سپریم کورٹ کا حکومتی اداروں کو ماورائے آئین اقدامات کرنے پر انتباہ

زرقا مفتی

محفلین
Attorney General of Pakistan, had been issued with a notice prior to the hearing, told the bench that he supported the stance of the petitioner because it was a matter was related to fundamental rights and political stability.
He further said that earlier the Lahore High Court had also issued a judgment in this regards and the courts had ordered that the government could not be removed through any unconstitutional measures.
In his arguments, attorney general also mentioned a Supreme Court ruling in India which had prohibited a political rally from taking place against the government.
 

نایاب

لائبریرین
"زرد انصاف کے پجاری " ،،،،،،،،،، پیسہ پھینک تماشا دیکھ ۔۔۔ جہاں سالوں تک بنا کسی فیصلے کے مقدمے چلیں ۔ وہاں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار پل میں عدل بیچ دیں ۔۔۔۔۔ سوچو تو سہی کہ درخواست گزار نے عرضی گزاری تھی کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے کامران مرتضیٰ نے کہا کہ پچھلے دو ہفتوں سے ملک کے حالات نازک ہیں اور انسانی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔
انھوں نے سپریم کورٹ کے لارجر بینچ سے استدعا کی کہ وہ حکم جاری کریں کہ کوئی ماورائے آئین اقدام نہ اٹھایا جائے۔


عدل یہ ہوا کہ کوئی ایسی قوت آنے نہ پائے جو عوام کو انسان مان کر انسانی حقوق سے نواز دے ۔۔۔۔یہ عدل کیسے ہوتا کہ انسانی حقوق سلب کرنے والے قومی مجرم ہیں انہیں سزا دی جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو چاہے آپ کا " عدل زر " کر جائے ۔۔۔۔۔۔۔
 

زرقا مفتی

محفلین
Attorney General of Pakistan, had been issued with a notice prior to the hearing, told the bench that he supported the stance of the petitioner because it was a matter was related to fundamental rights and political stability.
He further said that earlier the Lahore High Court had also issued a judgment in this regards and the courts had ordered that the government could not be removed through any unconstitutional measures.
In his arguments, attorney general also mentioned a Supreme Court ruling in India which had prohibited a political rally from taking place against the government.
اٹارنی جنرل کو ایک ماتحت عدالت کے حکم کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں تھی ۔ سپریم کورٹ کے تین رُکنی بنچ کو ہائی کورٹ کے دو ججوں کے حکم کا حوالہ دے کر دباؤ میں نہیں لایا جا سکتا
لاہور ہائی کورٹ بروز بدھ 11 بجے فیصلہ سُنانے والی تھی مگر یہ فیصلہ تین بجے تک موخر کیا گیا تین بجے سے یہ فیصلہ چھ بجے تک موخر کیا گیا اور پھر رات آٹھ بجے مختصر فیصلہ سُنایا گیا
اس کے بعد 14 اگست کے دن تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیافیصلے میں درخواست گزار کی گزارشات سے ہٹ کر ٹیکنو کریٹ حکومت لانے کو غیر آئینی قراار دیا گیا
تفصیلی فیصلے کا متن اور اس کے جاری ہونے کا وقت ہی سب کچھ بتا رہا ہے
 
اٹارنی جنرل کو ایک ماتحت عدالت کے حکم کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں تھی ۔ سپریم کورٹ کے تین رُکنی بنچ کو ہائی کورٹ کے دو ججوں کے حکم کا حوالہ دے کر دباؤ میں نہیں لایا جا سکتا
لاہور ہائی کورٹ بروز بدھ 11 بجے فیصلہ سُنانے والی تھی مگر یہ فیصلہ تین بجے تک موخر کیا گیا تین بجے سے یہ فیصلہ چھ بجے تک موخر کیا گیا اور پھر رات آٹھ بجے مختصر فیصلہ سُنایا گیا
اس کے بعد 14 اگست کے دن تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیافیصلے میں درخواست گزار کی گزارشات سے ہٹ کر ٹیکنو کریٹ حکومت لانے کو غیر آئینی قراار دیا گیا
تفصیلی فیصلے کا متن اور اس کے جاری ہونے کا وقت ہی سب کچھ بتا رہا ہے

کیا یہ جج ناصر الملک نہیں۔ کیا وہی نہیں جس پر عمران نے اظہار اعتماد کیا ہے؟
 

زرقا مفتی

محفلین
چیف جسٹس ناصر الملک نے سماعت کے دوران درخواست گزار سے سوال کیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔

جس پر درخواست گزار کا مؤقف تھا کہ عوام کے بنیادی حقوق خطرے میں ہیں، لہٰذا اس کے تحفظ اور غیر آئینی اقدام روکنے کے خلاف حکم جاری کیا جائے۔

تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے واضح طور پر یہ حکم دیا ہے کہ کوئی بھی ریاستی ادارہ یا حکام کسی بھی قسم کے غیر آئینی اقدام سے گریز کریں۔

http://urdu.dawn.com/news/1008376/
 
چیف جسٹس ناصر الملک نے سماعت کے دوران درخواست گزار سے سوال کیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔

جس پر درخواست گزار کا مؤقف تھا کہ عوام کے بنیادی حقوق خطرے میں ہیں، لہٰذا اس کے تحفظ اور غیر آئینی اقدام روکنے کے خلاف حکم جاری کیا جائے۔

تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے واضح طور پر یہ حکم دیا ہے کہ کوئی بھی ریاستی ادارہ یا حکام کسی بھی قسم کے غیر آئینی اقدام سے گریز کریں۔

http://urdu.dawn.com/news/1008376/

درست
اب فوج کوئی غیر ائینی اقدام نہیں کرے گی۔ لہذا عمران و قادری کے مطالبے پر عمل ہونا ممکن نہیں ہے۔ بہتر ہے لڑائی سے کہ سب لوگ اپنے کارکنان ڈسپرس کرلیں
 

فرحت کیانی

لائبریرین
کیا یہ جج ناصر الملک نہیں۔ کیا وہی نہیں جس پر عمران نے اظہار اعتماد کیا ہے؟
خان صاحب نے تو فخر الدین جی ابراہیم پر بهی اظہار اعتماد کیا تها. بعد میں اسی معتمد شخصیت کے کردار کی دهجیاں اڑائی گئیں. اور انہی خان صاحب پر قادری صاحب نے اعتماد کیا تها زمان پارک سے اکٹهے ریلی شروع کرنے کا. بعد میں کیسے اعتماد توڑا گیا.
ثابت ہوا کہ خان صاحب صرف 'خود اعتماد' ہیں. ان کے نزدیک باقی تمام دنیا کرپٹ اور ناقابل اعتماد ہے.
 
دفعہ 144 ، 245 لگانے اور کنٹینرز میں محبوس کرنے پر بھی ہوتے ہیں
دفعہ 144 اور 245 کی سہولت آئین میں موجود ہے ۔ یہ کسی بھی ضلع کی انتظامیہ کی صوابدید ہے کہ وہ حالات اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئےقانون کی کسی بھی دفعہ کا استعمال کر سکتے ہیں۔
 
Top