سکولوں میں انتخابات

جاسمن

لائبریرین
میرے بچوں کے سکول میں پچھلے سال انتخابات ہوئے تو وائس ہاؤس کیپٹن کے لئے میرا بیٹا بھی کھڑا ہوا۔بابا نے کچھ نہ کہا۔نہ اچھا نہ برا۔بس خاموش رہے شاید یہ وجہ تھی کہ ایک تجربہ حاصل کر لے۔
اب ہمارا گھر واقعی ایک انتخاب میں حصہ لینے والے امیدوار کا گھر لگتا تھا۔جابجا پوسٹر،تصاویر۔پمفلٹ۔کارڈ۔چارٹ پیپرز۔مارکرز۔رنگین پینسلیں۔اور بس سمجھیں کہ سٹیشنری کی ہر قابل ذکر چیز یہاں وہاں بکھری تھی۔خاص طور پہ محمد کے کمرے میں۔اور ایمی کا کمرہ بھی امیدوار کی بہن کا کمرہ لگتا تھا۔کتابوں اور سٹیشنری کی دکان والا بالکل بھی حیران نہیں تھا کہ سٹیشنری کی خریداری کسی قابل ذکر وقفہ کے بغیر ویسے ہی جاری رہتی ہے۔
گھر کا لیپ ٹاپ،کمپیوٹر اور پرنٹر مسلسل مصروف تھے۔حیران وہ بھی نہیں تھے۔کیونکہ استانیاں بغیر کسی قابلِ ذکر وقفہ کے ان بچوں کے ذمہ نیٹ سے کچھ کنگھالنے اور پرنٹ کرنے کا کام دیتی رہتی ہیں۔
کچھ کام جو گھر نہیں کئے جا سکتے تھے وہ کمپیوٹر اور فوٹو کاپی کی دکان سے کرائے گئے۔لیکن یہ سب کام ہم نے خود کئے۔محمد نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر سکول میں انتخاباتی کمپین چلائی۔ہر کمرہءجماعت میں جا کر انتخابی تقریر کی اور وقفہ میں بچوں کو فردا فردا بھی بتایا۔کئی وعدے کئے اور کئی نہیں بھی کئے۔
محمد نے بتایا کہ کچھ امیدوار کھانے پینے کی چیزیں بچوں میں بانٹتے ہیں اور بچوں کو ووٹ کے لئے کہتے ہیں۔اس کے علاوہ پینا فلیکس بھی بہت سارے لگائے ہیں دیگر بچوں نے۔
محمد صاحب واضح اکثریت سے جیت گئے۔اور دوستوں کو پارٹی دی۔پھر وہ خاصے مصروف رہنے لگے کہ وعدے بھی وفا کرنے تھے اور ذمہ داریاں بھی خاصی تھیں۔
مسّاں مسّاں(بہت مشکل سے) کر کے تعلیمی سال ختم ہوا۔اور والدین نے سکھ کا سانس لیا ہی تھا کہ انتخابات کا دور شروع ہو گیا۔
اب یہاں آپ مغالطے میں ہیں۔اس دفعہ محمد صاحب نے اپنے دو دوستوں کی سماجی مدد شروع کر دی۔جی ہاں بیچارے پہلے کبھی انتخابات میں کھڑے نہیں ہوئے تھے تو اپنے دوست(محمد) سے ملتمس تھے کہ انہیں انتخابات میں کھڑے ہونے اور کھڑے رہنے کے لئے مدد فراہم کرے۔سو محمد نے اگر تھوڑا بہت سوچا بھی تھا حصہ لینے کے لئے تو یہ خیال بالکل چھوڑ دیا اور لگے اپنے دوستوں کی مدد کرنے۔اب ہمارا گھر پہلے کی طرح تو نہیں لیکن پھر بھی امیدوار کے دوست یا مینیجر کا گھر ضرور نظر آتا ہے۔اماں فوٹو سٹیٹ کی دکان پہ کھڑی اپنے پتر کے دوست کے لئے رنگین پرنٹ نکلوا رہی ہیں اور پتر گھر میں پرنٹر اور کمپیوٹر پہ مصروف ہیں۔
بہرحال یہ مثبت پہلو ہے۔لیکن محمد نے پھر یہ بتایا کہ امیدوار بچے اس مرتبہ بھی دوسرے بچوں میں کھانے پینے کی چیزیں بانٹتے ہیں۔اور اس مرتبہ بھی پینا فلیکس لگائے ہیں۔میں نے کہا کہ یہ طریقہ تو مہنگا بھی ہے اور کھانے پینے کی چیزیں دینا تو رشوت کو فروغ دینے والی بات ہے۔
محمد نے بتایا کہ اس مرتبہ ان دونوں چیزوں کو انتظامیہ نے بین کیا ہے لیکن بچوں نے پھر بھی اجازت لے لی ہے کہ اب تو وہ پینا فلیکس بنوا چکے ہیں۔اور پینا فلیکس سکول کے باہر بھی لگائے گئے ہیں۔اور کھانے پینے کی چیزیں پہلے کمرہء جماعت میں استانی کے سامنے دی جاتی تھیں اب منع کرنے کے بعد باہر چھپ کے دی جاتی ہیں۔
سوچیے کہ ہمارے سیاستدانوں کے رویے ہمارے بچوں میں بھی سرایت کر رہے ہیں!!!!
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
بچوں کی مصروفیات کا بھی اپنا مزا ہوتا ہے۔

ویسے آپ نے یہ نہیں بتایا کہ محمد کس عہدے کے لئے الیکشن لڑا تھا۔
 

جاسمن

لائبریرین
غیرمتفق۔ اگر یہ رویے بچوں میں‌بھی ہیں تو مسئلہ سیاستدانوں کا نہیں۔
آپ درست کہہ رہے ہیں ۔اللہ معاف فرمائے،یہ رویہ تو پورے معاشرے کا ہے۔
کل بھی محمد بتا رہا تھا کہ اب بچوں نے اپنے نام و عہدے کی تفصیلات والی چٹوں کے ساتھ دو ٹافیاں بھی جوڑ کے دینی شروع کی ہوئی ہیں۔
میں نے کہا کہ یہ بھی ایک طرح سے رشوت ہی ہے۔
اس پہ وہ دیر تک میرے جملے کو لے کے ہنستا رہا۔مما یہ رشوت ہی ہے۔ایک طرح سے۔۔۔ہاہاہا۔
 
آپ درست کہہ رہے ہیں ۔اللہ معاف فرمائے،یہ رویہ تو پورے معاشرے کا ہے۔
کل بھی محمد بتا رہا تھا کہ اب بچوں نے اپنے نام و عہدے کی تفصیلات والی چٹوں کے ساتھ دو ٹافیاں بھی جوڑ کے دینی شروع کی ہوئی ہیں۔
میں نے کہا کہ یہ بھی ایک طرح سے رشوت ہی ہے۔
اس پہ وہ دیر تک میرے جملے کو لے کے ہنستا رہا۔مما یہ رشوت ہی ہے۔ایک طرح سے۔۔۔ہاہاہا۔
اصل کام یہی ہے کہ سیکھنے کے اس عمل میں بچوں کو صحیح غلط کی پہچان کروائی جائے.
 
Top