الحمد للہ ایکسٹینشن کی ٹینشن ختم ہوئی
یقیناً جسٹس کھوسہ تاریخ میں اس کیس کی وجہ سے جسٹس ثاقب نثار سے بھی بلند مقام پائیں گے۔ قوم اب اپنے عسکری محسنوں سے کبھی دور نہیں ہو گی۔ چاہے وہ کتنی مرتبہ ریٹائرڈ ہی کیوں نہ ہو چکے ہوں۔
سید طلعت حسین تجزیہ کار
@TalatHussain12
سوموار 2 دسمبر 2019 8:00
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اس سال لارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں پاکستان کے میچ کے دوران (اے ایف پی)
شکر الحمد اللہ اسلام آباد سے ایکسٹینشن کی ٹینشن ختم ہو گئی۔ اس قوم کے ہیرو جنرل قمر باجوہ ایکس نہیں ہوئے بلکہ ایکسٹینڈ ہو گئے۔ یہ کیسی بدقسمتی ہوتی اگر وہ 28 تاریخ کو فوجی سربراہ کے عہدے پر محض تین سال گزارنے کے بعد ریٹائر ہو جاتے۔
ہم سب یہ کیسے برداشت کرتے؟ اس دکھ کو چھلنی سینے پر کیسے سہتے؟ ابھی تو ماضی کے صدمات کا اثر ہی نہیں گیا۔ قوم ایوب خان کی رخصتی پر ابھی بھی چپکے چپکے سسکیاں لیتی ہے۔ کبھی کبھار مانسہرہ کی سڑک پر ٹرک کے پیچھے ان کی دھندلائی ہوئی تصویر قوم کے جذبات کی اس تحریر کے ساتھ عکاسی کرتی ہے کہ ’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔‘ ہم یحییٰ خان کو بھی یاد کرتے ہیں۔ ہم ان کے 1971 کی جنگ جیتنے کے دبنگ بیانات پڑھ کر اب بھی جی کو گرماتے ہیں۔
جنرل گل حسن کی یادداشتیں اور جنرل ٹکا کے کارنامے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ان کی جدائی کتنی تکلیف دہ ہے۔ سانحات کا یہ تاریخی سلسلہ ضیاء الحق کے سنہری دور اور جنرل مشرف کی عظیم قیادت سے بھی رقم کیا ہوا ہے۔ کاش یہ دونوں ادوار ختم نہ ہوتے۔ کاش یہ دونوں عسکری قائد ہم میں موجود ہوتے اور ہم اپنی آنکھوں سے ان کی عظمت کی دلیلوں کو ہمیشہ سے دلوں پر نقش کرتے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ افسوس صد افسوس۔
اور تو اور جنرل اسلم بیگ، آصف نواز، جہانگیر کرامت، راحیل شریف اور جنرل کیانی یہ سب بھی ہمیں چھوڑ گئے۔ ایک قوم کتنے صدمے برداشت کر سکتی ہے۔ کہیں نہ کہیں آ کر تو اس کا حوصلہ جواب دے ہی جائے گا۔ عسکری قائدین کا ہم کو چھوڑ کے جانا کھال کا جسم سے جدا ہونا ہے۔ کچھ ایسا ہی تکلیف دہ عمل ہے جیسا جنرل پرویز مشرف وردی کو اپنے تن سے جدا کرنے کے امکان پر بات کرتے ہوئے بیان کیا کرتے تھے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے درد پر ایک حتمی مرہم رکھ دیں۔ خدا نے اگر جنرل باجوہ ہمیں مہیا کر دیے ہیں تو ہمیں ان کو جانے نہیں دینا۔ صحیح کہا وزیر اعظم عمران خان نے کہ جنرل باجوہ کی قیادت کا تسلسل دشمنوں کی سازشوں کا منہ توڑ جواب ہے۔ بالکل درست تھیں وہ تمام خصوصی رپورٹیں جو ہر چینل نے جنرل باجوہ کے کارناموں کے حوالے سے ترتیب دیں جس میں ان کو اپنی ڈاکٹرائن کا بانی قرار دیتے ہوئے وہ تمام کارنامے گنوائے جو انہوں نے ہر قومی محاذ پر سر انجام دیے۔
بالکل صحیح ہیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جب وہ فرماتے ہیں کہ جنرل باجوہ کے عہدے کی مدت کا معاملہ ایک قومی بحران تھا جو احسن طریقے سے حل ہو گیا۔ بطور وزیر خارجہ ان کو علم ہے کہ کشمیر میں بدترین مظالم، بھارت کی پاکستان کے خلاف گھناؤنی سازشیں، ایف اے ٹی ایف کی جانب سے بلیک لسٹ کر دینے کا خطرہ، یہ خبریں کہ امریکی ہمارے ایٹمی راز چرانے کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں، یہ سب اتنے سنگین قومی بحران نہیں ہیں، جتنا بڑا آرمی چیف کی مدت ملازمت کے حوالے سے بنا۔
جبھی تو جنرل قمر باجوہ خود سے چل کے وزیر اعظم ہاؤس پہنچے جہاں انہوں نے میڈیا رپورٹوں کے مطابق اپنے عہدے سے متعلق تیسرے نوٹیفیکیشن کی ترتیب و تحریر میں اپنی رائے شامل کروائی۔ محترم چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ شاید اس معاملے کی نزاکت اپنے تمام تر تجربے اور قانونی مہارت کے باوجود صحیح طور پر بھانپ نہیں پائے اور یہ بیان جاری ہوا کہ دفاعی معاملات پر نظر رکھنے کی بجائے قانونی سمریوں پر توجہ مبذول کرنا کوئی احسن قدم نہیں۔
عین ممکن ہے کہ چیف جسٹس کھوسہ کا یہ بیان میڈیا نے صحیح رپورٹ نہ کیا ہو۔ تمام تر تبلیغ اور ففتھ جنریشن وار فیئر کے جھٹ پٹ تربیتی کورس کروانے کے باوجود ذرائع ابلاغ میں شیطانیت سے بھرپور عناصر موجود ہیں۔ ان کی طرف سے چیف جسٹس کو سیاق و سباق کے بغیر رپورٹ کرنے کا امکان بھی بہرحال موجود ہے۔
مگر ہمیں یہ بات ماننی ہو گی کہ جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت کے حوالے سے ہیجان نے اس غلط فہمی کی کوکھ سے جنم لیا کہ شاید تین رکنی بینچ کا قانونی اور آئینی جائزہ کسی غیر معمولی صورت حال کو جنم دے سکتا ہے۔
پہلے دو دن جج صاحبان کے ریمارکس نے اس تصور کو فروغ دیا کہ جیسے وہ خدا نخواستہ ایسے رستے پر چل نکلے ہیں کہ جس کے اختتام پر قوم کو جنرل قمر باجوہ سے بچھڑنا پڑے۔ تینوں جج صاحبان نے قانونی و آئینی و روایتی و اخلاقی و منطقی جزیات پر اتنی توجہ دی کہ اس سانحے کا امکان ہر طرف پھیل گیا۔
مثلاً جب بینچ سے یہ مشاہدہ آیا کہ ایک ریٹائرڈ جنرل دوبارہ اپنے پرانے عہدے پر کیسے فائز ہو سکتا ہے تو دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ جب یہ کہا گیا کہ قانون میں نہ دوبارہ تعیناتی کی گنجائش ہے اور نہ ایکسٹینشن کی، تو ٹینشن حد سے بڑھ گئی۔
پھر جب یہ راز افشا ہوا کہ پچھلے 72 سال میں ہم نے اپنے عظیم عسکری قائدین کو تعینات کرتے وقت ان سے جدائی کی مدت قانونی طور پر طے ہی نہیں کی تو یہ کوفت حد سے بڑھ گئی کہ ایسے سوال اٹھانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جب بینچ نے درخواست گزار کی ایسی درخواست کو جھٹ سے قابلِ سماعت قرار دیا جس کا نہ کوئی قانونی سر تھا نہ پیر تو تمام قوم شدید جھنجھلاہٹ کا شکار ہو گئی کہ یہ سب کچھ حکومت کی طرف سے آرمی چیف کو مزید تین سال دینے کے فیصلے کے باوجود کیوں کیا جا رہا ہے؟
اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ سمری وزیر اعظم نے صدر کو بھیجی یا صدر نے وزیر اعظم کو۔ وزارتِ دفاع نے تعیناتی کا لفظ استعمال کیا یا وزیر اعظم نے توسیع کی بات کی۔ ایک سمری بنی یا تین۔ سمری کا متن پنڈی سے آیا یا آبپارہ سے۔ بنی گالہ میں بنا یا فون پر ڈکٹیشن دی گئی۔ بڑے مقاصد سے نظر ہٹا کر ان چھوٹے چھوٹے سوالوں پر وقت کا ضیاع ناقابلِ بیان اندرونی درد اور تکلیف کا باعث بنا۔
کچھ مزاج کے تیز اور بے لگام مگر محب وطن حلقوں نے محترم جج صاحبان کے خلاف خواہ مخواہ الزامات کی بوچھاڑ بھی کر دی۔ کسی نے ان کو بھارت کا ایجنٹ بنا دیا، ایک نے سی آئی اے کی خطرناک سازش سے جوڑ دیا۔ کچھ نے سی آئی اے، را اور افغانستان انٹیلی جنس ایجنسی کے اکٹھ کو تین رکنی بینچ سے عددی اور نظریاتی طور پر منسلک کیا۔
یہ قوم کا غصہ تھا جو صرف اس غلط فہمی کی وجہ سے ابل کے سامنے آ رہا تھا کہ شاید تین رکنی بینچ ہمارے صدمات میں اضافہ کر دے گا اور (ہمارے منہ میں خاک اور سر میں راکھ) جنرل باجوہ کی جگہ کسی اور کو فوج کی کمان سنبھالنے کی بنیاد بنا دے گا۔ مگر تیسرے دن جج صاحبان نے ان تمام غلط فہمیوں کو دور کر دیا۔ اندھیری گھٹائیں چھٹ گئیں۔
قوم نے ایسے سکھ کا سانس لیا کہ جیسے ایک ماں اپنے بچے کو آناً فاناً ٹرک کے سامنے سے ہٹا کر لیتی ہے۔ جج صاحبان نے خود سے جنرل قمر باجوہ کو چھ ماہ کی توسیع دے دی اور حکومت کو یہ سہولت مہیا کی کہ وہ اس سے متعلق قانون بعد میں بنا دے۔
توسیع دینے سے متعلق معزز بینچ نے اپنے پہلے آرڈر میں بیان کیے ہوئے تقریباً تمام اعتراضات اور سوالات کا خود ہی موثر جواب دے دیا۔ پہلے لکھا کہ فوج بطور ادارہ قوم کا دفاع کرتی ہے۔ بعد میں قوم کو خود ہی بتایا کہ فوجی سربراہ کی مرکزیت کیا ہے۔ پہلے آرڈر میں تحریر ہوا کہ قوم کے دفاع میں افراد کی اہمیت بہت کم ہے۔ دوسرے آرڈر میں یہ واضح کر دیا کہ ایک فرد سے ہی ملت میں استحکام ہے۔
پہلے میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ خطرناک علاقائی صورت حال کو بنیاد بنا کر ہمارے ناقابلِ تسخیر دفاع پر مامور ہر شخص اپنے عہدے میں توسیع چاہے گا۔ دوسرے آرڈر میں جنرل باجوہ کے لیے توسیع کا عدالتی بندوبست کیا۔
پہلے دو دن ہم یہ اعتراض سن رہے تھے کہ توسیع اور دوبارہ تعیناتی کو اگر مان لیا جائے تو قابل سپہ سالار 30 سال تک بھی ریٹائرڈ نہیں ہوں گے۔ آخری آرڈر میں قانون سازی کے ذریعے اس امکان کو قانونی بنیاد فراہم کر دی کہ عظیم سپاہ سالار نہ صرف تین سال مزید حاصل کر سکیں گے بلکہ ان قواعد و ضوابط میں مدت ملازمت میں مزید توسیع کی گنجائش بھی پیدا کی جا سکتی ہے، یعنی 10 سال بھی ہو سکتے ہیں۔
کابینہ سے وقتی مستعفی ہونے والے فروغ نسیم کے لائسنس پر اعتراضات یکسر غائب ہو گئے اور معزز بینچ نے ان ہی سے قانون سازی کی ضمانت طلب کی، اگرچہ وہ عدالت میں کابینہ کے نہیں بلکہ جنرل باجوہ کے نمائندہ کے طور پر پیش ہوئے تھے۔
اب حالات قابو میں ہیں۔ ہر کوئی اپنی پرانی جگہ پر خوش ہے۔ اسلام آباد کا موسم صاف ہے۔ کشمیر کی آزادی، پاکستان کی کامیابی، معیشت کی ترقی، عوام کا تحفظ، دشمن کی ناکامی ان سب کے دن آن پہنچے ہیں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک بڑے منصف ہیں۔ ان میں تحمل بھی ہے اور اپنے حکم کی تعمیل کروانے کی جرات بھی۔ یہ ان کا بڑا پن تھا کہ جج صاحبان کو غیرملکی ایجنٹ قرار دینے والی مہم پر صرف چند جملوں میں اعتراض کر کے معاملہ رفع دفع کر دیا۔ اس کو عدالت کی کمزوری نہ سمجھا جائے کیوں کہ جس دن اس تحمل کا مظاہرہ ہوا اسی دن طلال چوہدری کی توہین عدالت کی ریویو پٹیشن کو ایک اور بینچ نے ایسے خارج کیا جیسے مکھن سے بال نکالا جاتا ہے اور یہ ثابت کیا کہ عدالت اپنے تقدس کا دفاع جانتی ہے۔
جسٹس کھوسہ نے ایک غیر موجود قانون کے باوجود جنرل قمر باجوہ کو چھ ماہ کی توسیع اور اس کے بعد قانون سازی کے ذریعے تین سال یا اس سے زائد مدت ملازمت کی بنیاد فراہم کر کے قوم کے دل جیتے۔ تو دوسری طرف سب کو اس امر کی یاد دہانی بھی کروائی کہ انہوں نے دو وزیر اعظم کو فارغ کر کے ایک بے رحم انصاف کا سنہرا اصول بھی مرتب کیا۔
یقیناً جسٹس کھوسہ تاریخ میں اپنے ان اقدامات کی وجہ سے جسٹس ثاقب نثار سے بھی بڑا اور بلند مقام پائیں گے۔ انہوں نے اسلام آباد میں سے ایکسٹینشن کی ٹینشن ہمیشہ کے لیے نکال دی ہے۔ قوم اب اپنے عسکری محسنوں سے کبھی دور نہیں ہو گی۔ وہ ہمیشہ ہم میں موجود رہیں گے۔ چاہے وہ کتنی مرتبہ ریٹائر ہی کیوں نہ ہو چکے ہوں۔