سکوت شب سے کلام کرنے چلا گیا تھا
میں قصہء درد عام کرنے چلا گیا تھا
جہاں پہ اک عمر اور کچھ خواب گر گئے تھے
وہاں میں کچھ دن قیام کرنے چلا گیا تھا
کہیں یہ دنیا، یہ گرد مجھ میں اتر نہ جائے
میں دشت جاں میں خرا م کرنے چلا گیا تھا
بہت دنوں سے تھے لفظ روٹھے ہوئے سو میں بھی
سخن سرا میں قیام کرنے چلا گیا تھا
یہیں کہیں تھا میں روزو شب کو تراشنے میں
یہیں کہیں صبح شام کرنے چلا گیا تھا
میں قصہء درد عام کرنے چلا گیا تھا
جہاں پہ اک عمر اور کچھ خواب گر گئے تھے
وہاں میں کچھ دن قیام کرنے چلا گیا تھا
کہیں یہ دنیا، یہ گرد مجھ میں اتر نہ جائے
میں دشت جاں میں خرا م کرنے چلا گیا تھا
بہت دنوں سے تھے لفظ روٹھے ہوئے سو میں بھی
سخن سرا میں قیام کرنے چلا گیا تھا
یہیں کہیں تھا میں روزو شب کو تراشنے میں
یہیں کہیں صبح شام کرنے چلا گیا تھا