سٹاک مارکیٹ میں دو طرح کا نفع ملتا ہے، ایک تو یہ کہ آپ کسی کمپنی کے حصص خرید لیں اور سال کے اختتام پر ان حصص پر کمپنی نفع دے، یہ نفع دینا بہرحال کمپنی پر فرض نہیں ہے بلکہ وہ اپنی پوزیشن اور پرفارمنس دیکھ کر دیتے ہیں اور نہیں بھی دیتے اور نہ ہی نفع کی شرح بینکوں کے نفع کی طرح فکسڈ یا متعین ہوتی ہے سو اس میں تو کوئی قباحت نہیں۔
دوسری شکل یہ ہے کہ آپ نے ایک شرح سے حصص خریدے اور کچھ وقت کے بعد انکا ریٹ بڑھ گیا اور آپ نے وہ بیچ کر نفع کمایا، اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے کہ یہ بعینہ تجارت کی وہی شکل ہے جو دیگر اجناس کی تجارت میں ہوتی ہے۔
یہ دو شکلیں اس تجارت کی اصل شکلیں ہیں، لیکن ایک تیسری شکل جو آج کل پاکستان میں عام ہے وہی تمام امراض کی جڑ ہے اور وہ ہے سٹے بازی، اس میں یہ ہوتا ہے کہ بجائے اصل لین دین کے، زبانی کلامی سودے ہوتے ہیں اور سارا دن ہوتے ہی رہتے ہیں اور دن کے اختتام پر بیٹھ کر حساب کر لیا جاتا ہے کہ کس نے کتنا کھویا اور کتنا پایا ہے اور یہی غلط ہے اور اسطرح کے سودوں میں سارا نقصان بیچارے چھوٹے سرمایہ کاروں کا ہوتا ہے۔