سیاسی جماعت کی سینیٹ نشستیں صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کے مطابق ہونی چاہئیں، سپریم کورٹ

جاسم محمد

محفلین
سینیٹ کے ممبرز متناسب نمائندگی کے ذریعے نہیں بنتے، اسمبلیوں کے ممبران کی آزادانہ رائے دہی کے نتیجے میں بنتے ہیں۔ اگر متناسب نمائندگی کا اصول اپنایا جائے تو پھر چھوٹی پارٹیاں کہاں جائیں گی۔
اس بات کوسمجھنے کی رتی بھرکوشش کوئی بھی سوڈو انٹیلکچوئل نہیں کرے گا ۔ ذہن کام کرنا اچانک بند ہو جائے گا ۔
سینیٹ میں متناسب نمائندگی آئین پاکستان کے آرٹکل ۵۹ کا حصہ ہے مگر جنگ جیو گروپ کے لفافے عوام کو بیوقوف اور فوج مخالف بنانے میں لگے ہوئے ہیں
4-EA73-BE9-D40-F-45-DC-9-C83-1-C33-C876435-F.jpg
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
چیف الیکشن کمشنر نے پتے کی بات کہہ دی کہ آئین کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہوسکتا۔ خفیہ رائے دہی کا مطلب خفیہ رائے دہی ہی ہوتا ہے۔ آئین میں تبدیلی صرف اور صرف پارلیمنٹ ہی کرسکتی ہے۔
یہ بات درست ہے۔ آئین میں خفیہ رائے دہی ہی لکھا ہے۔ لیکن کیا آئین میں یہ بھی لکھا ہے کہ کسی ایک پارٹی کی ٹکٹ سے الیکشن جیتا ہوا رکن اسمبلی خفیہ رائے دہی کے تحت کسی اور پارٹی کا سینیٹ امیدوار جتوا دے؟
یا تو سینٹ انتخابات میں امیدوار سیاسی وابستگیوں سے آزاد و خود مختار لائے جائیں۔ اور پھر اراکین اسمبلی کو یہ حق دیا جائے کہ ان میں سے جو بہتر سمجھتے ہیں منتخب کر لیں۔ جیسا کہ برطانیہ میں ہوتا ہے:
F378-D38-F-099-A-4024-A3-AA-DC43-C2-A8-F66-B.jpg

اگر ایسا ممکن نہیں اور سینیٹ کے تمام امیدوار سیاسی جماعتوں نے ہی پیش کرنے ہیں۔ تو پھر آئین کے آرٹکل ۵۹ کے تحت ان کو سیاسی جماعتوں کے صوبائی اور قومی تناسب سے منتخب کر کے سینیٹ میں لایا جائے۔
یہ نہیں ہو سکتا کہ سینیٹ کا ٹکٹ تو سیاسی بنیادوں پر ملے مگر اراکین اسمبلی جو کسی پارٹی کے ٹکٹ سے الیکشن جیت کر آئے ہیں۔ وہ اپنا ووٹ کسی اور سیاسی جماعت کے سینیٹ امیدوار کو ڈال دیں۔ اور یوں سینیٹ کا حلیہ قومی اور صوبائی عوامی نمائندگی سے متصادم بنا دیا جائے۔
اس کرپٹ پریکٹس کا سد باب ضروری ہے۔ اور سپریم کورٹ اس وقت یہی کام کر رہی ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اس بات کوسمجھنے کی رتی بھرکوشش کوئی بھی سوڈو انٹیلکچوئل نہیں کرے گا ۔ ذہن کام کرنا اچانک بند ہو جائے گا ۔
پچھلے سینیٹ الیکشن میں ملک کی سب سے قدیم جمہوری انقلابی جماعت پیپلز پارٹی نے دوسری جماعتوں کے اراکین اسمبلی خرید کر اپنے سینیٹر بنائے تھے۔ وہ ماضی کی طرح اب بھی اسمبلیوں میں اپنی عوامی نمائندگی سے زیادہ سینیٹر بنوانا چاہتی ہے۔ اور اس کا جواز آئین سے پیش کر رہی ہے۔
 
اگر آئین میں خفیہ رائے دہی کا ذکر ہے تو سپریم کورٹ اس کے خلاف نہیں جا سکتی۔ البتہ جیسے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر بیلٹ باکس کھولا جا سکتا ہے۔ ویسا ہی کچھ یہاں بھی کرنے کا حکم جاری کر سکتی ہے۔ ایسی صورت میں بکنے والے اراکین اسمبلی پکڑے جائیں گے۔
بیلٹ باکس کھل سکتا ہے لیکن ووٹ پر کسی قسم کا نشان سوائے مہر کے اسے رد کرسکتا ہے۔ بیلٹ باکس کھنے کے بعد صرف یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ کس امیدوار کے کتنے ووٹ ہیں۔ نیز یہ بھی کہ آیا کچھ رد کیے گئے ووٹ بھی الگ گنتی کرلیے گئے ہیں۔ مزید کچھ نہیں۔
 
یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے کیونکہ آئینی طور پر آئین کی تشریح کرنے کا ادارہ صرف سپریم کورٹ ہے۔ اگر سپریم کورٹ سمجھتی ہے کہ سینیٹ میں عوامی نمائندگی قومی اور صوبائی اسمبلی میں موجود عوامی نمائندگی کی بنیاد پر ہی ہوگی۔ تو اس فیصلہ سے ہارس ٹریڈنگ اور دیگر شاطرانہ ہتھکنڈوں سے اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گا۔ یہ ملک جمہوری انقلابیوں کی من پسند آئینی تشریح کا پابند نہیں۔
سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح کا اختیار ہے، اس کی کسی بھی شق کو تبدیل کرنے کا نہیں۔

نظریۂ ضرورت کے دن لد گئے۔ ہائیبرڈ قوتیں نظریۂ ضرورت کا اطلاق نہیں کرسکتیں۔
 
یہ بات درست ہے۔ آئین میں خفیہ رائے دہی ہی لکھا ہے۔ لیکن کیا آئین میں یہ بھی لکھا ہے کہ کسی ایک پارٹی کی ٹکٹ سے الیکشن جیتا ہوا رکن اسمبلی خفیہ رائے دہی کے تحت کسی اور پارٹی کا سینیٹ امیدوار جتوا دے؟
یا تو سینٹ انتخابات میں امیدوار سیاسی وابستگیوں سے آزاد و خود مختار لائے جائیں۔ اور پھر اراکین اسمبلی کو یہ حق دیا جائے کہ ان میں سے جو بہتر سمجھتے ہیں منتخب کر لیں۔ جیسا کہ برطانیہ میں ہوتا ہے:
F378-D38-F-099-A-4024-A3-AA-DC43-C2-A8-F66-B.jpg

اگر ایسا ممکن نہیں اور سینیٹ کے تمام امیدوار سیاسی جماعتوں نے ہی پیش کرنے ہیں۔ تو پھر آئین کے آرٹکل ۵۹ کے تحت ان کو سیاسی جماعتوں کے صوبائی اور قومی تناسب سے منتخب کر کے سینیٹ میں لایا جائے۔
یہ نہیں ہو سکتا کہ سینیٹ کا ٹکٹ تو سیاسی بنیادوں پر ملے مگر اراکین اسمبلی جو کسی پارٹی کے ٹکٹ سے الیکشن جیت کر آئے ہیں۔ وہ اپنا ووٹ کسی اور سیاسی جماعت کے سینیٹ امیدوار کو ڈال دیں۔ اور یوں سینیٹ کا حلیہ قومی اور صوبائی عوامی نمائندگی سے متصادم بنا دیا جائے۔
اس کرپٹ پریکٹس کا سد باب ضروری ہے۔ اور سپریم کورٹ اس وقت یہی کام کر رہی ہے۔
جو بھی نیا کرنا ہے اس کے لیے صرف ایک ادارہ مجاز ہے اور وہ پارلیمنٹ ہے۔ کوئی ایرا غیرا کسی فاشسٹ کی خواہش پر کچھ بھی نہیں کرسکتا۔
 
پچھلے سینیٹ الیکشن میں ملک کی سب سے قدیم جمہوری انقلابی جماعت پیپلز پارٹی نے دوسری جماعتوں کے اراکین اسمبلی خرید کر اپنے سینیٹر بنائے تھے۔ وہ ماضی کی طرح اب بھی اسمبلیوں میں اپنی عوامی نمائندگی سے زیادہ سینیٹر بنوانا چاہتی ہے۔ اور اس کا جواز آئین سے پیش کر رہی ہے۔
ایسی حرکات کا راستہ روکنا ہے تو آئینی ترمیم ہی واحد راستہ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایسی حرکات کا راستہ روکنا ہے تو آئینی ترمیم ہی واحد راستہ ہے۔
کیا ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے بھی آئینی ترمیم کرنی پڑے گی؟ اس کا تو یہی مطلب نکلتا ہے کہ ہارس ٹریڈنگ موجودہ آئین کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ اور جن اراکین اسمبلی کا کام آئینی ترمیم کرکے ہارس ٹریڈنگ روکنا ہے، وہ خود اس گندے نظام سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اس لئے وہ اپنے مفاد کے خلاف کوئی آئینی ترمیم پاس ہونے نہیں دیں گے۔ اب سپریم کورٹ ہی کچھ کر سکتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بیلٹ باکس کھل سکتا ہے لیکن ووٹ پر کسی قسم کا نشان سوائے مہر کے اسے رد کرسکتا ہے۔ بیلٹ باکس کھنے کے بعد صرف یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ کس امیدوار کے کتنے ووٹ ہیں۔ نیز یہ بھی کہ آیا کچھ رد کیے گئے ووٹ بھی الگ گنتی کرلیے گئے ہیں۔ مزید کچھ نہیں۔
سپریم کورٹ کے ججز نے اس سے اتفاق نہیں کیا:

سینیٹ ووٹ کو خفیہ رکھ کر جرم کی حوصلہ افزائی کرنے والی بات ہے، سپریم کورٹ
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
2144910-supremecourt-1613643059-512-640x480.jpg

خفیہ رائے شماری میں متناسب نمائندگی نہ ہوئی تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی، سپریم کورٹ

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت میں ہارس ٹریڈنگ کو تسلیم کیا ہے۔

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ کیا انتخابات 2021 کے لیے کوئی ہدایت نامہ تیار ہوا؟۔

سیکرٹری الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ حالیہ سینیٹ انتخابات کے لیے ہدایت نامہ ابھی جاری کرنا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے دلائل میں کہا کہ ہدایت نامہ میں متناسب نمائندگی اور خفیہ ووٹنگ کا ذکر ہے، آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم، وزرائے اعلی کے علاوہ ہر الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہو گا، ووٹ ڈالنے کا عمل خفیہ نہیں ہونا چاہیے، موجودہ حالات میں شخصیات کو نہیں اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا، اراکین اسمبلی کو سیاسی جماعتیں لیکر آتی ہیں جنہیں مزید مضبوط کرنا ہو گا، بلواسطہ انتخابات میں اراکین پارٹی ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں، ماضی میں بھی غیر قانونی طریقے سے مینڈیٹ چوری ہوا، آصف زرداری نے اب بھی کہا کہ تمام دس نشستیں جیتیں گے، ان کا بیان سیاسی ہے لیکن مینڈیٹ کے برعکس ہے، الیکشن کمیشن کا کام کرپشن ہونے سے پہلے روکنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا اطلاق سینیٹ انتخابات پر نہیں ہوتا، آئین کا آرٹیکل 59 سینیٹ کے حوالے سے ہے جس میں خفیہ ووٹنگ کا کوئی ذکر نہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دینے پر کوئی سزا نہیں، جس پارٹی کے خلاف ووٹ دینا ہے کھل کر دے، سزا صرف ووٹوں کی خریدوفروخت پر ہو سکتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 59 اور 226 کو ملا کر پڑھنا ہوگا، خفیہ رائے شماری میں متناسب نمائندگی نہ ہوئی تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ متناسب نمائندگی سینیٹ میں صوبوں کی ہوتی ہے کسی جماعت کی نہیں، ریفرنس میں اٹھایا گیا سوال ہی غیر مناسب ہے، ہارس ٹریڈنگ کا سب نے سنا ہے کسی کے پاس شواہد نہیں، اخباری خبروں اور ویڈیوز تک ہی ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے، عدالت کو سیاسی سوالات سے دور رہنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے انہیں ٹوکا کہ آئین بذات خود بھی ایک سیاسی دستاویز ہے، آئینی تشریح کرتے وقت عدالت سیاسی کام ہی کر رہی ہوتی ہے، کیا الیکشن رزلٹ کے بعد ووٹ کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ گنتی کے وقت ووٹ کو دیکھا جاتا ہے، تاہم ووٹ ڈالنے والے کا علم نہیں ہوتا، آئین ووٹ ڈالنے والے کی شناحت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دیتا، کیا اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہو جائے گی؟۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہو گی یا نہیں کچھ نہیں کہہ سکتے، پیسہ چلنے کے شواہد سامنے آئیں تو الیکشن کمیشن کارروائی کرے گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ پارٹی لائن کے خلاف ووٹ سامنے آنے پر الیکشن کمیشن تحقیقات کر سکے گا، پیسے کا لین دین نہ ہوا تو بات ہی ختم ہو جائے گی، انتخابی عمل میں کرپشن پر استثنی نہیں مل سکتا، الیکشن کمیشن کو پہلے اطمینان کرنا ہے الیکشن میں گڑ بڑ ہوئی ہے۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس بیلٹ پیپرز سے اچھا ثبوت کوئی نہیں ہو سکتا، سب سے پکا ثبوت ہی کمیشن کے پاس نہ ہو تو کیا کارروائی ہوگی۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ کیا ووٹر کی شناخت ظاہر ہونا کرپشن کا ثبوت ہے؟، عدالت کو پارٹی ڈسپلن کو تحفظ دینے کا کہا جارہا ہے، رشوت اور ووٹوں کی خریدوفروخت الیکشن ایکٹ کے تحت جرم ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تو کہہ رہے ہیں ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہی نہیں، حالانکہ پارلیمان میں قراردادیں منظور ہوتی رہیں کہ ہارس ٹریڈنگ ختم ہونی چاہیے، اٹارنی جنرل نے قراردادیں بھی عدالت کو دے دی ہیں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت میں ہارس ٹریڈنگ کو تسلیم کیا ہے، آپ کو بطور نمائندہ سندھ حکومت سن رہے ہیُں پیپلز پارٹی کے وکیل کے طور پر نہیں۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ بادی النظر میں کوئی ثبوت ہو تو ووٹوں کا جائزہ لینے کا اختیار ہونا چاہیے، ووٹ کا جائزہ لیے بغیر جرم کیسے ثابت ہو گا؟۔

سلمان طالب الدین نے کہا کہ صرف ووٹ دیکھنے سے بھی تو جرم ثابت نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صرف رقم کی ادائیگی مسئلہ نہیں وہ کسی بھی مد میں ہوسکتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ووٹ کو خفیہ رکھ کر جرم کی حوصلہ افزائی کرنے والی بات ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا مخصوص نشستوں پر ہونے والا الیکشن آئین کے تحت ہوتا ہے؟، خفیہ رائے شماری کا اطلاق مخصوص نشستوں پر کیوں نہیں ہوتا؟۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ الیکشن آئین کے تحت ہی ہوتا ہے، لیکن مخصوص نشستوں پر طریقہ کار مختلف ہے، مخصوص نشستوں پر خفیہ ووٹنگ نہیں ہوتی بلکہ سیاسی جماعتیں نامزدگیاں کرتی ہیں، آرٹیکل 226 کا اطلاق وہاں ہوتا ہے جہاں ووٹنگ ہو، لیکن اس آرٹیکل کی ایسی تشریح نہیں کی جاسکتی کہ آئین میں ترمیم کا تاثر ملے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مخصوص نشستوں پر ووٹنگ نہیں ہوتی پھر بھی اسے الیکشن کہا جاتا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے اٹارنی جنرل کے دلائل اپناتے ہوئے کہا کہ قرآن پاک میں بھی کرپشن سے منع کیا گیا ہے، دنیا نے انتخابی عمل سے کرپشن روکنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی نے بھی اٹارنی جنرل والے دلائل اپناتے ہوئے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں کرپشن کی ویڈیو سامنے آچکی ہے، ووٹ کو خفیہ رکھنے کا عمل پولنگ اسٹیشن تک محدود ہے، الیکشن کمیشن آج تک شفاف انتخابات نہیں کروا سکا۔

سپریم کورٹ نے سماعت کل ساڑھے دس بجے تک ملتوی کردی۔
 

جاسم محمد

محفلین
سینیٹ کے ممبرز متناسب نمائندگی کے ذریعے نہیں بنتے، اسمبلیوں کے ممبران کی آزادانہ رائے دہی کے نتیجے میں بنتے ہیں۔ اگر متناسب نمائندگی کا اصول اپنایا جائے تو پھر چھوٹی پارٹیاں کہاں جائیں گی۔
اس بات کوسمجھنے کی رتی بھرکوشش کوئی بھی سوڈو انٹیلکچوئل نہیں کرے گا ۔ ذہن کام کرنا اچانک بند ہو جائے گا ۔
اب حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ جمہوری انقلابی چیف جسٹس پاکستان کو سرعام دھمکیاں لگا رہے ہیں۔ شریف مافیا یہی ہتھکنڈےسزا یافتہ مجرم نواز کے پاناما کیس کے دوران ہتھکنڈے استعمال کیا کرتا تھا۔ مطلب ہماری پسند کا فیصلہ دو نہیں تو تمہاری حیثیت کیا ہے؟
 
Top