فرقان احمد
محفلین
چھ ماہ ڈاکٹرائن بی آخری دَموں تک پہنچنے سے قبل آکسیجن ماسک کے حصول کے لیے کوشاں رہے گی! کیا فائدہ اس مشقت کا سر جی!باجوہ ڈاکٹرائن نئے آرمی چیف کی منظوری تک چلتی رہے گی۔ فی الحال اس کا 6 ماہ تک کوئی امکان نہیں
چھ ماہ ڈاکٹرائن بی آخری دَموں تک پہنچنے سے قبل آکسیجن ماسک کے حصول کے لیے کوشاں رہے گی! کیا فائدہ اس مشقت کا سر جی!باجوہ ڈاکٹرائن نئے آرمی چیف کی منظوری تک چلتی رہے گی۔ فی الحال اس کا 6 ماہ تک کوئی امکان نہیں
ہائبرڈ نظام نامی کوئی چڑیا آئین کی نظر میں موجودنہیں ہے، بس افسوس یہ ہے کہ ایک تنخواہ دار محافظ کو یہ جسے دشمن کے خلاف لڑنا تھا وہ اپنوں کے خلاف لڑ رہاہے اور ستم ظریفی یہی ہے کہ صرف اسی کی مانی جا رہی ہے کیونکہ اس پاس بندوق ہے۔ اصل میں پاکستان میں "ٹوپک زما قانون" چل رہا ہے۔ ہر بار بدرمنیر کی ہی سنی جاتی ہے، بندوق سرکار کی، اس میں گولی بھی سرکاری خزانے کی اور دشمن محفوظ لیکن اپنے حکمران ہوں یا عوام سب نشانے پر ہیں اور دشمن آرام سے کبھی جونا گڑھ کو ہڑپ کر رہا ہے، کبھی بنگلہ دیش کو، کبھی کارگل اور کبھی کشمیر کو کھاپی کر ڈکار بھی مار چکا ہے۔یہ اس لئے کیونکہ ملک میں مغربی طرز کی جمہوریت نہیں بلکہ ایک ہائبرڈ نظام رائج ہے۔
سیکورٹی چیلنج کون سے، کیا انڈیا پاکستان باقاعدہ جنگ ہو رہی ہے؟ کیا باجوہ صاحب کے علاوہ باقی جرنیل نااہل ہیں؟ ایک ممکنہ جنگ کی کہانی ہی تو ہے، مفروضات پہ ایسی عمارات نہیں بنائی جا سکتیں کیونکہ وہ جلد گر جایا کرتی ہیں۔
اگر دس سالہ ایکسٹینشن دینے کا ارادہ ہے تو بات پر وہی" ٹوپک زما قانون دے" والی ہی ہے ناں اور پھر دیکھنا کوئی ٹوپک والا ہی اس کا اگلا حل نکالے گا، میرے منہ میں خاک کل کلاں یہ آپس میں بندر بانٹ پہ لڑیں گے، میں فوجی پس منظر سے ہوں، بہت اسی ایسی باتیں بھی جانتا ہوں جو لکھی بھی نہیں جا سکتیں، تم نہیں جانتے اقتدار کی لت کہاں سے کہاں تک جڑیں پکڑ چکی ہے، سچ کہوں تو یہ اب وائرس سے بڑھ کر اپیڈیمک یعنی وبائی مرض سے بھی آگے کا رخ اختیار کر چکی ہے۔آرمی چیف کی مدت ملازمت ٹرائل کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ تین سالہ مدت ملازمت بھی محض "روایات" کے تحت دی جاتی ہے۔ یعنی اس حوالہ سے بھی آج تک کوئی قانون سازی نہیں کی گئی ہے۔ اور یہ صرف اس لئے کیونکہ یہ مکمل طور پر ایگزیکٹو کی صوابدید ہے۔ وہ چاہے تو 3 کی بجائے 5 سال یا چاہے تو معزولی و ریٹارئمنٹ کا پروانہ جاری کرنے تک اس پوسٹ پر آرمی چیف کو بٹھائے رکھے۔ اس معاملہ پر قانون بالکل خاموش ہے۔
٭مفروضہ ہے دشمن کی حد تک تو یہ ٪100 پکی بات ہے، کسی بھی جنگ کے نتائج دیکھ لیں، اس پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ مفروضہ ہے ؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔
پاکستان فوج ، جب سے ایٹمی دھماکہ ہوا ہے نااہلی کے سب مراحل طے کررہی ہے۔
انڈیا کا بہانہ ہوگیا اب بہت پرانا، فوج کو صرف مال چاہئیے ، بہانہ انڈیا ہے ۔ یہں ہمارے ایک دوست نے عوام کی کار اور ملٹری کی جیپ کی تصویر پیش کی تھی۔ حلوے مانڈوں کی خواہش نے ان سے ایمان سمیت سب کچھ چھین لیا ہے ۔
افسوسناک
ایسا کیوں ہے؟ اس کی پہلے وجوہات جاننے کی کوشش کریں۔ مغرب میں مختلف قوموں نے جنگوں یا سیاسی تحاریک چلا کر آزادی حاصل کی تو سب سے پہلے ملک کا آئین بنایا۔ اس آئین کے مطابق ملک کے ادارے وجود میں آئے۔ اور پھر ان اداروں نے آگے چل کر اپنے اندر محکمے قائم کئے۔ یوں چل سو چل اقتدار آئین سے ہوتا ہوا اداروں اور محکمہ جات کے ذریعہ عوام تک منتقل ہوا۔ہائبرڈ نظام نامی کوئی چڑیا آئین کی نظر میں موجودنہیں ہے، بس افسوس یہ ہے کہ ایک تنخواہ دار محافظ کو یہ جسے دشمن کے خلاف لڑنا تھا وہ اپنوں کے خلاف لڑ رہاہے اور ستم ظریفی یہی ہے کہ صرف اسی کی مانی جا رہی ہے کیونکہ اس پاس بندوق ہے۔ اصل میں پاکستان میں "ٹوپک زما قانون" چل رہا ہے۔ ہر بار بدرمنیر کی ہی سنی جاتی ہے، بندوق سرکار کی، اس میں گولی بھی سرکاری خزانے کی اور دشمن محفوظ لیکن اپنے حکمران ہوں یا عوام سب نشانے پر ہیں اور دشمن آرام سے کبھی جونا گڑھ کو ہڑپ کر رہا ہے، کبھی بنگلہ دیش کو، کبھی کارگل اور کبھی کشمیر کو کھاپی کر ڈکار بھی مار چکا ہے۔
پاکستان وہ بد نصیب ملک ہے جہاں سیاست دان ملکی مفاد میں اکھٹے نہیں۔ جسکی افواج کے اندر مختلف سیاسی دھڑے موجود ہیں جو ملکی سرحدوں کا دفاع کرنے کی بجائے آپس میں اقتدار کی خاطر لڑتے اور لڑواتے رہتے ہیں۔ جدھر ججز اور وکلا عوام کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کی بجائے جتھے بنا کر اسی عوام کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔میرے منہ میں خاک کل کلاں یہ آپس میں بندر بانٹ پہ لڑیں گے
یہ واقعی بہترین حل ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے۔ ماضی کے گناہوں اور جرائم پر مٹی ڈالی جائے۔ اور یوں سب اسٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر ایک بالکل نیا دوستور اساسی ترتیب دیں جس پر دو تہائی اکثریت کا اتفاق ہو۔ امید ہے اس طرح قوم کا مستقبل خانہ جنگی اور انقلاب کے بغیر ہی ٹھیک ہو جائے گا۔یار آپ حکومتی حامی ہمیشہ سے ایسے ہوتے ہو، حکمران کی غلطی کو بھی اچھائی بنا کر پیش کرنے والے، اس لیے آپ رہنے دیں، بودے دلائل مت دیا کریں، کیا غاصب طاقت کو قانون مانا جا سکتا ہے؟ نہیں، جب ایک بات غلط ہے تو وہ غلط ہی رہے گی، اسے زم زم سے بھی نہلا دیں گے تو پوتر نہیں ہو گی۔ ان بندوق برداروں اور سیاسیہ دونوں کو ماننا ہو گا کہ انہوں نے سسٹم کی آڑ لے کر ایک ٹیڑھی عمارت تعمیر کر دی ہے، اب اس کو گرانا بھی نہیں اور ایسا کچھ کرناہے عدلیہ کو ساتھ ملا کر اس سسٹم میں سےلقونے نکال دئیے جائیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ جنوبی افریقی ماڈل کو بہتر شکل میں لا کر اسے اپنا کر یہ سب اپنی غلطی مانیں، اپنی اپنی حدود میں رہیں اور آئندہ کے لیے کوئی بھی فرد جسے کوئی بھی منصب ملے وہ عوام کے ساتھ براہِ راست عہد کرے۔ فوجی ہے تو قوم کو حلف دے کہ سوائے ملک کی حفاظت کے کام کے کوئی اور کام نہیں کریں گے۔ سیاسیے ہیں تو اسی سسٹم میں رہتے ہوئے اس کی خامیاں دور کرنے کا عہد کریں اور عہد توڑنے پر یہ خود اپنی سزا تجویز کریں ۔ عدلیہ بھی اپنی سمت درست کرے وگرنہ یہاں بہتری نہیں آ سکتی۔
شکر ہے جناب کے دماغ کی کھڑکی کھلی ہے، اسے اب بند نہ کرنا، مستقبل میں بھی کام آئے گی، تازہ ہوا اندر آئے گی تو تبدیلی کا گندہ کیڑہ خود بخود مر جائے گا۔یہ واقعی بہترین حل ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے۔ ماضی کے گناہوں اور جرائم پر مٹی ڈالی جائے۔ اور یوں سب اسٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر ایک بالکل نیا دوستور اساسی ترتیب دیں جس پر دو تہائی اکثریت کا اتفاق ہو۔ امید ہے اس طرح قوم کا مستقبل خانہ جنگی اور انقلاب کے بغیر ہی ٹھیک ہو جائے گا۔
میرے دماغ کی کھڑکیاں تو کھل گئی۔ آپ بھی تھوڑی سی کھول لیں۔شکر ہے جناب کے دماغ کی کھڑکی کھلی ہے، اسے اب بند نہ کرنا، مستقبل میں بھی کام آئے گی، تازہ ہوا اندر آئے گی تو تبدیلی کا گندہ کیڑہ خود بخود مر جائے گا۔
میں ایک غیر جانبدار نقاد ہوں،ہر غلط کام پہ لکھتا ہوں، الحمدللہ مدح سرائی جیسا مرض نہیں مجھ میں۔ اس لیے مجھے کھڑکی کھولنے یا بند کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا،میری ضرورت کی ہوامجھے مل رہی ہے۔ یہ کام حکومتی حامیوں کے لیے ضروری ہے جو اندھے اعتقاد میں غلط کام کی بھی توجیہات پیش کر رہے ہوتے ہیں۔میرے دماغ کی کھڑکیاں تو کھل گئی۔ آپ بھی تھوڑی سی کھول لیں۔