تفصیلی فیصلہ تو آ گیا مگر ابہام اب بھی باقی ہے کہ آیا ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے توسیع کی جائے گی یا آئینی ترمیم لائی جائے گی۔ ویسے، ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے بھی اگر توسیع کا ڈول ڈالا گیا تو اپوزیشن جماعتوں کی حمایت حاصل کر کے قومی ہم آہنگی کے نام پر یہ ڈھونگ رچایا جائے گا جس کے لیے اپوزیشن جماعتیں تبھی رضامند ہوں گی جب کم از کم ان ہاؤس تبدیلی آئے یا ان کے بھی کچھ 'مطالبات'تسلیم کیے جائیں۔ بصورتِ دیگر، اپوزیشن کی رضامندی کے بغیر سادہ اکثریت سے آرمی چیف کو مزید ایکسٹینشن دینا یا اس موجودہ ایکسٹینشن کی توثیق کرنا ایک ایسا معاملہ ہو گا جس پر قومی اتفاق رائے نہ ہو گا اور آرمی چیف بھی یقینی طور پر ایسا نہ چاہیں گے۔ معاملہ اب باقاعدہ طور پر پارلیمنٹ میں چلا گیا ہے اور قائمہ کمیٹیوں میں بھی جائے گا۔ پارلیمنٹ میں اس حوالے سے بھی بحث ہو گی جو کہ سول بالادستی کے علم برداروں کو بھلا کب گراں گزر سکتی ہے۔ دوسری جانب، حکومت شاید نظر ثانی اپیل میں جائے گی تاکہ معاملے کو مزید لٹکایا جا سکے اور اس معاملے پر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بحث سے بچا جا سکے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے بہرحال شارٹ آرڈر والے ابہام کو برقرار رکھا ہے اور یہ ابہام ریاست کے لیے کسی صورت مفید نہیں ہے۔