سچ تو یہ ہے اگر ترا کردار مر گیا

حنیف خالد

محفلین
سچ تو یہ ہے اگر ترا کردار مر گیا
زندہ بھی تو اگر ہے تو پھر یار مر گیا

اُس قوم کی شکست میں کوئی نہیں ہے شک
جس کا میانِ جنگ ہی سالار مر گیا

ایسا نہ ہو کہ موت پہ یوں کہہ رہے ہوں لوگ
اچھا ہوا کہ ایک تو مردار مر گیا

تب سے ہمیں نصیب ہے ذلت کی زندگی
جب سے ہمارا صاحبِ تلوار، مر گیا

جس نے بنائے شہر کے سب اونچے اونچے گھر
اک جھونپڑے میں کل وہی معمار مر گیا
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں مجھے ’سچ تو ہے یہ‘ بہتر ہو گا میرے خیال میں۔
میانِ جنگ؟ دورانِ جنگ کے متبادل کے طور پر درست نہیں۔
اور ”ایک تو مردار مر گیا‘ اور ’ایک مردار تو مر گیا‘ میں فرق ہے۔ یہاں ’ایک مردار تو‘ کا محل ہے۔اغلاط کی نشان دہی کر دیتا ہوں۔ ماشاء اللہ خود ہی درست کر سکتے ہیں، اس کا یقین ہے مجھے۔
 
Top