نفاق اور اختلافات اسی صورت پنپتے ہیں ۔ جب آپ گروہوں میں تقسیم ہوجائیں ۔ اور یہ تقسیم عناد ، نفرت ، تکبر ، خود سری جیسے رویئے سے وجود میں آتی ہے ۔ پھر یہ رویہ ایک عقیدہ بن کر لوگوں کو یہ باور کراتا پھرے کہ ہم صحیح ہیں اور باقی سب گمراہ ۔۔۔ ۔ تو اس صورت میں اسلام کی " یہ خدمت " ان پیرائے میں نہیں ہوسکتی جو مسلمانوں کو ایک متحد امت بننے میں مدد دے ۔ بلکہ اپنے افکار اور عقائد کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوتی ہے ۔ جب تک ہم گروہوں ، جھتوں اور جماعتوں کی صورت میں اپنے اپنے امیروں کا علم ہاتھ میں لیئے نام نہاد اسلام کی تبلیغ کا بیڑا اٹھائیں گے ۔ ہم میں نفاق ااور اختلاف کی سطح اتنی ہی بلند ہوتی جائے گی ، ہم مذید گروہوں میں تقیسم ہوتے چلیں جائیں گے ۔ ایک دوسرے پر تہمتیں لگائیں گے ۔ ایک دوسرے کے گلے کاٹیں گے ۔ ایک نظر اپنے اردگرد ڈالیں تو آپ کو یہ سب واضع نظر آجائے گا ۔ جب تک ہم میں شخصیت پرستی موجود ہے ۔ اس وقت تک ہماری کوششوں میں سُقم رہے گا جو ہمیں کسی مثبت یا جوہری تبدیلی کی طرف بڑھنے سے روکتا رہے گا ۔
میرےخیال میں کسی ملک، ادارے یا تنظیم کی کامیابی بغیر امیر کے ممکن نہیں ۔حتی کہ خاندان کے معاملات کو احسن انداز سے چلانے کے لئے بھی گھر میں کوئی نہ کوئی سربراہ ضرور ہوتا ہے۔ امیر کا کنسپٹ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ملتا ہے۔ جب تمہارے دو آدمی اکٹھے سفر کریں تو ایک کو امیر مقرر کر لیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے آپ نے خود امیر مقرر فرمائے ہیں۔ غزوات میں مختلف گروہ بنا کر ان پر امیر مقرر کرنا احادیث سے ثابت ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ کے تشریف لے جاتے تو مدینہ شریف میں ایک امیر کا تقرر فرما کر جاتے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دوسروں کو برداشت کرنے کا مادہ پیدا کیا جائے اور بے جا تنقید سے بچا جائے۔ اگر ہر مسلک اپنے عقائد کی خوبیوں کا تذکرہ کرے اور دوسروں کی خامیاں نہ اچھالے اور دوسروں پر تنقید نہ کرے تو اس معاشرے میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے اور ایسا کرنے سے لوگوں کادین کی طرف رجحان بڑھے گا۔ علماء پر اعتماد قوی ہوگا۔ اے کاش کہ جو قوت ہم دوسرے مسالک کو غلط ثابت کرنے کے لئے صرف کرتے ہیں اس سے کم قوت اگر ہم اپنے مسلک کو سچا ثابت کرنے کے لئے لگا دیں اور دوسرے مسالک پر تنقید ترک دیں تو رواداری اور بھائی چارے کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔
جن الفاظ کو میں نےمارک آؤٹ کیا ہے وہ قابل توجہ ہیں۔ آپ کے کہنے کا مقصد بالکل ٹھیک ہے لیکن الفاظ کے ردو بدل کی وجہ سے جملہ معترضہ بن گیا ہے۔ اسلام سے متعلق لکھتے وقت کبھی بھی احتیاط کا دامن ہاتھ نہ چھوٹنے پائے۔