سیدہ شگفتہ
لائبریرین
یہ ضروری تو نہیں کہ جملہ اہلِ زبان ”اپنی زبان“ پہ عبور بھی رکھتے ہوں۔ زبان پر عبور رکھنے والا ”غیر اہل زبان“ اس ”اہلِ زبان“ سے زیادہ مستند ہوتا ہے، جسے اپنی زبان پہ عبور نہ ہو۔ ہاں اگر زبان پر یکساں عبور رکھنے والے کسی اہل زبان اور غیر اہل زبان میں اختلاف رائے ہو تو اہل زبان کی رائے کو ترجیح دی جاتی پے ۔ جیسے عطا ء الحق قاسمی جیسے اردو زبان کےمستند ادیب، شاعر اور استاد نے اپنے ہم منصب مگراہلِ زبان شمیم حنفی کی اس رائے پر سر تسلیم خم کرلیا کہ ”استفادہ حاصل کرنا“ کی ترکیب بھی درست ہے۔ قبل ازیں وہ دیگر بہت سے اردو لکھنے پڑھنے والوں کی طرح اسے اسی طرح غلط سمجھتے تھے جیسے ”آبِ زم زم کا پانی“ یا ”سنگ مر مر کا پتھر“ غلط ہے۔
(یہ والی ”گپ شپ“ تو ٹھیک ہے نا )
عجیب بات ہے یہ ، اسے پھر غلط العام کہنا چاہیے ، جبکہ "استفادہ کرنا' کافی ہے ۔
موجودہ دور میں اہل زبان اور اہل مادری زبان کی تعریف جدا کر لینا چاہیے ۔