محمد جواد
اچھے لوگ برے لوگ
یقین کیجیے کرائے کے مکانوں میں دھکے کھانے والوں کی بھی اپنی ایک نفسیات ہوتی ہے یایوں کہیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بن جاتی ہے ۔پکاکوٹھاڈال کر رہنے والے کچھ اور طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔وہ اضطراب ، وہ خانہ بدوشانہ قسم کامزاج اور وہ عجیب طرح کا عدم تحفظ بس وہی لوگ بھگتتے ہیں جوان تجربات سے گزرتے ہیں ۔میں یہ سب باتیں آپ سے اس لیے shareکر رہا ہوں کہ دوماہ قبل میں نے اپنی بیوی اور دوبچوں سمیت پھرنقل مکانی کی ہے اوراب کی بار ایک بہت عجیب سے معاملے سے واسطہ پڑ ا ہے ۔ابھی دوہفتے پہلے میں سٹور سے لینے کچھ گیاتودالیں وغیرہ پیک کرتے دکان دار نے مجھ سے پوچھاکہ آپ کہاں رہتے ہیں ۔جب میں نے گھرکاپتہ بتایاتو اس کے چہرے پربڑ ی پراسرار مسکراہٹ سی آ گئی۔گھرواپس آ کر میں نے یہ بات اپنی بیوی کوبتائی توکہنے لگی ’’جاوید صاحب !اس گھرکوتولوگ کتوں والاگھرکہتے ہیں ‘‘۔
’’ہیں !کیامطلب ؟‘‘
سنا ہے ، ہم سے پہلے کرایہ دار وں نے بڑ ے بڑ ے دوکتے رکھے ہوئے تھے ‘‘۔
’’کوئی بات نہیں ، ان کواچھے لگتے ہونگے ۔ ‘‘
’’مگر مجھے اچھانھیں لگتاکہ لوگ ہمارے گھرکوکتوں والاگھرکہیں ۔ ‘‘
’’یاسمین !میرے تمھارے کہے یہ دنیاچلتی ہے ؟
’’یہ زندگی میری تمھاری پسند یاناپسند سے بے پروا چلی جا رہی ہے ۔ ‘‘
میری بیوی خاموش رہی مگراگلے کچھ دنوں میں اس کی پریشانی بڑ ھتی ہی چلی گئی۔
ہماری سوسائٹی میں ا س کی ایک دورکی رشتے دار خاتون بھی رہتی تھیں ۔انھوں نے بھی بڑ ے دل خراش واقعات کاذکر کیا۔
’’ایک بڑ ھیارہتی تھی۔یہ بڑ اگلاپہنتی تھی۔‘‘
خالہ نے بہت بڑ اساگلابتایا۔
’’ایک بیٹے کی تو شادی کر رکھی تھی۔اب ایک جوان عورت اور تین تین مرد گھرمیں ۔ایک توخاوند ہے ، دو تو نامحرم ہیں مگر جب دیکھوبغیر دپٹے کے اِدھر اُدھر گھوم رہی ہے ‘‘
’’اور ایک باباجی بھی تو تھے ۔ان لڑ کوں کے ابا۔کیابتاؤں ۔نہ کبھی بال کٹواتے تھے نہ ہی کبھی نہاتے ہوں گے ۔گرمیوں میں کبھی اوپر سے ننگے توکبھی نیچے سے ۔ ‘‘
’’نیچے سے ؟‘‘
میری بیوی نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
’’بس وہی لڑ کوں والانیکر ساپہنے رہتے تھے ۔‘‘
’’آدھی آدھی رات کولوگ آتے تھے ۔میں نے ایک دفعہ کہہ ہی دیاکہ جناب گھرآ کر ڈور بیل بجایا کریں ، آپ تو گاڑ ی کے ہارن پرہاتھ رکھ کے بھول جاتے ہیں کہ وقت کیا ہوا ہے ‘‘
’’پھر کیاکہا انھوں نے ؟ ‘‘میری بیوی بولی۔
’’کہنے لگے ہمارا ہوٹل کابزنس ہے ، جلدی گھرنہیں آ سکتے ۔ ‘‘
یہ سب باتیں میری بیوی نے مجھے آ کربتائیں ۔
’’ویسے لوگوں کودوسروں کے معاملات میں بڑ اتجسس ہوتا ہے ۔الٹی پلٹی بات نہ بھی ہوتوبنالیتے ہیں ۔اپناذہن جھٹکو!‘‘ میں نے اکتاہٹ سے کہا۔
’’خودتوآپ ساراسارا دن گھرسے باہر ہوتے ہیں ۔میں نے گھرسنبھالنا ہوتا ہے ۔بچوں کودیکھنا ہوتا ہے ۔کئی بار سوداسلف لینے کے لیے گھرسے نکلنابھی پڑ تا ہے ۔لوگ مجھے دیکھ کرایک دوسرے سے کھسر پھسر شروع کر دیتے ہیں ۔ ‘‘
’’یاسمین !انسان کواپناپتہ ہوناچاہیے اور اپنے اوپراعتماد ہوناچاہیے ۔ ‘‘
’’ میں کوشش بہت کرتی ہوں کہ ذہن جھٹکوں ، آپ کے قیمتی مشوروں پر عمل کروں مگر میں ابھی اس پریشانی سے نکل نہیں سکی۔‘‘ میری بیوی نے کچھ طنز سے کہا۔
’’ ویسے ایک بات بتاؤں تمھیں ۔بعض اوقات ہم اپنی آنکھوں پر نیلے پیلے رنگوں کی عینک لگا لیتے ہیں تو جس رنگ کی عینک ہو ویسا ہی نظر آنا شروع ہو جاتا ہے ۔‘‘
’’آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ۔‘‘
’’ میں یہ کہنا چاہتا ہوں بل کہ کہہ رہا ہوں کہ جوان عورت کو دیکھ کر کھسر پھسر کرنا، اُسے گھورنا، تنگ کرنا تو ہمارا قومی کھیل ہے ۔‘‘
میری بیوی کو ہنسی آ گئی۔ وہ ہنستے ہوئے بہت اچھی لگ رہی تھی۔مجھے اچانک ایک خیال آیا۔
’’ اور تمھیں بھی چاہیے کہ گھر سے نکل کر کہیں بھی جاؤ، کم بولا کرو، کم ہنسا کرو، دانت کم نکالا کرو۔‘‘
’’بس وہی مردوں کی اصل فطرت! گھوم پھر کر قصور عورت کا نکال دیتے ہیں ۔جناب یہ کہ بہت اہم معاملہ ہے ۔ ان لوگوں کی وجہ سے لوگ آپ کو اور مجھے ٹیڑ ھی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں ۔‘‘
’’توکیا کروں ۔اخبار میں لکھوادوں کہ وہ خراب لوگ اپنایہ گھرچھوڑ کرچلے گئے ہیں اور ان کی جگہ دنیاکے اچھے ترین لوگ آ گئے ہیں ۔ ‘‘
’’پھرطنزشروع کر دی آپ نے ، آپ سے بات کرنابالکل فضول ہے ‘‘۔میری بیوی نے اٹھتے ہوئے کہا۔
چند د ن بعد مجھے میری بیوی نے بتایاکہ وہ اپنے ایک دُورکے رشتے دار بزرگ سے جوبہت پہنچے ہوئے ہیں ، اس گھرکے بارے میں ’پتہ ‘کروا رہی ہے ۔ایک روز شام کے وقت ہم چائے پی رہے تھے کہ شاہ صاحب سے میں نے سارامسئلہ ڈسکس کیا تھا۔مجھے تو اس مکان میں بڑ ی بے برکتی بھی محسوس ہوتی ہے ۔ابھی دو دن پہلے میراہاتھ بھی جل گیا ہے ۔آمدنی بھی ہمارے یہاں آ کر کم ہوگئی ہے ۔آپ سے بات کاچوں کہ فایدہ نہیں تھا اس لیے میں نے شاہ صاحب سے مشورہ کرنامناسب سمجھا۔‘‘
’’پھرکیاکہاشاہ صاحب نے ؟ ‘‘
’’کہہ رہے تھے کہ جولوگ تم لوگوں سے پہلے یہاں رہتے تھے وہ بے حد نجس افراد تھے ۔انھی کی وجہ سے یہ بے برکتی اور نحوست ہے ۔گھراچھی طرح دھوکر صاف کرو اور اﷲاور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کانام دیواروں پرٹانکو۔۔۔‘‘
میں کچھ سو چ میں پڑ گیا۔
کچھ سوچتے ہوئے میں نے کہا’’یاسمین !کیاہمیں یہ حق حاصل ہے کہ کسی کونجس یاناپاک کہیں ؟‘‘
’’مجھے آپ سے پوری امید تھی کہ آپ شاہ صاحب سے بھی اختلاف کریں گے ۔پرابلم یہ ہے کہ آپ نے بہت ساری کتابیں پڑ ھ رکھی ہیں ۔ ‘‘، یاسمین نے کچھ نخوت سے کہا۔
’’کتابیں کہاں سے آ گئیں ، یہ توایک سامنے کی عام اختلاف کی بات ہے ۔ ‘‘
اگلے کچھ دنوں میں میری بیوی نے خوب مانجھ مانجھ کرگھرصاف کیا اور چاروں قل اور آئتہ الکرسی گھرکے مین کمرے میں دیواروں پرلٹکائیں ۔
یہ سب کرنے کے بعد یاسمین خاصی مطمئن ہوگئی مگر جب بھی اس کی خالہ ان لوگوں کے بارے میں ہوش رباقسم کی باتیں بتاتیں وہ تھوڑ ی دیر کے لیے پریشان ہوجاتی۔
میں جب سے اس مکان میں شفٹ ہوا تھامسلسل پچھلے لوگوں کے قصے سن رہا تھا۔ خالہ، سٹوروالا، سبزی بیچنے والا، مالی اور بغل والے گھر کاڈرائیور، جسے دیکھوان لوگوں کے بارے میں بہت عجیب و غریب قسم کی باتیں سناتا۔
مگرابھی کل ایک عجیب واقعہ ہوا۔میں آفس کے لیے گھرسے نکلاتوایک ڈاڑ ھی والے نوجوان نے مجھے مین گیٹ پر رکنے کا اشارہ کیا۔میرے گاڑ ی روکنے کے بعد وہ میرے پاس آیا اور بولا: ’’میں نے کیمپس پل تک جانا ہے ۔کیامیں آپ کے ساتھ گاڑ ی میں سفرکرسکتا ہوں ؟ ‘‘
’’جی آئیے ، میں ادھرہی جا رہا ہوں ۔ ‘‘
’’آپ اسی سوسائٹی میں رہتے ہیں ؟‘‘
’’ابھی دوماہ قبل شفٹ ہوئے ہیں ہم۔ ‘‘
’’کون ساہاؤس نمبرہے آپ کا؟‘‘
’’جی! B-450۔‘‘
’’اچھاوہ فیضان لوگوں والاگھر۔‘‘
میں چونکا’’آپ ان لوگوں کوجانتے ہیں ؟ ‘‘
’’جی! ان کے دولڑ کے تھے فیضان اور سادان ۔وہ روزہمارے ساتھ کرکٹ کھیلتے تھے ۔ ‘‘
’’کیسے لڑ کے تھے وہ؟ ‘‘
’’بہت کم لوگ ایسے پیار کرنے والے اور دل کے صاف ہوتے ہیں ۔ ‘‘
’’آپ کتنی دیر ان لوگوں کے ساتھ اس سوسائٹی میں رہے ؟ ‘‘
’’کوئی دوسال جناب !‘‘
’’دونوں بھائی بڑ ے وقت پرگراؤنڈ میں آ جاتے ، ہنستے مسکراتے ، بہت امیرلوگوں کے بچے تھے ۔وقتی طورپریہاں رہتے تھے ۔اب انھوں نے جوہرٹاؤن میں اپنامکان بنالیا ہے ۔ ‘‘
’’مجھے اور کچھ بتائیے ان کے بارے میں ، اصل میں محلے والے بڑ ی عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں ان کے بارے میں ۔ ‘‘
’’جناب دنیاکی تویہی ریت ہے ۔وہ لوگ تھوڑ ا الگ الگ رہتے تھے شاید اس لیے ۔اپنی ہی الگ دنیاتھی ان کی۔ایک مرتبہ کھیلتے ہوئے میری ٹانگ فریکچرہوگئی۔دونوں نے فوراًگاڑ ی نکالی، مجھے ہسپتال لے کرگئے ۔میرے گھروالوں کواطلاع دی اور رات تک وہیں ہسپتال میں ہم لوگوں کے ساتھ بیٹھے رہے ۔ ‘‘
میں بالکل خاموش ہوکر ڈرائیو نگ کرتا رہا، جب کیمپس پُل آ گیاتونوجوان نے میراشکریہ ادا کرناچاہا۔
’’شکریہ تومجھے آپ کا ادا کرناچاہیے ۔ ‘‘
’’کیوں جناب؟ ‘‘
’’کیوں کہ آپ نے میرا ایک مسئلہ حل کر دیا۔‘‘
’’یہ سب اﷲکی طرف سے ہے ۔آپ چاہتے تھے کہ مسئلہ حل ہوتواﷲنے کر دیا۔جناب نظروہی کچھ آتا ہے جوہم دیکھناچاہتے ہیں ۔مجھے اور آپ کو بھی شاید وہی دکھائی دے رہا ہے جوہم دیکھناچاہ رہے ہیں ۔ ‘‘
’’تو جناب یہ Mysteryہمیشہ قائم رہے گی کہ وہ لوگ کیسے تھے ۔ ‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’بے شک ، آخری علم اﷲہی کے پاس ہے ۔ ‘‘
اشارے سے خداحافظ کہہ کروہ چلا گیا۔
میں نے آفس سے گھرآ کربھی اپنی بیوی سے کوئی بات نہیں کی۔وہ ویسے بھی گھرکی صفائی اور قرآنی آیات کودیواروں پرآویزاں کرنے کے بعد خاصی مطمئن ہو چکی ہے ۔خالہ، مالی، ہمسایوں کاڈرائیور ، سٹوروالالڑ کا، یہ سب بھی ان لوگوں کو ماضی کاحصہ سمجھتے ہوئے بھولتے جا رہے ہیں ۔پہلے پہل میرادل چاہتا تھاکہ اس نوجوان سے مل کرمیں ان کا ایڈریس حاصل کروں گا۔ان لوگوں کو ایک نظر دیکھوں مگر اب مجھے یہ بات بھی بڑ ی غیر ضروری محسوس ہوتی ہے کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ وہاں جا کر بھی میں وہی کچھ دیکھوں گاجومیں اصل میں دیکھناچاہتا ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔