گرو جی
محفلین
السلام و علیکم
ارضِ پاکستاں میں یوںتو کئ بیماریاںپائی جاتی ہیں۔ مگر ایک بیماری ایسی جس پر کسی نے ریسرچ نہیںکی اور وہ ہے "سیاست"۔
یوں تو سیاست ایک معزز پیشہ ہے مگر یہ ایک بیماری کی طرح ہماری رگوں میںدوڑنے لگی ہے اور کچھ ہی عرصے میں یہ بیماری دوسری کئی بیماریوں کی طرح ملک کی آبادی کو گرفت میں لے لے گی۔
اس کی وجہ ہرگز یہ نہیںکہ یہ کوئی خطرناک بیماری ہے۔ مگر سانپ کے ڈسے ہوئے کی طرح یہ بیماری بھی پانی بھی نہیں پینے دی گی۔
ملک میں جس طرح یہ بیماری پھیل رہی ہے اس طرح تو کچھ عرصے میں ملک میں مردم شماری کی تفصیلات تبدیل ہو جائیں گی۔ یعٰنی ملک میں کتنے بچے،بوڑھے،مردوخواتیں اور سیاستداں پائے جاتے ہیں۔
سیاست کہ سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ شوگر اور کئی بیماریوں کی طرح موروثی بیماری بنتی جا رہئ ہے۔ یعٰنی اگر آپ کے والدیں میں سے کوئی اس بیماری کا شکار ہے تو قوی امید ہے کہ آپ بھی اس بیماری میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور یہ آگے نسل در نسل منتقل ہوتی جاتی ہے۔
جس طرح پرانے زمانوں میںکسی کا تذکرہ اس طرحہوتا تھا کہ فلاںصاحب جدی پشتی نواب یا گدی نشیں ہیں،تو اب اسی طرح کچھ عرصے میں کسی کے لئے تذکرہ اس طرح ہوگا کہ فلاں صاحب جدی پشتی سیساستداںہیں۔ اس سے آپ اس بیماری کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
لیکںاس بات سے بھی انکار نہیںہے کہ یہ بیماری اگر آپ کے گھر میںکسی کو نہیںتو آپ کو بھی نہیںہو سکتی، کیوں کہ نئے دور میں سب کچھ ممکں ہے۔
کہتے ہیں کہ سنار اور سیاستداں اپنے والدیں کے نہیںہوتے اور اس کی مثال کچھ اس طرح سے ہے کہ آج کل والدیں کسی اور جماعت کے کارکن ہوتے ہیں اور بچے کسی اور جماعت کے۔
اس ملک کی بدنصیبی یہ ہے کہ اس ملک کی باگ دوڑ ان کے ہاتھوں میں جو خود کسی کے اشارے پر چلتے ہیں۔
دو سیاستدانوں میں آپس میں تلخ کلامی ہو گئی تو ایک سیاستداں نے دوسرے کو طنزیہ لہجے میں کہا میںسب جانتا ہوں کہ تم کس کے اشاروں پر ناچتے ہو، تو دوسرے نے جل کے جواب دیا کہ گھر کی بات کو بیچ میں کیوں لاتے ہو۔
سیاست کے لغوی معٰنی تو نہیںمعلوم مگر آپ سیا ست کو اگر تقسیم کر کے دیکھیںتو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ سیاست کا مفہوم کچھ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ سیا معٰنی سیاہی اور ست پنجابی میں سات کو کہتے ہیں، تو اس لحاظ سے سیاست کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ سات بار سیاہی ملی جانا۔ 1
سیاست کے بھی کئی ادوار ہوتے ہیں اور ضروری نہیںکہ ہر شخص سیاست کے سارے ادوار کا مریض ہو۔
مثلاً کارکں ، بزرگ کارکں، انچارچ، سیکٹر انچارچ، سیکیورٹی انچارچ، خزانچی، نائب صدر، صدر، صوبائی وزیر، قومی وزیر، وزارت، اعٰلی یا عظمٰی وغیرہ وغیرہ۔ وقتاً فوقتاً ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔
سیاسی بیمار ہمیشہ بیمار ہی رہتے ہیں مگر ان کی بیماری کا ذکراس وقت ہوتا ہے جب وہ جیل میں ہوتے ہیں یا کسی مقدمہ کی پیشی میں آتے ہیں۔
سید یوسف رضا گیلانی کے نزدیک پرائم منسٹر ہاؤس اور جیل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کیوںدونوںپولیس کی نگرانی میں ہوتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پرائم منسٹر ہاؤس میں آپ کو سیکیورٹی دی جاتی ہے جبکہ جیل میں آپ سیکیریٹی رسک ہوتے ہیں۔
سیاست کے موضوع پر کچھ اور بھی شامل کروں گا۔ امید کرتا ہوں کہ یہ تحریر بھی آپ سب کو پسند آئے گی۔
شکریہ پڑھنے کا
1 یہ صرف اور صرف مصنف کا زاتی خیال اور تشریح ہے۔ اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ارضِ پاکستاں میں یوںتو کئ بیماریاںپائی جاتی ہیں۔ مگر ایک بیماری ایسی جس پر کسی نے ریسرچ نہیںکی اور وہ ہے "سیاست"۔
یوں تو سیاست ایک معزز پیشہ ہے مگر یہ ایک بیماری کی طرح ہماری رگوں میںدوڑنے لگی ہے اور کچھ ہی عرصے میں یہ بیماری دوسری کئی بیماریوں کی طرح ملک کی آبادی کو گرفت میں لے لے گی۔
اس کی وجہ ہرگز یہ نہیںکہ یہ کوئی خطرناک بیماری ہے۔ مگر سانپ کے ڈسے ہوئے کی طرح یہ بیماری بھی پانی بھی نہیں پینے دی گی۔
ملک میں جس طرح یہ بیماری پھیل رہی ہے اس طرح تو کچھ عرصے میں ملک میں مردم شماری کی تفصیلات تبدیل ہو جائیں گی۔ یعٰنی ملک میں کتنے بچے،بوڑھے،مردوخواتیں اور سیاستداں پائے جاتے ہیں۔
سیاست کہ سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ شوگر اور کئی بیماریوں کی طرح موروثی بیماری بنتی جا رہئ ہے۔ یعٰنی اگر آپ کے والدیں میں سے کوئی اس بیماری کا شکار ہے تو قوی امید ہے کہ آپ بھی اس بیماری میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور یہ آگے نسل در نسل منتقل ہوتی جاتی ہے۔
جس طرح پرانے زمانوں میںکسی کا تذکرہ اس طرحہوتا تھا کہ فلاںصاحب جدی پشتی نواب یا گدی نشیں ہیں،تو اب اسی طرح کچھ عرصے میں کسی کے لئے تذکرہ اس طرح ہوگا کہ فلاں صاحب جدی پشتی سیساستداںہیں۔ اس سے آپ اس بیماری کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
لیکںاس بات سے بھی انکار نہیںہے کہ یہ بیماری اگر آپ کے گھر میںکسی کو نہیںتو آپ کو بھی نہیںہو سکتی، کیوں کہ نئے دور میں سب کچھ ممکں ہے۔
کہتے ہیں کہ سنار اور سیاستداں اپنے والدیں کے نہیںہوتے اور اس کی مثال کچھ اس طرح سے ہے کہ آج کل والدیں کسی اور جماعت کے کارکن ہوتے ہیں اور بچے کسی اور جماعت کے۔
اس ملک کی بدنصیبی یہ ہے کہ اس ملک کی باگ دوڑ ان کے ہاتھوں میں جو خود کسی کے اشارے پر چلتے ہیں۔
دو سیاستدانوں میں آپس میں تلخ کلامی ہو گئی تو ایک سیاستداں نے دوسرے کو طنزیہ لہجے میں کہا میںسب جانتا ہوں کہ تم کس کے اشاروں پر ناچتے ہو، تو دوسرے نے جل کے جواب دیا کہ گھر کی بات کو بیچ میں کیوں لاتے ہو۔
سیاست کے لغوی معٰنی تو نہیںمعلوم مگر آپ سیا ست کو اگر تقسیم کر کے دیکھیںتو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ سیاست کا مفہوم کچھ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ سیا معٰنی سیاہی اور ست پنجابی میں سات کو کہتے ہیں، تو اس لحاظ سے سیاست کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ سات بار سیاہی ملی جانا۔ 1
سیاست کے بھی کئی ادوار ہوتے ہیں اور ضروری نہیںکہ ہر شخص سیاست کے سارے ادوار کا مریض ہو۔
مثلاً کارکں ، بزرگ کارکں، انچارچ، سیکٹر انچارچ، سیکیورٹی انچارچ، خزانچی، نائب صدر، صدر، صوبائی وزیر، قومی وزیر، وزارت، اعٰلی یا عظمٰی وغیرہ وغیرہ۔ وقتاً فوقتاً ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔
سیاسی بیمار ہمیشہ بیمار ہی رہتے ہیں مگر ان کی بیماری کا ذکراس وقت ہوتا ہے جب وہ جیل میں ہوتے ہیں یا کسی مقدمہ کی پیشی میں آتے ہیں۔
سید یوسف رضا گیلانی کے نزدیک پرائم منسٹر ہاؤس اور جیل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کیوںدونوںپولیس کی نگرانی میں ہوتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پرائم منسٹر ہاؤس میں آپ کو سیکیورٹی دی جاتی ہے جبکہ جیل میں آپ سیکیریٹی رسک ہوتے ہیں۔
سیاست کے موضوع پر کچھ اور بھی شامل کروں گا۔ امید کرتا ہوں کہ یہ تحریر بھی آپ سب کو پسند آئے گی۔
شکریہ پڑھنے کا
1 یہ صرف اور صرف مصنف کا زاتی خیال اور تشریح ہے۔ اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔