سہی نہیں ، صحیح

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ ضروری تو نہیں کہ جملہ اہلِ زبان ”اپنی زبان“ پہ عبور بھی رکھتے ہوں۔ زبان پر عبور رکھنے والا ”غیر اہل زبان“ اس ”اہلِ زبان“ سے زیادہ مستند ہوتا ہے، جسے اپنی زبان پہ عبور نہ ہو۔ ہاں اگر زبان پر یکساں عبور رکھنے والے کسی اہل زبان اور غیر اہل زبان میں اختلاف رائے ہو تو اہل زبان کی رائے کو ترجیح دی جاتی پے ۔ جیسے عطا ء الحق قاسمی جیسے اردو زبان کےمستند ادیب، شاعر اور استاد نے اپنے ہم منصب مگراہلِ زبان شمیم حنفی کی اس رائے پر سر تسلیم خم کرلیا کہ ”استفادہ حاصل کرنا“ کی ترکیب بھی درست ہے۔ قبل ازیں وہ دیگر بہت سے اردو لکھنے پڑھنے والوں کی طرح اسے اسی طرح غلط سمجھتے تھے جیسے ”آبِ زم زم کا پانی“ یا ”سنگ مر مر کا پتھر“ غلط ہے۔
(یہ والی ”گپ شپ“ تو ٹھیک ہے نا :) )


عجیب بات ہے یہ ، اسے پھر غلط العام کہنا چاہیے ، جبکہ "استفادہ کرنا' کافی ہے ۔

موجودہ دور میں اہل زبان اور اہل مادری زبان کی تعریف جدا کر لینا چاہیے ۔
 

یوسف-2

محفلین
عجیب بات ہے یہ ، اسے پھر غلط العام کہنا چاہیے ، جبکہ "استفادہ کرنا' کافی ہے ۔
موجودہ دور میں اہل زبان اور اہل مادری زبان کی تعریف جدا کر لینا چاہیے ۔

متذکرہ بالا اردو کے دونوں ادباء و اساتذہ نے ”استفادہ حاصل کرنا“ کے ”غلط العام“ ہونے کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔ اُن کا مؤقف یہ ہے کہ ایسا لکھنا بھی ”درست“ ہے۔ انہوں نے یہ نہیں کہا ہے کہ ایسا لازما" لکھنا چاہئے یا ”استفادہ کرنا“ لکھنا غلط یا ناکافی ہے۔
میرے ناقص علم کے مطابق تو اردو زبان و ادب میں تا حال اہلِ مادری زبان کی کوئی اصطلاح موجود نہیں ہے، جسے اہل زبان سے جدا سمجھا جائے۔ ہاں یہ تجویز اچھی ہے، جسے ماہرین لسانیات کی خدمت میں پیش کیا جاسکتا ہے ۔
 

فاتح

لائبریرین
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی​
میری وحشت تری شہرت ہی سہی​
قطع کیجے نہ تعلّق ہم سے​
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی​
میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی​
اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی​
ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے​
غیر کو تجھ سے محبّت ہی سہی​
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو​
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی​
عمر ہر چند کہ ہے برق خرام​
دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی​
ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں​
نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی​
کچھ تو دے اے فلکِ نا انصاف​
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی​
ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے​
بے نیازی تری عادت ہی سہی​
یار سے چھیڑ چلی جائے اسدؔ​
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی​
غالبؔ​
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
متذکرہ بالا اردو کے دونوں ادباء و اساتذہ نے ”استفادہ حاصل کرنا“ کے ”غلط العام“ ہونے کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔ اُن کا مؤقف یہ ہے کہ ایسا لکھنا بھی ”درست“ ہے۔ انہوں نے یہ نہیں کہا ہے کہ ایسا لازما" لکھنا چاہئے یا ”استفادہ کرنا“ لکھنا غلط یا ناکافی ہے۔
میرے ناقص علم کے مطابق تو اردو زبان و ادب میں تا حال اہلِ مادری زبان کی کوئی اصطلاح موجود نہیں ہے، جسے اہل زبان سے جدا سمجھا جائے۔ ہاں یہ تجویز اچھی ہے، جسے ماہرین لسانیات کی خدمت میں پیش کیا جاسکتا ہے ۔

درست کہا آپ نے۔

ان کی تحریر یا گفتگو سامنے نہیں کہ سیاق و سباق کا کچھ اندازہ ہو سکتا، بہر حال غلط العام جب رائج ہو جائے تو وہ پھر غلط نہیں رہتا بلکہ عام ہو جاتا ہے اور اسے اپنا لیا جاتا ہے۔

اچھا ایک بات اور بھی کہ اردو زبان کے ابتدائی اور ترویج کے دور میں جو صاحب علم افراد تھے وہ تمام یا اگر تمام نہیں تو ایک واضح اکثریت ان افراد پر مشتمل تھی جن کے پاس دیگر زبانوں بالخصوص عربی اور فارسی کا علم یا زمینہ موجود تھا تاہم گزرتے وقت کے ساتھ یہ تعداد کم ہوتی چلی گئی ہے اور اس وقت اگر دیکھا جائے تو صورتحال اس کے بر عکس ملتی ہے۔ اس وقت اردو صاحبان علم میں دو طرح سے افراد ملتے ہیں وہ جو عربی اور فارسی زبان میں بیشتر مہارت یا واقفیت رکھتے ہیں دوسرے وہ جو مہارت نہیں رکھتے یا کم رکھتے ہیں۔ اول الذکر اردو زبان کے ارتقاء اور اس کے اصول و قواعد کو ان کی اصل سے جانتے/سمجھتے ہیں یا جان پاتے ہیں جبکہ موخزالذکر کی صورت میں مذکورہ دونوں زبانوں کا پس منظر رکھنے والے کلمات و اصطلاحات کی اصل واضح نہیں ہو پاتی۔
 
Top