عبد الرحمٰن
محفلین
مغل صاحب گھر آئے تو بیگم نے کہا، ’ارے سنتے ہیں جی، پڑوسن ہمارے گھر آئی تھی اور ڈرائنگ روم میں لگی پینٹنگ اتار کر لے گئی اور اپنے ڈرائنگ روم میں لگا لی، واپس مانگ رہی ہوں تو دے نہیں رہی‘
مغل صاحب نے لا پروائی سے فرمایا، ’ تو کیا ہوا؟ پینٹنگ دیوار پہ لگانے کی چیز ہے، اگر تھوڑی سے جگہ بدل گئی تو کیا مسئلہ ہے؟‘
’دماغ درست ہے آپکا؟‘ بیگم چلائیں ’چوری کی ہے اس نے‘
’توبہ توبہ بیگم، اتنی سی بات پہ تم کو پڑوسن کی ’نیت پہ شک‘ نہیں کرنا چاہیے، اس نے فقط دیوار ہی تو تبدیل کی ہے، کوئی پابندی تو نہیں نا کہ اسی دیوار پہ یہ پینٹنگ لگانی ہے‘ مغل صاحب نے سمجھاتے ہوئے کہا
’ارے آپ کواپنے ڈرائنگ روم اور پڑوس کے ڈرائنگ میں فرق نظر نہیں آرہا؟‘ بیگم نے جھنجھلا کرپوچھا
’یہ بیکار کی بات ہے، ڈرائنگ روم تو ڈرائنگ روم ہوتا ہے، مجھے یہ سمجھائو کہ پینٹنگ کو اِدھر سے اُدھر کرنے میں کیا فرق پڑ گیا؟ پہلے بھی وہ ڈرائنگ روم میں تھی، اب بھی ہے، پہلے بھی وہ دیوار پہ لگی تھی، اب بھی لگی ہے، تو فرق تو کچھ نا ہوا نا؟‘ مغل صاحب نے بڑے ٹھنڈے لہجے میں پوچھا
’ہائے میری قسمت!‘ بیگم نے سر پہ ہاتھ مار کر کہا ’آپ کو فرق نظر نہیں آرہا، پہلے وہ ’ہمارا‘ تھا، اب ’پڑوسن‘ بھی اس میں شریک ہو گئی، بلکہ پڑوسن ہی مالک بن گئی ہے‘
’دیکھو بیگم! تم مجھے یہ باریک نکتہ سمجھائو کہ پڑوسن کے مالک بننے سے فرق کیا پڑا؟ کیا پینٹنگ ختم ہوگئی؟ یا تم اسے دیکھ نہیں سکتیں؟ پہلے پڑوسن یہاں آکے کے دیکھتی تھی، اب تم وہاں جا کے دیکھ لینا، مسئلہ تو کچھ بھی نہیں ہے‘ مغل صاحب نے رواداری و وسعت قلبی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔
’آپ کو مسئلہ نہیں ہوگا، مجھے ہے، میری چیز کوئی ایرا غیرا نتھو خیرا اٹھا کر لے جائے اور آپ کہیں کہ فرق نہیں پڑا تو آپ اپنے دماغ کا علاج کرائیں، پینٹنگ میرے گھر میں تھی تو پڑوسن چور نہیں تھی اب وہ ’چور‘ ہے‘ بیگم پھٹ ہی پڑیں
’بیگم! یہ جو تم نے ’قیمتی قانونی نکتہ‘ اٹھایا ہے کہ ’پڑوسن چور بن گئی ہے‘ اسے تم ثابت کر سکتی ہو؟‘ مغل صاحب نے پوچھا
’ارے ثابت کیا کرنا ہے؟‘ بیگم ہاتھ نچا کر بولیں ’کوئی میرے گھر سے کچھ اٹھا کر لے جائے اور اپنے گھر میں رکھ لے تو اسے چوری نا کہیں تو کیا کہیں؟‘
’میرے خیال میں تو یہ چوری نہیں ہے، صرف ’دیوار کی تبدیلی‘ ہے، تم اگر سمجھا دو کہ دیوار کی تبدیلی سے کیا فرق پڑا تو میں اپنی رائے بدل سکتا ہوں‘ مغل صاحب نے فراخدلانہ پیشکش کی
بیگم جواب دینے کے بجائے، ہاتھ جھٹکتی، بلبلاتی، تلملاتی اور بڑبڑاتی ہوئیں چلی گئیں، ’سٹھیا گیا ہے بڈھا‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’بیگم! مجھے غسل کرنا ہے، میرے کپڑے نکال دو‘ مغل صاحب نے بیگم سے کہا
’جائیے کھونٹی پہ کپڑے لٹکا دیے ہیں، نہا لیجیے‘ تھوڑی دیر بعد بیگم نے مغل صاحب کو اطلاع دی
مغل صاحب غسل خانے تشریف لے گئے
بیگم نے غسل خانے کے بند دروازے پہ کھڑے ہوکر آواز لگائی، ’سنیے! دھوبی آگیا ہے، میلے کپڑے دے دیجیے‘
مغل صاحب نے ذرا سا دروازہ کھول کر کپڑے بیگم کو پکڑا دیے۔
تھوڑی دیر بعد انہوں نے آواز لگائی، ’بیگم! بیگم! کہاں ہو تم؟ میرے پہننے کے کپڑے کہاں ہیں؟ میں نے خیال ہی نہیں کیا، یہاں کھونٹی پہ تو کوئی کپڑا نہیں لٹک رہا‘
بیگم نے غسل خانے کے قریب آ کر کہا، ’ہاں! آپ کے کپڑے میں نے بیڈ روم کی کھونٹی پہ لٹکائے تھے‘
’دماغ درست ہے تمہارا؟ غسل خانے میں نہا رہا ہوں تو کپڑے بیڈ روم کی کھونٹی پہ کیا کر رہے ہیں؟‘ مغل صاحب چیخ پڑے
’ارے! اس میں غصہ کرنے کی کیا بات ہے؟‘ بیگم نے ہنس کر کہا ’صرف غسل خانے سے کمرا ہی تو تبدیل کیا ہے، کپڑے ُادھر بھی کھونٹی پہ لٹکائے جاتے ہیں اور اِدھر بھی‘
’بیگم!‘ مغل صاحب دھاڑے ’تم بدلہ لے رہی ہو مجھ سے؟‘
’ارے ارے سرتاج! آپ اپنی شریکِ حیات کی نیت پہ شک کر رہے ہیں؟ بیگم نے آواز میں مصنوعی ناراضی بھر کر کہا
’بیگم! کپڑے لادو، مجھے کپڑے پہننے ہیں، ورنہ اچھا نہیں ہوگا‘ مغل صاحب نے دھمکی دی
’کیا فرق پڑتا ہے، آپ پہلے غسل خانے کی کھونٹی سے اٹھا کر کپڑے پہنتے تھے اب بیڈ روم کی کھونٹی سے اٹھا کر پہن لیں‘ بیگم نے دھمکی ہوا میں اڑا دی
’کیا! میں غسل خانے سے کمرے تک ’ایسی‘ حالت میں جائوں گا؟ گھر میں امی ابو چھوٹی بہن موجود ہے‘ مغل صاحب نے غصے میں کھولتے ہوئے کہا
’تو کیا فرق پڑتا ہے؟ غسل خانے کی کھونٹی سے بھی تو آپ ’ایسی‘ ہی حالت میں کپڑے اٹھاتے نا؟‘ بیگم نے کمال کا نکتہ نکالا
مغل صاحب نے اپنا سر غسل خانے کی دیوار سے ٹکرانے سے خود کو بڑی مشکل سے روکا
’ابے میری عزت اچھالے گی تو!‘ مغل صاحب اپنے مزاج سے ہٹ کر چلا اٹھے
’ارے ایسے کیسے عزت اچھل جائے گی، آپ مجھے یہ ‘قیمتی نکتہ‘ تو سمجھائیں کہ صرف کھونٹی سے کپڑے اٹھانے میں عزت کیسے اچھل جائے گی؟‘ بیگم نے معصومانہ سوال کیا
’بیگم! تم کو تمہارے ’ابا‘ کا واسطہ میرے کپڑے لادو‘ مغل صاحب آخر کار منتوں پہ اتر آئے
اور بیگم نے مغل صاحب کے مزید ‘شور شرابے‘ سے بچنے کے لئے کپڑے دے دیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغل صاحب تیار ہوکر پڑوس میں گئے اور پڑوسی سے لڑ جھگڑ کر اپنی پینٹنگ لے آئے، کیونکہ ہر چیز اپنی جگہ پر ہی اچھی لگتی ہے، اسے بلا وجہ ’ہلانا‘ ’شور‘ ڈال سکتا ہے اور ’شور‘ سے ’آلودگی‘ پھیلتی ہے۔ کبھی ماحول کی، کبھی دل کی، کبھی دماغ کی اور کبھی ایمان کی۔۔۔۔۔
مغل صاحب نے لا پروائی سے فرمایا، ’ تو کیا ہوا؟ پینٹنگ دیوار پہ لگانے کی چیز ہے، اگر تھوڑی سے جگہ بدل گئی تو کیا مسئلہ ہے؟‘
’دماغ درست ہے آپکا؟‘ بیگم چلائیں ’چوری کی ہے اس نے‘
’توبہ توبہ بیگم، اتنی سی بات پہ تم کو پڑوسن کی ’نیت پہ شک‘ نہیں کرنا چاہیے، اس نے فقط دیوار ہی تو تبدیل کی ہے، کوئی پابندی تو نہیں نا کہ اسی دیوار پہ یہ پینٹنگ لگانی ہے‘ مغل صاحب نے سمجھاتے ہوئے کہا
’ارے آپ کواپنے ڈرائنگ روم اور پڑوس کے ڈرائنگ میں فرق نظر نہیں آرہا؟‘ بیگم نے جھنجھلا کرپوچھا
’یہ بیکار کی بات ہے، ڈرائنگ روم تو ڈرائنگ روم ہوتا ہے، مجھے یہ سمجھائو کہ پینٹنگ کو اِدھر سے اُدھر کرنے میں کیا فرق پڑ گیا؟ پہلے بھی وہ ڈرائنگ روم میں تھی، اب بھی ہے، پہلے بھی وہ دیوار پہ لگی تھی، اب بھی لگی ہے، تو فرق تو کچھ نا ہوا نا؟‘ مغل صاحب نے بڑے ٹھنڈے لہجے میں پوچھا
’ہائے میری قسمت!‘ بیگم نے سر پہ ہاتھ مار کر کہا ’آپ کو فرق نظر نہیں آرہا، پہلے وہ ’ہمارا‘ تھا، اب ’پڑوسن‘ بھی اس میں شریک ہو گئی، بلکہ پڑوسن ہی مالک بن گئی ہے‘
’دیکھو بیگم! تم مجھے یہ باریک نکتہ سمجھائو کہ پڑوسن کے مالک بننے سے فرق کیا پڑا؟ کیا پینٹنگ ختم ہوگئی؟ یا تم اسے دیکھ نہیں سکتیں؟ پہلے پڑوسن یہاں آکے کے دیکھتی تھی، اب تم وہاں جا کے دیکھ لینا، مسئلہ تو کچھ بھی نہیں ہے‘ مغل صاحب نے رواداری و وسعت قلبی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔
’آپ کو مسئلہ نہیں ہوگا، مجھے ہے، میری چیز کوئی ایرا غیرا نتھو خیرا اٹھا کر لے جائے اور آپ کہیں کہ فرق نہیں پڑا تو آپ اپنے دماغ کا علاج کرائیں، پینٹنگ میرے گھر میں تھی تو پڑوسن چور نہیں تھی اب وہ ’چور‘ ہے‘ بیگم پھٹ ہی پڑیں
’بیگم! یہ جو تم نے ’قیمتی قانونی نکتہ‘ اٹھایا ہے کہ ’پڑوسن چور بن گئی ہے‘ اسے تم ثابت کر سکتی ہو؟‘ مغل صاحب نے پوچھا
’ارے ثابت کیا کرنا ہے؟‘ بیگم ہاتھ نچا کر بولیں ’کوئی میرے گھر سے کچھ اٹھا کر لے جائے اور اپنے گھر میں رکھ لے تو اسے چوری نا کہیں تو کیا کہیں؟‘
’میرے خیال میں تو یہ چوری نہیں ہے، صرف ’دیوار کی تبدیلی‘ ہے، تم اگر سمجھا دو کہ دیوار کی تبدیلی سے کیا فرق پڑا تو میں اپنی رائے بدل سکتا ہوں‘ مغل صاحب نے فراخدلانہ پیشکش کی
بیگم جواب دینے کے بجائے، ہاتھ جھٹکتی، بلبلاتی، تلملاتی اور بڑبڑاتی ہوئیں چلی گئیں، ’سٹھیا گیا ہے بڈھا‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’بیگم! مجھے غسل کرنا ہے، میرے کپڑے نکال دو‘ مغل صاحب نے بیگم سے کہا
’جائیے کھونٹی پہ کپڑے لٹکا دیے ہیں، نہا لیجیے‘ تھوڑی دیر بعد بیگم نے مغل صاحب کو اطلاع دی
مغل صاحب غسل خانے تشریف لے گئے
بیگم نے غسل خانے کے بند دروازے پہ کھڑے ہوکر آواز لگائی، ’سنیے! دھوبی آگیا ہے، میلے کپڑے دے دیجیے‘
مغل صاحب نے ذرا سا دروازہ کھول کر کپڑے بیگم کو پکڑا دیے۔
تھوڑی دیر بعد انہوں نے آواز لگائی، ’بیگم! بیگم! کہاں ہو تم؟ میرے پہننے کے کپڑے کہاں ہیں؟ میں نے خیال ہی نہیں کیا، یہاں کھونٹی پہ تو کوئی کپڑا نہیں لٹک رہا‘
بیگم نے غسل خانے کے قریب آ کر کہا، ’ہاں! آپ کے کپڑے میں نے بیڈ روم کی کھونٹی پہ لٹکائے تھے‘
’دماغ درست ہے تمہارا؟ غسل خانے میں نہا رہا ہوں تو کپڑے بیڈ روم کی کھونٹی پہ کیا کر رہے ہیں؟‘ مغل صاحب چیخ پڑے
’ارے! اس میں غصہ کرنے کی کیا بات ہے؟‘ بیگم نے ہنس کر کہا ’صرف غسل خانے سے کمرا ہی تو تبدیل کیا ہے، کپڑے ُادھر بھی کھونٹی پہ لٹکائے جاتے ہیں اور اِدھر بھی‘
’بیگم!‘ مغل صاحب دھاڑے ’تم بدلہ لے رہی ہو مجھ سے؟‘
’ارے ارے سرتاج! آپ اپنی شریکِ حیات کی نیت پہ شک کر رہے ہیں؟ بیگم نے آواز میں مصنوعی ناراضی بھر کر کہا
’بیگم! کپڑے لادو، مجھے کپڑے پہننے ہیں، ورنہ اچھا نہیں ہوگا‘ مغل صاحب نے دھمکی دی
’کیا فرق پڑتا ہے، آپ پہلے غسل خانے کی کھونٹی سے اٹھا کر کپڑے پہنتے تھے اب بیڈ روم کی کھونٹی سے اٹھا کر پہن لیں‘ بیگم نے دھمکی ہوا میں اڑا دی
’کیا! میں غسل خانے سے کمرے تک ’ایسی‘ حالت میں جائوں گا؟ گھر میں امی ابو چھوٹی بہن موجود ہے‘ مغل صاحب نے غصے میں کھولتے ہوئے کہا
’تو کیا فرق پڑتا ہے؟ غسل خانے کی کھونٹی سے بھی تو آپ ’ایسی‘ ہی حالت میں کپڑے اٹھاتے نا؟‘ بیگم نے کمال کا نکتہ نکالا
مغل صاحب نے اپنا سر غسل خانے کی دیوار سے ٹکرانے سے خود کو بڑی مشکل سے روکا
’ابے میری عزت اچھالے گی تو!‘ مغل صاحب اپنے مزاج سے ہٹ کر چلا اٹھے
’ارے ایسے کیسے عزت اچھل جائے گی، آپ مجھے یہ ‘قیمتی نکتہ‘ تو سمجھائیں کہ صرف کھونٹی سے کپڑے اٹھانے میں عزت کیسے اچھل جائے گی؟‘ بیگم نے معصومانہ سوال کیا
’بیگم! تم کو تمہارے ’ابا‘ کا واسطہ میرے کپڑے لادو‘ مغل صاحب آخر کار منتوں پہ اتر آئے
اور بیگم نے مغل صاحب کے مزید ‘شور شرابے‘ سے بچنے کے لئے کپڑے دے دیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغل صاحب تیار ہوکر پڑوس میں گئے اور پڑوسی سے لڑ جھگڑ کر اپنی پینٹنگ لے آئے، کیونکہ ہر چیز اپنی جگہ پر ہی اچھی لگتی ہے، اسے بلا وجہ ’ہلانا‘ ’شور‘ ڈال سکتا ہے اور ’شور‘ سے ’آلودگی‘ پھیلتی ہے۔ کبھی ماحول کی، کبھی دل کی، کبھی دماغ کی اور کبھی ایمان کی۔۔۔۔۔