پروفیسر شوکت اللہ شوکت
محفلین
یہ کالم 2018 میں لکھا تھا. ملاحظہ ہو.
اخلاقیات کا گہرا تعلق معاشرے کے ساتھ بنتا ہے اور معاشرے کی اصلاح اس کے بغیر ناممکن ہے کیوں کہ اخلاقیات ہمیں غیبت ، چغل خوری ، بد گمانی ، جھوٹ ، فریب ، دھوکے بازی ، چوری ، بخل ، انتقام ، منافقت ، ظلم و زیادتی، بغض و کینہ ، دو رُخی ، خیانت ، بے ایمانی ، حسد ، لعن طعن ، گالم گلوچ ، طمع و لالچ ، بہتان و تہمت اور بد دیانتی وغیرہ تمام ظاہری و باطنی بیماریوں سے بچاتی ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارے اندر اخلاقیات کا مادہ معدوم ہوتا جارہا ہے جس کے منفی اثرات معاشرے کی پیشانی پر نمایاں نظر آتے ہیں۔افسوس ہمیں اصلاح معاشرہ کی کوئی فکر تک لاحق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرہ روز بروز زوال کی دلدل میں دھنسا جارہا ہے۔ اگر اخلاقیات کو معاشرتی اداروں کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں تقریباً ہر ادارہ اخلاقیات کے دائرہ کار سے باہر نکلتا دکھائی دے رہا ہے ۔وضاحت کے لئے سادہ سی مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ اگر کسی ادارے میں چور اُچکاے کو نگہبانی کے لئے بھرتی کیا جائے تو اس سے کیا خیر کی توقع رکھی جا سکتی ہییا اگر ایک خائن کو کسی ادارے میں کوئی عہدہ سونپا جائے تو اس سے ایمان داری کی توقع رکھنا محض خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اگرچہ اخلاقیات کا پہلو ہر لحاظ سے اپنے اندر وسعت سموئے ہوئے ہے لیکن راقم الحروف اپنے اس کالم کو صرف سیاسی اخلاقیات تک محدود رکھ رہا ہے ۔تمہید کے لئے ایک لطیفہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں، اُمید ہے کہ محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کی گہرائی میں چھپے مفہوم کو بھی سمجھ پائیں گے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ سیاست دانوں کی بس کھائی میں گر گئی ۔ گاؤں کے لوگ امداد کی غرض سے جائے حادثہ پر پہنچے اور ریسکیو ٹیمیں حسب روایت ذرا تاخیر سے پہنچیں۔ریسکیو آپریشن مکمل ہوا تو کوئی بھی سیاست دان زندہ نہیں بچ پایا تھا اور جب لوگوں سے حادثے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب بس کو حادثہ پیش آیا تو اُس وقت چیخ و پکار اور ہم زندہ ہیں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں لیکن ہم کو اس لئے یقین نہیں آیا کہ سیاست دان کبھی سچ نہیں بولتے۔
گزشتہ روز ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ انہوں نے اس بار انتخابات کے لئے مضبوط اُمیدواروں کو ٹکٹ دیئے ہیں۔ جی ہاں ! مضبوط اُمیدوار اُسی کو کہا جاتا ہے جس کے پاس زیادہ دولت و پیسہ ہو اور منتخب ہو کر اپنے اور پارٹی کے لئے زیادہ سے زیادہ کما سکے۔بادی النظر اس کے ، کہ وہ لوٹا یعنی موسمی پرندہ ہی کیوں نہ ہو۔یہ بات من اظہر الشمس ہے کہ موسمی پرندے ہر انتخابات میں حصہ لیتے ہیں، ہواؤں کے رُخ پر اپنی جماعتیں تبدیل کرتے رہتے ہیں اور ہر جماعت کے ساتھ لمبی اننگز کھیلنے کا عہد وپیمان بھی کرتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جماعتوں میں شمولیت کے وقت اُن کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہا جاتا ہے اور انہیں جماعت کی مخصوص ٹوپیاں وغیرہ اور ہار پہنائے جاتے ہیں۔ یہ ہماری سیاسی اخلاقیات ہیں اور انہی اخلاقیات کے ساتھ ہم انتخابات 2018 ء میں جارہے ہیں۔ ہر طرف سیاسی اخلاقیات کی دھجیاں بکھرتی نظر آرہی ہیں اور پُرانے کارکنوں اور جیالوں کا استحصال کر کے موسمی پرندوں کو ٹکٹ دیئے جارہے ہیں۔ پھر پانچ سال کا دورانیہ عیش و عشرت اور ٹھاٹ باٹ میں گزر جاتا ہے اور نئے انتخابات کے لئے ونڈ سوک ( ہوا کارُخ معلوم کرنے کا آلہ ) کی مدد سے نئی جماعت کا رُخ کیا جاتا ہے اور نئے عہد وپیمان کے ساتھ الیکشن لڑا جاتا ہے۔ پس ایسے سیاسی اخلاقیات سے عاری سیاست دانوں کا راستہ عوام صرف و صرف ووٹ کی طاقت روک سکتے ہیں اور اپنے سیاسی جماعتوں کے قائدین کو احساس دلا سکتے ہیں کہ اُن کے فیصلے درست نہیں ہیں۔
اخلاقیات کا گہرا تعلق معاشرے کے ساتھ بنتا ہے اور معاشرے کی اصلاح اس کے بغیر ناممکن ہے کیوں کہ اخلاقیات ہمیں غیبت ، چغل خوری ، بد گمانی ، جھوٹ ، فریب ، دھوکے بازی ، چوری ، بخل ، انتقام ، منافقت ، ظلم و زیادتی، بغض و کینہ ، دو رُخی ، خیانت ، بے ایمانی ، حسد ، لعن طعن ، گالم گلوچ ، طمع و لالچ ، بہتان و تہمت اور بد دیانتی وغیرہ تمام ظاہری و باطنی بیماریوں سے بچاتی ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارے اندر اخلاقیات کا مادہ معدوم ہوتا جارہا ہے جس کے منفی اثرات معاشرے کی پیشانی پر نمایاں نظر آتے ہیں۔افسوس ہمیں اصلاح معاشرہ کی کوئی فکر تک لاحق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرہ روز بروز زوال کی دلدل میں دھنسا جارہا ہے۔ اگر اخلاقیات کو معاشرتی اداروں کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں تقریباً ہر ادارہ اخلاقیات کے دائرہ کار سے باہر نکلتا دکھائی دے رہا ہے ۔وضاحت کے لئے سادہ سی مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ اگر کسی ادارے میں چور اُچکاے کو نگہبانی کے لئے بھرتی کیا جائے تو اس سے کیا خیر کی توقع رکھی جا سکتی ہییا اگر ایک خائن کو کسی ادارے میں کوئی عہدہ سونپا جائے تو اس سے ایمان داری کی توقع رکھنا محض خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اگرچہ اخلاقیات کا پہلو ہر لحاظ سے اپنے اندر وسعت سموئے ہوئے ہے لیکن راقم الحروف اپنے اس کالم کو صرف سیاسی اخلاقیات تک محدود رکھ رہا ہے ۔تمہید کے لئے ایک لطیفہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں، اُمید ہے کہ محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کی گہرائی میں چھپے مفہوم کو بھی سمجھ پائیں گے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ سیاست دانوں کی بس کھائی میں گر گئی ۔ گاؤں کے لوگ امداد کی غرض سے جائے حادثہ پر پہنچے اور ریسکیو ٹیمیں حسب روایت ذرا تاخیر سے پہنچیں۔ریسکیو آپریشن مکمل ہوا تو کوئی بھی سیاست دان زندہ نہیں بچ پایا تھا اور جب لوگوں سے حادثے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب بس کو حادثہ پیش آیا تو اُس وقت چیخ و پکار اور ہم زندہ ہیں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں لیکن ہم کو اس لئے یقین نہیں آیا کہ سیاست دان کبھی سچ نہیں بولتے۔
گزشتہ روز ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ انہوں نے اس بار انتخابات کے لئے مضبوط اُمیدواروں کو ٹکٹ دیئے ہیں۔ جی ہاں ! مضبوط اُمیدوار اُسی کو کہا جاتا ہے جس کے پاس زیادہ دولت و پیسہ ہو اور منتخب ہو کر اپنے اور پارٹی کے لئے زیادہ سے زیادہ کما سکے۔بادی النظر اس کے ، کہ وہ لوٹا یعنی موسمی پرندہ ہی کیوں نہ ہو۔یہ بات من اظہر الشمس ہے کہ موسمی پرندے ہر انتخابات میں حصہ لیتے ہیں، ہواؤں کے رُخ پر اپنی جماعتیں تبدیل کرتے رہتے ہیں اور ہر جماعت کے ساتھ لمبی اننگز کھیلنے کا عہد وپیمان بھی کرتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جماعتوں میں شمولیت کے وقت اُن کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہا جاتا ہے اور انہیں جماعت کی مخصوص ٹوپیاں وغیرہ اور ہار پہنائے جاتے ہیں۔ یہ ہماری سیاسی اخلاقیات ہیں اور انہی اخلاقیات کے ساتھ ہم انتخابات 2018 ء میں جارہے ہیں۔ ہر طرف سیاسی اخلاقیات کی دھجیاں بکھرتی نظر آرہی ہیں اور پُرانے کارکنوں اور جیالوں کا استحصال کر کے موسمی پرندوں کو ٹکٹ دیئے جارہے ہیں۔ پھر پانچ سال کا دورانیہ عیش و عشرت اور ٹھاٹ باٹ میں گزر جاتا ہے اور نئے انتخابات کے لئے ونڈ سوک ( ہوا کارُخ معلوم کرنے کا آلہ ) کی مدد سے نئی جماعت کا رُخ کیا جاتا ہے اور نئے عہد وپیمان کے ساتھ الیکشن لڑا جاتا ہے۔ پس ایسے سیاسی اخلاقیات سے عاری سیاست دانوں کا راستہ عوام صرف و صرف ووٹ کی طاقت روک سکتے ہیں اور اپنے سیاسی جماعتوں کے قائدین کو احساس دلا سکتے ہیں کہ اُن کے فیصلے درست نہیں ہیں۔