڑھ کر بھی خود کو اس قابل نہیں پایا کہ الفاظ کی گہرائی کو محسوس کرسکوں۔
لاجواب
 
Top