شمشاد
لائبریرین
سیاسی اردو ادب ۔ فاروق قیصر کے قلم سے
ہمارے ہاں چونکہ جیل میں چھوٹے لوگوں کو " صعوبتیں " اور بڑے لوگوں کو "سہولتیں" حاصل ہوتی ہیں، لہٰذا اکثر بڑے لوگوں کے لیے جیل "جسٹ فار اے چینج" اور چھوٹے لوگوں کے لیے "جسٹ فار اے چیلنج" کے مترادف ہوتی ہے۔ بڑے لوگ جب جیل میں ہوتے ہیں تو باقاعدگی سے وہ کام شروع کر دیتے ہیں جنہیں کرنے کی انہیں جیل سے باہر فرصت نہیں ملتی، مثلا داڑھی رکھ لینا، پانچ وقت کی نماز پڑھنا، تین وقتی مطالعہ اور ہمہ وقت کتاب لکھنا وغیرہ وغیر۔
بقول انکل سرگم، جیل ایک ایسی بے ادب جگہ ہے، جہاں بڑا بڑا ادب تخلیق ہوتا ہے۔ بڑے لوگ جیل سے باہر بڑے بے ادب ہو جاتے ہیں، جیل میں پہنچتے ہیں با ادب ہو کر "ادب" تخلیق کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بڑے لوگوں کو جیل میں اکثر دوسری چیزوں کے بارے میں " لگ پتہ " جانے کے علاوہ اپنے ملک کے بڑے بڑے دانشورں، شاعروں، ادیبوں کے بارے میں بھی پتہ چل جاتا ہے کہ "ہوؤ از ہو؟" (Who is Who) یعنی اس جیل میں کون کون رہ چکا ہے؟ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں سیاستدانوں کے لیے بہترین "درس گاہ" اور دانشورں کے لیے بہترین "ادب گاہ" جیل ہی ہے۔
بونگے کا اصرار ہے کہ جس طرح ایک اچھا ادب اور اچھا ٹی وی ڈرامہ تخلیق کرنے پر ادیب یا ٹی وی پروڈیوسر کا ایوارڈ دیا جاتا ہے، اسی طرح بُرا ادب اور گھٹیا ڈرامہ پروڈیوس کرنے پر ادیب یا پروڈیوسر کو سزا بھی ملنی چاہیے۔ ماسی مصیبتے کو ڈر ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو جیلوں میں ٹی وی پروڈیوسروں کے دھرنے کی جگہ بھی نہیں رہے گی۔
(جاری ہے ۔۔۔)