یوسفی سگریٹ نوشی

نظام الدین

محفلین
مرزا کرتے وہی ہیں جو ان کا دل چاہے، لیکن اس کی تاویل عجیب و غریب کرتے ہیں۔ صحیح بات کو غلط دلائل سے ثابت کرنے کا یہ ناقابل رشک ملکہ شاذ و نادر ہی مردوں کے حصے میں آتا ہے۔ اب سگریٹ ہی کو لیجئے، ہمیں کسی کے سگریٹ نہ پینے پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن مرزا سگریٹ چھوڑنے کا جو فلسفیانہ جواز ہر بار پیش کرتے ہیں وہ عام آدمی کے دماغ میں بغیر آپریشن کے نہیں گھس سکتا۔
مہینوں وہ یہ ذہن نشین کراتے رہے کہ سگریٹ پینے سے گھریلو مسائل پر سوچ بچار کرنے میں مدد ملتی ہے اور جب ہم نے اپنے حالات اور ان کی حجت سے قائل ہوکر سگریٹ شروع کردی اور اس کے عادی ہوگئے تو انہوں نے چھوڑ دی۔ کہنے لگے۔ ’’بات یہ ہے کہ گھریلو بجٹ کے جن مسائل پر میں سگریٹ پی پی کر غور کیا کرتا تھا، وہ دراصل پیدا ہی کثرت سگریٹ نوشی سے ہوئے تھے۔‘‘
(’’چراغ تلے، موذی‘‘ از مشتاق احمد یوسفی سے اقتباس)
 
مرزا کرتے وہی ہیں جو ان کا دل چاہے، لیکن اس کی تاویل عجیب و غریب کرتے ہیں۔ صحیح بات کو غلط دلائل سے ثابت کرنے کا یہ ناقابل رشک ملکہ شاذ و نادر ہی مردوں کے حصے میں آتا ہے۔ اب سگریٹ ہی کو لیجئے، ہمیں کسی کے سگریٹ نہ پینے پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن مرزا سگریٹ چھوڑنے کا جو فلسفیانہ جواز ہر بار پیش کرتے ہیں وہ عام آدمی کے دماغ میں بغیر آپریشن کے نہیں گھس سکتا۔
مہینوں وہ یہ ذہن نشین کراتے رہے کہ سگریٹ پینے سے گھریلو مسائل پر سوچ بچار کرنے میں مدد ملتی ہے اور جب ہم نے اپنے حالات اور ان کی حجت سے قائل ہوکر سگریٹ شروع کردی اور اس کے عادی ہوگئے تو انہوں نے چھوڑ دی۔ کہنے لگے۔ ’’بات یہ ہے کہ گھریلو بجٹ کے جن مسائل پر میں سگریٹ پی پی کر غور کیا کرتا تھا، وہ دراصل پیدا ہی کثرت سگریٹ نوشی سے ہوئے تھے۔‘‘
(’’چراغ تلے، موذی‘‘ از مشتاق احمد یوسفی سے اقتباس)

شکریہ
 

سارہ خان

محفلین
مہینوں وہ یہ ذہن نشین کراتے رہے کہ سگریٹ پینے سے گھریلو مسائل پر سوچ بچار کرنے میں مدد ملتی ہے اور جب ہم نے اپنے حالات اور ان کی حجت سے قائل ہوکر سگریٹ شروع کردی اور اس کے عادی ہوگئے تو انہوں نے چھوڑ دی۔ کہنے لگے۔ ’’بات یہ ہے کہ گھریلو بجٹ کے جن مسائل پر میں سگریٹ پی پی کر غور کیا کرتا تھا، وہ دراصل پیدا ہی کثرت سگریٹ نوشی سے ہوئے تھے۔‘
ہاہاہا :LOL:
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
مرزا کرتے وہی ہیں جو ان کا دل چاہے، لیکن اس کی تاویل عجیب و غریب کرتے ہیں۔ صحیح بات کو غلط دلائل سے ثابت کرنے کا یہ ناقابل رشک ملکہ شاذ و نادر ہی مردوں کے حصے میں آتا ہے۔ اب سگریٹ ہی کو لیجئے، ہمیں کسی کے سگریٹ نہ پینے پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن مرزا سگریٹ چھوڑنے کا جو فلسفیانہ جواز ہر بار پیش کرتے ہیں وہ عام آدمی کے دماغ میں بغیر آپریشن کے نہیں گھس سکتا۔
مہینوں وہ یہ ذہن نشین کراتے رہے کہ سگریٹ پینے سے گھریلو مسائل پر سوچ بچار کرنے میں مدد ملتی ہے اور جب ہم نے اپنے حالات اور ان کی حجت سے قائل ہوکر سگریٹ شروع کردی اور اس کے عادی ہوگئے تو انہوں نے چھوڑ دی۔ کہنے لگے۔ ’’بات یہ ہے کہ گھریلو بجٹ کے جن مسائل پر میں سگریٹ پی پی کر غور کیا کرتا تھا، وہ دراصل پیدا ہی کثرت سگریٹ نوشی سے ہوئے تھے۔‘‘
(’’چراغ تلے، موذی‘‘ از مشتاق احمد یوسفی سے اقتباس)
زبردست،،
عرب ممالک میں سگریٹ پر VAT لگایا گیا ہے جو پچھلے اکتوبر سے لگ چکا ہے
مختلف اخباروں میں اس کو سن ٹیکس کا بھی نام دیا گیا ہے
یعنی گناہ کا ٹیکس۔
 

محمد وارث

لائبریرین
زبردست،،
عرب ممالک میں سگریٹ پر VAT لگایا گیا ہے جو پچھلے اکتوبر سے لگ چکا ہے
مختلف اخباروں میں اس کو سن ٹیکس کا بھی نام دیا گیا ہے
یعنی گناہ کا ٹیکس۔
جی آ، عربوں کے لیے اب سگریٹ نوشی ہی تو "گناہ" رہ گیا ہے!
 

فرقان احمد

محفلین
کہنے لگے۔ بات یہ ہے کہ گھریلو بجٹ کے جن مسائل پر میں سگریٹ پی پی کر غور کیا کرتا تھا، وہ دراصل پیدا ہی کثرت سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہوئے تھے۔ ہمیں غور و فکر کی لت لگانے کے بعد انہوں نے آنا جانا موقوف کردیاجو اس بات کی علامت تھی کہ وہ واقعی تائب ہوگئے ہیں اور کسی سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتے بالخصوص سگریٹ پینے والوں سے( انہی کا قول ہے کہ بڑھیا سگریٹ پیتے ہی ہر شخص کو معاف کردینے کو جی چاہتا ہے…خواہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہو) میں گیا بھی تو کھنچے کھنچے رہے اور چند دن بعد ایک مشترک دوست کے ذریعہ کہلوایا کہ’’اگر میں نے بربنائے مجبوری سگریٹ پینے کی قسم کھالی تھی تو آپ سے اتنا بھی نہ ہوا کہ زبردستی پلادیتے۔ ’’میں ہوں مجبور، مگر آپ تو مجبور نہیں۔‘‘ سات مہینے تک سگریٹ اور سوسائٹی سے اجتناب کیا۔ لیکن خدا بڑا سبب الاسباب ہے۔ آکر ایک دن جب وہ وعظ سن کر خوش خوش گھر لوٹ رہے تھے تو انہیں بس میں ایک سگریٹ لائٹر پڑا مل گیا۔ چنانچہ پہلے بس اسٹاپ پر اتر پڑے اور لپک کر ’’گولڈ فلیک‘‘ سگریٹ کا ڈبہ خریدا( ہمیں اس واقعہ پر قطعاً تعجب نہیں ہوا۔ اس لئے کہ گزشتہ کرسمس پر انہیں کہیں سے نائلون کے موزے چار آنے رعایت سے مل گئے تھے جن کو’’میچ‘‘ کرنے کے لئے انہیں ایک سُود خور پٹھان سے قرض لے کر پورا سوٹ سلوانا پڑا)۔ سگریٹ اپنے جلتے ہوئے ہونٹوں میں دباکر لائٹر جلانا چاہا تو معلوم ہوا کہ اندر کے تمام پرزے غائب ہیں۔ اب ماچس خریدنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ ہم نے اکثر یہی دیکھا کہ مرزا پیمبری لینے کو گئے اور آگ لے کر لوٹے۔ اور ُدوسرے دن اچانک غریب خانے پر گاڑھے گاڑھے دھوئیں کے بادل چھا گئے، جن میں سے مرز ا کا مسکراتا ہوا چہرہ رفتہ رفتہ طلوع ہوا۔گلے شکوے تمام ہوئے تو نتھنوں سے دُھواں خارج کرتے ہوئے بشارت دی کہ سگریٹ میرے لئے موجبِ نشاط نہیں، ذریعہ نجات ہے۔ اتنا کہہ کر انہوں نے چُٹکی بجا کے اپنے نجات دہندہ کی راکھ جھاڑی اور قدرے تفصیل سے بتانے لگے سگریٹ نہ پینے سے حافطے کا یہ حال ہوگیا تھا کہ ایک رات پولیس نے بغیر بتی کے سائیکل چلاتے ہوئے پکڑ لیاتو اپنا صحیح نام اور ولدیت تک نہ بتا سکا، اور بفضلہ اب یہ عالم ہے کہ ایک ہی دن میں آدھی ٹیلیفون ڈائریکٹری حفظ ہوگئی۔ مجھے لاجواب ہوتا دیکھ کر انہوں نے فاتحانہ انداز سے دُوسری سگریٹ سُلگائی۔ماچس احتیاط سے بجھا کر ہونٹوں میں دبا لی اور سگریٹ ایش ٹرے میں پھینک دی۔

(مشتاق احمد یوسفیؔ کے مضمون ’’موذی‘‘ سے ایک اقتباس)
 
Top