سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ؛ آرمی چیف مدتِ ملازمت کیلئے قانون سازی وگرنہ 6 ماہ بعدریٹائر

زیرک

محفلین
سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ؛ آرمی چیف مدتِ ملازمت کیلئے قانون سازی وگرنہ 6 ماہ بعدریٹائر
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت سے متعلق کیس کا تفصیلی/تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے، چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی، دیگر دو ججوں میں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر میاں خیل شامل تھے۔ تفصیلی فیصلہ 43 صفحات پر مشتمل ہے جو جسٹس سید منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔ فیصلے کے مطابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کو قانونی حمایت حاصل نہیں، قانون اور آئین میں مدت ملازمت میں توسیع کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ قانون نہ ہونے سے جنرل کی مدت ملازمت پر غیر یقینی دور کرنے کے لیے قانون سازی کی جا سکتی ہے، اگر قانون نہ بن سکا تو 6 ماہ میں جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔ قانون سازی نہ ہونے کی صورت میں آرمی چیف کو ریٹائر ہونا پڑے گا، پارلیمنٹ کی آرمی چیف کےعہدے سے متعلق قانون سازی غلطیوں کی تصحیح میں مددگار ہو گی، معاملہ قانون سازوں کے بنائے گئے قانون کے تحت ریگولیٹ کیا جانا چاہیے، ایسی توسیع دینے کے لیے مستقل یا مسلسل ادارہ جاتی پریکٹس بھی نہیں ہے۔ آرمی چیف کا عہدہ لامحدود اختیار اور حیثیت کا حامل ہوتا ہے اس لیے غیر متعین صوابدید خطرناک ہوتی ہے۔ ادارہ جاتی پریکٹس کے تحت ایک جنرل 3 سال کی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرڈ ہوتا ہے۔ آرمی چیف کےعہدے میں توسیع، دوبارہ تقرری کی شرائط و ضوابط کا کسی قانون میں ذکر نہ ہونا تعجب انگیز تھا، آئین کے تحت صدر کے مسلح افواج سے متعلق اختیارات قانون سے مشروط ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
آرمی چیف کا عہدہ لامحدود اختیار اور حیثیت کا حامل ہوتا ہے اس لیے غیر متعین صوابدید خطرناک ہوتی ہے
دنیا کی عجیب ترین سپریم کورٹ ہے۔ آرمی چیف کے ایکسٹینشن پر تفصیلی فیصلہ لکھ دیا لیکن آرمی چیف کے لامحدود اختیارات کس آئینی و قانونی حیثیت سے ہیں پر ایک لفظ نہیں کہا :)
 

زیرک

محفلین
دنیا کی عجیب ترین سپریم کورٹ ہے۔ آرمی چیف کے ایکسٹینشن پر تفصیلی فیصلہ لکھ دیا لیکن آرمی چیف کے لامحدود اختیارات کس آئینی و قانونی حیثیت سے ہیں پر ایک لفظ نہیں کہا :)
من چاہا فیصلہ آجا تا تو آنجناب ابھی تک ان کے گن گا رہے ہوتے۔
اگر عدلیہ نے آپ کو دس سال تک مطلق العنان بادشاہت کا اختیار دے دیا ہوتا تو آپ یہاں بھنگڑے ڈال رہے ہوتے، مگر افسوس اب آپ مدح سرائی کی بجائے ہجو بھری شاعری ہی کر سکتے ہیں کیونکہ من چاہا فیصلہ جو نہیں آیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
عجیب ترین سپریم کورٹ ہے کہ ہمارے بگ باس کی ایکسٹینشن پہ سوال اٹھا دیے، ابھی تو ہم ان کا احسان پوری طرح چکا بھی نہ پائے تھے!
جو اصل ایشو تھا یعنی بگ باس کے غیر آئینی و غیر قانونی لا محدود اختیارات اس پر ایک حرف نہیں کہا۔ اور جو نان ایشو تھا اس پر صفحات کالے کر دیے۔ ایسے مضحکہ خیز عدالتی نظام آپ کو ہی مبارک ہوں۔
 

جاسم محمد

محفلین
من چاہا فیصلہ آجا تا تو آنجناب ابھی تک ان کے گن گا رہے ہوتے۔
اگر عدلیہ نے آپ کو دس سال تک مطلق العنان بادشاہت کا اختیار دے دیا ہوتا تو آپ یہاں بھنگڑے ڈال رہے ہوتے، مگر افسوس اب آپ مدح سرائی کی بجائے ہجو بھری شاعری ہی کر سکتے ہیں کیونکہ من چاہا فیصلہ جو نہیں آیا۔
ہماری کیا جرات جو بگ باس کا ایکسٹینشن روکیں۔اب قانونی ترامیم کر کے لامتناہی ایکسٹینشن دیں گے۔ :)
 

جان

محفلین
عدالت کو اس معاملہ میں فیصلہ سازی کا اختیار نہیں۔ یہ آئینی و قانونی طور پر صدر مملکت کی ڈومین ہے۔
متفق لیکن صدر اور وزیراعظم کے اختیارات بھی قوم کی امانت ہوتے ہیں اور ان کو اپنی ذات کے لیے استعمال کرنا یقیناً انتہا درجے کی کرپشن ہے۔خان صاحب ثابت کریں کہ 'ریجنل سیکورٹی انوائرنمنٹ' کی منطق عوام کے فائدے میں ہے؟ اگر ورلڈ وارز میں بھی فوجی ریٹائر ہوتے ہیں تو یہ منطق بالکل بے جواز ہے اور خان صاحب نے اسے اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیا ہے اور یقیناً اس عظیم جرم 'کرپشن' کے مرتکب ہوئے ہیں!
 

زیرک

محفلین
عدالت کو اس معاملہ میں فیصلہ سازی کا اختیار نہیں۔ یہ آئینی و قانونی طور پر صدر مملکت کی ڈومین ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آرمی چیف کی توسیع کیس کے تفصیلی فیصلہ میں جو اضافی نوٹ لکھا ہے وہ ملاحظہ کیجئے ؛
”آپ جتنے بھی بڑے ہو جائیں، قانون آپ سے اوپر ہی رہے گا”۔
اب آئین کی تشریح کرنے والوں نے لقونے کا حل بتا دیا، آپ کا چیخنا سمجھ میں آتا ہے۔ اب آپ کے پاس یہ آپشنز ہیں
٭ حکومت فیصلے پر نظر ثانی اپیل بھی دائر کر سکتی ہے
٭ سپریم کورٹ فیصلے کی روشنی میں قانون سازی کر سکتی ہے۔
کیونکہ
٭ وزیراعظم کو ایکسٹینشن دینے کا کوئی آئینی اختیار نہیں تھا
لہٰذا
٭ پارلیمنٹ 6 ماہ میں معاملہ خود حل کرے
اگر یہ معاملہ حل نہ ہوا تو پھر
٭ صدر مملکت نئے آرمی چیف کا تقرری کریں گے
یا سابقہ 4 جرنیلوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے
٭ مارشل لاء عرف دما دم مست قلندر
یا
٭ اگر عزتِ سادات پیاری ہے تو ابھی سے بوریا بستر باندھ لیں اور گھر جائیں
یا
٭جنرل باجوہ کے بغیر حکومت کا کام نہیں چلتا تو ریٹائرمنٹ کے بعد ان کو ڈیفنس منسٹر بنا کر بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔
بہتر یہی ہے کہ؛
٭ حکومت اور جنرل باجوہ آرمی چیف کے عہدے کی مزید تحقیر نہ کروائیں اور عدلیہ کا کہنا مان کر ملک میں قانون کی حکمرانی کی بنیاد ڈالیں۔
 

زیرک

محفلین
صدر اور وزیراعظم کے اختیارات بھی قوم کی امانت ہوتے ہیں اور ان کو اپنی ذات کے لیے استعمال کرنا یقیناً انتہا درجے کی کرپشن ہے۔خان صاحب ثابت کریں کہ 'ریجنل سیکورٹی انوائرنمنٹ' کی منطق عوام کے فائدے میں ہے؟ اگر ورلڈ وارز میں بھی فوجی ریٹائر ہوتے ہیں تو یہ منطق بالکل بے جواز ہے اور خان صاحب نے اسے اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیا ہے اور یقیناً اس عظیم جرم 'کرپشن' کے مرتکب ہوئے ہیں!
بالکل درست، یہی سوال ہر ذی ہوش پاکستانی کے ذہن میں بھی ہے۔ یاد رکھیں اگر عدلیہ نے اس معاملے کو باریکی سے دیکھا تو پھرحکومت کی بساط لپیٹی جا سکتی ہے۔
 

زیرک

محفلین
ہماری کیا جرات جو بگ باس کا ایکسٹینشن روکیں۔اب قانونی ترامیم کر کے لامتناہی ایکسٹینشن دیں گے۔ :)
ایسا ممکن نہیں ہے، یہ کرنے کی کوشش بھی مت کیجئے گا، عوام کو چھوڑیں، عوام کے نمائندوں کو چھوڑیں، فوج کے اپنے ادارے کے اندر سے اتنا بڑی آوازیں بلند ہوں گی کہ یہ معاملہ سنبھالا نہیں جا سکے گا۔ کیونکہ اگر جنرل باجوہ ہل من مزید کی فرمائش کریں گے تو ان کے شاگرد یا جونیئر کہاں تک جا سکتے ہیں، آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس لیے اسے رہنے دیں ورنہ جو حالات پیدا ہوں گے ان کے نقصانات کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔
 

جاسم محمد

محفلین
متفق لیکن صدر اور وزیراعظم کے اختیارات بھی قوم کی امانت ہوتے ہیں اور ان کو اپنی ذات کے لیے استعمال کرنا یقیناً انتہا درجے کی کرپشن ہے۔خان صاحب ثابت کریں کہ 'ریجنل سیکورٹی انوائرنمنٹ' کی منطق عوام کے فائدے میں ہے؟ اگر ورلڈ وارز میں بھی فوجی ریٹائر ہوتے ہیں تو یہ منطق بالکل بے جواز ہے اور خان صاحب نے اسے اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیا ہے اور یقیناً اس عظیم جرم 'کرپشن' کے مرتکب ہوئے ہیں!
آیا عمران خان نے جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن اپنے سیاسی مفاد میں دیا ہے یا واقعی خطے کے سیکورٹی چیلنج کو دیکھتے ہوئے دیا ہے۔ اس کا تعین کرنا بھی عدالت عظمیٰ کاکام نہیں۔ یہ انتظامی معاملہ ہے اور مکمل طور پر ریاست کی ایگزیکٹو برانچ کی صوابدیدہے کہ وہ کس شخص کو کونسے محکمہ میں کتنے عرصہ کیلئے تعینات کرتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
٭ وزیراعظم کو ایکسٹینشن دینے کا کوئی آئینی اختیار نہیں تھا
آرمی چیف کا عہدہ کوئی آئینی پوسٹ نہیں۔ آئین پاکستان کے تحت فوج حکومت کا ذیلی محکمہ ہے جیسا کہ پولیس، ایئر فورس، نیوی اور دیگر سیکورٹی کی محکمے۔ انہیں کسی بھی طور پر آزاد ادارے تصور کرکے آئینی نہیں بنایا جا سکتا۔ ایسا کرنے والا تو خود آئین کی توہین کر رہا ہے۔
اب جیسا کہ وزیر اعظم، ان کی کابینہ اور صدر پاکستان مل کر ملک کی سیکورٹی پر مامور محکموں کے سربراہان اپنی صوابدید سے تبدیل، توسیع اور معطل کرسکتے ہیں۔ یہی کام آرمی چیف کے حوالہ سے کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود عدالت نے صرف آرمی چیف کے معاملہ پر غیرضروری لقونا نکال کر اسے آئینی پوسٹ ڈکلیئر کرکے متنازعہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
فاروق سرور خان
 
آخری تدوین:

زیرک

محفلین
آیا عمران خان نے جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن اپنے سیاسی مفاد میں دیا ہے یا واقعی خطے کے سیکورٹی چیلنج کو دیکھتے ہوئے دیا ہے۔ اس کا تعین کرنا بھی عدالت عظمیٰ کاکام نہیں۔ یہ انتظامی معاملہ ہے اور مکمل طور پر ریاست کی ایگزیکٹو برانچ کی صوابدیدہے کہ وہ کس شخص کو کونسے محکمہ میں کتنے عرصہ کیلئے تعینات کرتی ہے۔
صوابدید کو چھوڑو یہ معاملہ ابھی قانون سازی کی چھلنی سے گزرنا باقی ہے اگر ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ اسے بھی دیکھ لے گی۔
سیکورٹی چیلنج کون سے، کیا انڈیا پاکستان باقاعدہ جنگ ہو رہی ہے؟ کیا باجوہ صاحب کے علاوہ باقی جرنیل نااہل ہیں؟ ایک ممکنہ جنگ کی کہانی ہی تو ہے، مفروضات پہ ایسی عمارات نہیں بنائی جا سکتیں کیونکہ وہ جلد گر جایا کرتی ہیں۔
 

زیرک

محفلین
اس میں اب کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا کہ وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کے معاملے کو اپنی حکومت کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کرنا چاہا، یوں اناڑی کا کھیلنا کھیل کا ستیاناس کے مصداق ایک واحد ادارہ جو قدرے بہتر کارکردگی دکھا رہا تھا اسے تماشا بنا کر رکھ دیا۔ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے بعد حکومت ردعمل دے گی تو اس سے ملک میں بہتری نہیں آئے گی، حالات مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔ عین ممکن ہے کہ جنرل باجوہ خود ہی عزتِ سادات بچاتے ہوئے ریٹائرمنٹ کو ترجیح دیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور کی ایک پریس کانفرنس کو کئی روز سے pending میں جا رہی ہے، شاید وہ بھی معاملے کے اسی رخ پر جانے کی نشاندہی کرتی ہے۔ اگر جنرل باجوہ ایسا کرتے ہیں تو اس کے بعد فوج کے ادارے پر تو زیادہ سوال نہ اٹھیں گے لیکن عمران خان ضرور بد سے مزید بدنام ہوں گے اور عین ممکن ہے انہیں گھر جانا پڑے۔ مارچ میں نئے الیکشن کی جو کہانی دو دن پہلے سنائی دی تھی، وہ بے بنیاد نہیں ہے۔
 

جان

محفلین
آیا عمران خان نے جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن اپنے سیاسی مفاد میں دیا ہے یا واقعی خطے کے سیکورٹی چیلنج کو دیکھتے ہوئے دیا ہے۔ اس کا تعین کرنا بھی عدالت عظمیٰ کاکام نہیں۔ یہ انتظامی معاملہ ہے اور مکمل طور پر ریاست کی ایگزیکٹو برانچ کی صوابدیدہے کہ وہ کس شخص کو کونسے محکمہ میں کتنے عرصہ کیلئے تعینات کرتی ہے۔
عدالت کا کام انصاف مہیا کرنا ہے، اگر عدالت سٹنگ پرائم منسٹر نواز شریف کو گھر بھیج سکتی ہے تو خان صاحب کے بھی ذاتی و سیاسی مقاصد کے لیے اختیارات کے بے لگام استعمال پہ سوال اٹھا سکتی ہے اور میرے نزدیک اختیارات کو ذاتی و سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا کرپشن ہے اور اگر عدالت چاہے تو اس کرپشن پہ خان صاحب کو بھی گھر بھیج سکتی ہے!
پی ٹی آئی کی منافقت کا حال یہ ہے کہ اب ان کو ساری ڈومین یاد آنا شروع ہو گئی ہیں، نواز شریف کی برطرفی اور ثاقب نثار کی حد سے زیادہ حکومتی معاملات میں مداخلت پہ تو خوشی سے اچھلتے رہتے تھے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ تحریک 'انصاف' انصاف کی تحریک نہیں بلکہ بغضِ نواز کی تحریک ہے!
 

جاسم محمد

محفلین
کیا باجوہ صاحب کے علاوہ باقی جرنیل نااہل ہیں؟
بات باقی جرنیلوں کی نااہلی کی نہیں ایگزیکٹو کے صوابدید کی ہے۔ ملک میں فوج ہی واحد سیکورٹی کا محکمہ نہیں ہے۔ یہاں نیوی، ایئرفورس، پولیس اور دیگر سیکورٹی کے محکمے بھی کام کر رہے ہیں۔ وہاں سربراہان کو ایکسٹینشن دیتے وقت اس قسم کے لقونے کیوں نہیں نکالے گئے؟ کیونکہ بقول عدالت آرمی چیف کی پوسٹ کے پاس "لامحدود" اختیارات ہیں۔ اس سے بڑی مضحکہ خیزی اور کیا ہوگی کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت خود اقرار کر رہی ہے کہ ایک 22 گریڈ کے آفیسر کے پاس خلاف آئین و قانون غیر لا محدود اختیارات ہیں۔ اور ہم اس کے اختیارات کو محدود رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے۔
 

جان

محفلین
اس سے بڑی مضحکہ خیزی اور کیا ہوگی کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت خود اقرار کر رہی ہے کہ ملک کا آرمی چیف خلاف آئین و قانون غیر قانونی اختیارات رکھتا ہے۔
عدالت تو پھر عوام کی نمائندہ نہیں ہے، اصل مضحکہ خیزی تو یہ ہے کہ یہاں ملک کے سب سے بڑے ایگزیکٹیو آفیسر عمران خان صاحب اس بات کو نہ صرف من و عن تسلیم کرتے ہیں بلکہ صبح شام ان کی خدمت میں بھی مصروف ہیں۔ ان کے وزیر استعفیٰ دے کر ان کا کیس لڑتے ہیں، اس مضحکہ خیزی پہ تو غصہ نہیں آتا آپ کو بلکہ آپ تو اس مضحکہ خیزی کو فخر سے بیان کرتے ہیں کہ ہم 'ایک پیج' پر ہیں۔ عدالت کر دے یا کوئی اور تو سارے مسائل انہی میں نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی اور خان صاحب کو چاہیے اپنا بھی گریبان دیکھ لیں ذرا!
 
Top