محمد شکیل خورشید
محفلین
سچ کہوں ، سچ کہا نہیں جاتا
بن کہے بھی رہا نہیں جاتا
چوٹ ہو گی کوئی بڑی گہری
خون یونہی بہا نہیں جاتا
اے ستم گر ذرا توقف کر
درد پیہم سہا نہیں جاتا
اس کو شائد کچھ انس ہے مجھ سے
وہم یہ بار ہا نہیں جاتا
مجھ پہ بیتا ہے عشق میں جو شکیل
سانحہ وہ کہا نہیں جاتا
بن کہے بھی رہا نہیں جاتا
چوٹ ہو گی کوئی بڑی گہری
خون یونہی بہا نہیں جاتا
اے ستم گر ذرا توقف کر
درد پیہم سہا نہیں جاتا
اس کو شائد کچھ انس ہے مجھ سے
وہم یہ بار ہا نہیں جاتا
مجھ پہ بیتا ہے عشق میں جو شکیل
سانحہ وہ کہا نہیں جاتا