محب علوی
مدیر
حکومت کی طرف سے بار بار یہ سوال اٹھایا جاتا رہا ہے اور اب بھی کہا جاتا ہے کہ چیف جسٹس کے آئینی اور قانونی مسئلہ کو سیاسی جماعتیں سیاسی بنا رہی ہیں اور اس سے اپنی سیاست چمکا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ چیف جسٹس پر بھی یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ بھی سیاست کر رہے ہیں ؟
آئیں ان سوالوں پر غور کریں اور جواب تلاش کریں۔
میرے خیال سے اس کا سادہ اور بالکل واضح جواب یہ ہے کہ چیف جسٹس نے کہیں بھی آئین سے ماورا بات نہیں کی اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی کا اظہار کیا ہے اور نہ حکومت پر تنقید کی ہے اور نہ قانون کے دائرہ کار سے نکل کر کوئی حرکت کی ہے۔ جنرل مشرف کے برعکس کہیں یہ دعوی نہیں کیا کہ میں حقائق قوم کو بتاؤںگا اور نہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم گنوائے ہیں۔ تمام خطبات میں آئین کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی کی بات کی ہے جو تمام عوام کا مطالبہ ہے اور آئینی تقاضہ بھی۔ بار سے خطاب وہ پہلے بھی کرتے آئے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں یہ نہ تو نئی بات ہے نہ سیاسی قدم۔ البتہ اب لوگ بھی ذوق و شوق سے سنتے ہیں انہیں تو حکومتی حلقوں کو یہ سیاسی رویہ لگ رہا ہے۔
دوسری بات کسی کو منوانے کی ضرورت ہی نہیں سیاسی جماعتیں اور جتنے بھی لوگ ہیں وہ اس مسئلے پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور بناتے رہیں گے ورنہ عدلیہ کے ساتھ جو سلوک پہلے ہوتا رہا ہے وہ پھر سے ہو جاتا اور دو ہفتوں میں کیس کا فیصلہ چیف جسٹس کے خلاف لے چکے ہوتے۔ وکلا نے شروع سے خود کو سیاسی جماعتوں سے الگ رکھا ہے اور بار کے تمام خطبات میں سیاسی کارکنوں کو باہر ہی رکھا گیا ہے اور اسی وجہ سے وکلا نے کراچی میں بھی اپوزیشن کو استقبال سے علیحدہ رکھا۔
سب سے پہلے تو میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ آئین کیا سیاست سے ہٹ کر کوئی چیز ہے ، کیا آئین سیاسی جماعتیں اور سیاسی جماعتوں پارلیمنٹ میں ہی نہیں بناتی اور کیا اس میں ترمیم اور اضافے سیاسی جماعتیں ہی نہیں کرتیں۔کیا آئین اور قانون پر سیاسی جماعتیں خاموش بیٹھا کرتی ہیں اور کیا آئین اور قانون کی پاسداری کے لیے جدوجہد کرنا سیاسی جماعتوں کا اولین فریضہ نہیں ہے۔ کیا عدلیہ کی آزادی کے لیے وکلا کی حمایت اور عوام کے اندر شعور پیدا کرنا سیاسی جماعتوں کا بنیادی فریضہ نہیں ہے ؟ کیا ایسا کرنا سیاست کو چمکانا ہے
کیا پارلیمنٹ کو ہم مقننہ نہیں کہتے جس کا کام ہی قانون بنانا اور اس پر عملدرآمد کو ییقنی بنانا ہے اور اس پر کسی بھی قسم کے دباؤ کو زائل کرنا اور اس کے لیے کوشش کرنا ہے؟
کیا آئین اور عدلیہ کے آزادی جیسے بنیادی مسائل پر سیاسی جماعتوں کو ہونٹ سی کر بیٹھے رہنا چاہیے اور وکلا کو حکومتی جبر و استبداد کے سامنے کھلا چھوڑ دینا چاہیے ؟
کیا تاریخ اور عوام ان سیاسی جماعتوں کو اس اہم ترین اور نازک موڑ پر جس میں عدلیہ کی آزادی اور انتظامیہ سے علیحدگی جیسے انتہائی ضروری اور بنیادی مسئلہ پر الگ تھلگ کھڑا رہنے اور اپنا کردار ادا نہ کرنے پر معاف کرسکتے ہیں
فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ پہلے چیف جسٹس کے وکلاء نے کیا تھا جسے حکومتی وکلا نے مسترد کردیا اور عدالت نے بھی قبول نہ کیا اس کے بعد حکومتی وکلا نے اس کا مطالبہ کیا اور یہ قائم کر دیا گیا اس ایک بات سے ہی عدلیہ کی آزادی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر اتنا بھرپور احتجاج اور عوام کا ساتھ اور سیاسی جماعتوں کا واویلا نہ ہوتا تو حکومت من چاہا فیصلہ من چاہے وقت میں حاصل کر لیتی ۔
آئیں ان سوالوں پر غور کریں اور جواب تلاش کریں۔
میرے خیال سے اس کا سادہ اور بالکل واضح جواب یہ ہے کہ چیف جسٹس نے کہیں بھی آئین سے ماورا بات نہیں کی اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی کا اظہار کیا ہے اور نہ حکومت پر تنقید کی ہے اور نہ قانون کے دائرہ کار سے نکل کر کوئی حرکت کی ہے۔ جنرل مشرف کے برعکس کہیں یہ دعوی نہیں کیا کہ میں حقائق قوم کو بتاؤںگا اور نہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم گنوائے ہیں۔ تمام خطبات میں آئین کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی کی بات کی ہے جو تمام عوام کا مطالبہ ہے اور آئینی تقاضہ بھی۔ بار سے خطاب وہ پہلے بھی کرتے آئے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں یہ نہ تو نئی بات ہے نہ سیاسی قدم۔ البتہ اب لوگ بھی ذوق و شوق سے سنتے ہیں انہیں تو حکومتی حلقوں کو یہ سیاسی رویہ لگ رہا ہے۔
دوسری بات کسی کو منوانے کی ضرورت ہی نہیں سیاسی جماعتیں اور جتنے بھی لوگ ہیں وہ اس مسئلے پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور بناتے رہیں گے ورنہ عدلیہ کے ساتھ جو سلوک پہلے ہوتا رہا ہے وہ پھر سے ہو جاتا اور دو ہفتوں میں کیس کا فیصلہ چیف جسٹس کے خلاف لے چکے ہوتے۔ وکلا نے شروع سے خود کو سیاسی جماعتوں سے الگ رکھا ہے اور بار کے تمام خطبات میں سیاسی کارکنوں کو باہر ہی رکھا گیا ہے اور اسی وجہ سے وکلا نے کراچی میں بھی اپوزیشن کو استقبال سے علیحدہ رکھا۔
سب سے پہلے تو میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ آئین کیا سیاست سے ہٹ کر کوئی چیز ہے ، کیا آئین سیاسی جماعتیں اور سیاسی جماعتوں پارلیمنٹ میں ہی نہیں بناتی اور کیا اس میں ترمیم اور اضافے سیاسی جماعتیں ہی نہیں کرتیں۔کیا آئین اور قانون پر سیاسی جماعتیں خاموش بیٹھا کرتی ہیں اور کیا آئین اور قانون کی پاسداری کے لیے جدوجہد کرنا سیاسی جماعتوں کا اولین فریضہ نہیں ہے۔ کیا عدلیہ کی آزادی کے لیے وکلا کی حمایت اور عوام کے اندر شعور پیدا کرنا سیاسی جماعتوں کا بنیادی فریضہ نہیں ہے ؟ کیا ایسا کرنا سیاست کو چمکانا ہے
کیا پارلیمنٹ کو ہم مقننہ نہیں کہتے جس کا کام ہی قانون بنانا اور اس پر عملدرآمد کو ییقنی بنانا ہے اور اس پر کسی بھی قسم کے دباؤ کو زائل کرنا اور اس کے لیے کوشش کرنا ہے؟
کیا آئین اور عدلیہ کے آزادی جیسے بنیادی مسائل پر سیاسی جماعتوں کو ہونٹ سی کر بیٹھے رہنا چاہیے اور وکلا کو حکومتی جبر و استبداد کے سامنے کھلا چھوڑ دینا چاہیے ؟
کیا تاریخ اور عوام ان سیاسی جماعتوں کو اس اہم ترین اور نازک موڑ پر جس میں عدلیہ کی آزادی اور انتظامیہ سے علیحدگی جیسے انتہائی ضروری اور بنیادی مسئلہ پر الگ تھلگ کھڑا رہنے اور اپنا کردار ادا نہ کرنے پر معاف کرسکتے ہیں
فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ پہلے چیف جسٹس کے وکلاء نے کیا تھا جسے حکومتی وکلا نے مسترد کردیا اور عدالت نے بھی قبول نہ کیا اس کے بعد حکومتی وکلا نے اس کا مطالبہ کیا اور یہ قائم کر دیا گیا اس ایک بات سے ہی عدلیہ کی آزادی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر اتنا بھرپور احتجاج اور عوام کا ساتھ اور سیاسی جماعتوں کا واویلا نہ ہوتا تو حکومت من چاہا فیصلہ من چاہے وقت میں حاصل کر لیتی ۔